ترک صدر اردوان کو یقین تھا کہ عوام جمہوریت کے لئے نکلیں گے


اُنیس سو بیس کے لگ بھگ جب تُرکی اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑ رہا تھا تو ایک دن ترک فوج کے ایک میجر اپنے دو سپاہیوں کے ساتھ دشمن کے نرغے میں آگیا۔ اور شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔ میجر اور ایک سپاہی نے بھاگ کر مورچے میں پناہ لی، جب کہ ان کا ایک ساتھی فائرنگ کی زد میں آگیا اور گر پڑا۔ ساتھی سپاہی نے دیکھا تو گولیوں کی بوچھاڑ میں دوڑ کر اپنے ساتھی کو اُٹھایا اور مورچے میں لے آیا لیکن وہ مر چکا تھا۔ میجر نے گمبھیر اُداسی کے ساتھ اپنے ساتھی کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ جب تم اس کے پاس پہنچے تو یہ زندہ تھا۔ سپاہی نے کہا ہاں سر یہ زندہ تھا۔ میجر نے پھر پوچھا۔ اس نے کچھ کہا تو نہیں سپاہی نے جواب دیا کہ جب میں اسے اُٹھانے کے لئے اس کے قریب گیا، تو اس نے لمحہ بھر کو آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھ کر ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا کہ ”مجھے معلوم تھا تم آؤ گے“ اور پھر یہ جملہ ترک قوم کی اجتماعی نفسیات اور رویہ بنتا گیا۔ حتٰی کہ ان کی زندگی میں پندرہ جولائی دو ہزار سولہ کا دن آگیا۔

پہلے طیب اردوان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ استنبول کے قریب سمپاسا نامی قلعے میں کوسٹ گارڈ کے ایک غریب ملازم کے ہاں پیدا ہوئے مقامی سکول امام حاتف (جس میں مذہبی تعلیم بھی دی جاتی تھی) میں داخل ہوئے۔ بعد میں بزنس ایڈمنسٹریشن پڑھی اور فٹ بال کھیلتے رہے۔ انہی دنوں نیشنل ٹرکش سٹوڈنٹس یونین میں شامل ہوئے۔ اس پسِ منظر نے مل کر اردوان کی شخصیت میں قربانی، مینجمنٹ، تحریک اور ڈٹ جانے کا رنگ بھرا۔ ستائیس مارچ اُنّیس سو چورانوے کو وہ استنبول کے میئر بنے تو یہ شہر غلاظت، ماحولیاتی آلودگی، پانی کی کمی اور ٹریفک مسائل کا ایک نوحہ بنا ہوا تھا۔ اردوان نے سینکڑوں کلومیٹر پائپ لائن پچاس سے زائد فلائی اوورز اور گندگی کے لئے ری سائیکل پلانٹ لگا کر مسائل کو جڑ سے اُکھاڑ کر رکھ دیا اور جب وہ مئیر کی کرسی چھوڑ کر جا رہے تھے تو اُنھوں نے استنبول پر چار بلین ڈالرز سے زائد رقم لگا کر اسے دنیا کا خوب صورت ترین شہر بنا دیا تھا۔

اس لئے جب اردوان نے دو ہزار ایک میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی بنائی تو ترک عوام نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ایک سال کے اندر اندر انہوں نے الیکشن جیتا وزیرِ اعظم بننے کے فوری بعد اس نے مشہور ماہر اقتصادیات علی باباجان کو فنانس منسٹر بنایا۔ جس نے نئی قانون سازی کی اور فارن انویسٹرز کو ترکی کی جانب کھینچا۔ دو ہزار دو سے دو ہزار بارہ تک (اردوان دور) جی ڈی پی میں 43% اضافہ ہوا۔ زر مبادلہ کے ذخائر چھ ملین سے اٹھاون بلین ڈالر ہوگئے۔ یونیورسٹیوں کی تعداد اٹھانوے سے ایک سو چھیاسی ہوگئی۔ آئی ایم ایف کا قرضہ 23.05 سے کم ہوکر0.9 پر آگیا۔ سڑکوں کی لمبائی چھ ہزار سے ساڑھے تیرہ ہزار کلومیٹر ہوگئی۔ دھتکارے ہوئے کردوں سے کامیاب مذاکرات کیے اور ان پر پابندی ختم کر دی۔

پھر پندرہ جولائی دو ہزار سولہ کی تاریخی رات ترک سرزمیں پر اُتری۔ جب شام ڈھلے سرکش فوج کے ٹینک انقرہ میاں ایوان صدر کا رخ کرتے ہیں کہ اس دوران ایک پرائیویٹ ٹیلی وژن کے نمائندے کا رابطہ صدر اردوان سے ہوجاتا ہے۔ جو ساحلی شہر مار ماریس کے ایک ہوٹل میں موجود تھے۔ وہ اپنے آئی فون سے ویڈیو کال کے ذریعے عوام سے مختصر خطاب میں کہتے ہیں کہ ریاست میں عوام سب سے طاقتور ہیں اس لئے جمہوریت کی خاطر گھروں سے باہر نکلو، فوج کا راستہ روکو اور مزاحمت شروع کر دو۔ اس خطاب کو ٹیلیویژن نیٹ ورک لائیو نشر کر دیتا ہے۔ اردوان کے خطاب کے ساتھ ہی عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ٹینکوں پر قبضہ کرتے ہیں اور فوجیوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ استنبول سمیت تمام شہروں تک پھیل جاتا ہے اور پانسہ پلٹ جاتا ہے۔ جب اردوان اپنے ہیلی کاپٹر سے اُتر کر عوام کے درمیان آجاتے ہیں تو گویا پورا ترکی اُمڈ آتا ہے اور طیب اردوان کے چہرے سے عیّاں اعتماد اور تشّکر اس بات کا غماز ہوتا ہے کہ مجھے معلوم تھا تم آؤ گے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).