ایک صدی پہلے برما ریلوے میں ملازمت اور رنگون کی عورتیں


(میرے دادا جان (1892-1963 ) ایک سیلانی آدمی تھے۔ غلام محمد نام تھا لیکن بابو غلام محمد مظفر پوری کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کے متعلق ان کا کہنا ہوتا تھا کہ انھوں نے اس کا چپہ چپہ دیکھا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بسلسلہ ملازمت برما، ایران، عراق اور مشرقی افریقا کے ممالک (کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ) میں ان کا قیام رہا تھا۔ افریقا میں قیام کے دوران ہی (1938-46) انہوں نے اپنی سوانح لکھنا شروع کی تھی جس کا نام” سفری زندگی“ رکھا تھا۔  ”سفری زندگی“ کے کچھ اقتباسات “ہم سب” میں شائع ہو چکے ہیں۔ زیر نظر اقتباس میں برما میں قیام کا احوال بیان کیا ہے

٭٭٭    ٭٭٭

1923  کے اخیر پر بی بی اینڈ سی آئی ریلوے گودھرا سے استعفا دے کردہلی سے ہوتا ہوا براستہ کلکتہ برما چلا گیا۔ اس سفر کے دوران میں میرے ساتھ بابو کریم بخش تھا جو کہ گھر میں بے کار بیٹھا ہوا تھا۔ اس کو اب میں کام سکھلانے کے لیے ہمراہ لے جا رہا تھا۔ میں نے اس کو خط لکھ کر دہلی ملنے کے لیے تاریخ مقرر کر کے بلا لیا تھا۔ کلکتہ میں ہم لوگوں نے دو تین دن قیام کیا پھر جہاز پر سوار ہو کر رنگون پہنچ گئے۔ اس وقت کلکتہ سے ہر تیسرے روز رنگون کو جہاز چلا کرتا تھا۔

مجھے نوکری کا لیٹر محکمے سے، جو کہ نہر ی تھا، پہلے ہی آ چکا تھا اس لیے رنگون پہنچ کر ایکسیئن کے دفتر میں آمد کی اطلاع دی اور اپنے کام میں لگ گئے۔ چند روز مسافر خانہ میں رہ کر بعد ازاں اراواڈی سروے میں چلے گئے جو کہ ہینزڈا اور پروم کے علاقے میں ہونے والا تھا۔ یہ علاقہ بڑا زرخیز ہے۔ فصل اور آبادی کے لحاظ سے پنجاب کے علاقے جیسا ہے۔ رنگون سے بذریعہ گاڑی پروم تک گئے۔ وہاں سے اراواڈی دریا بذریعہ کشتی عبور کرکے شام کو ایک گاؤں میں پہنچے جہاں پر سروے پارٹی نمبر دو پہلے ہی کام شروع کر چکی تھی۔ اس پارٹی کا انچارج مسٹر ہال جون تھا جو کہ برما میں بہت دیر سے قیام پذیر تھا، بڑا جہاں دیدہ اور تجربہ کار افسر تھا۔

 جب ہم رات کو اس گاؤں میں پہنچے تو ہمارے قیام کے لیے کوئی خاص جگہ مقرر نہیں کی گئی تھی اور ہمارے تنبو وغیرہ ابھی پیچھے آ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے اپنا قیام ایک بت خانہ میں کیا جس کو برمی زبان میں پونگی چاؤں کہتے ہیں۔ رات کا کھانا ہم نے دو سرویئر صاحبان دینا ناتھ اور نوندر سنگھ کے ساتھ کھایا۔ جب ہم ان کی رہائش یعنی کیمپ میں گئے تو انھوں نے خنزیر کا گوشت رسیوں میں پرو کر اپنے تنبوؤں کے اردگرد سوکھنے کے لیے لٹکایا ہوا تھا۔ میں نے تو چنداں پروا نہ کی لیکن میرے ساتھی بابو کریم بخش بہت تلملائے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یہ پردیس ہے، برما میں جنگلی اور پالتو سور بہت ہوتے ہیں، غصہ مت کرو اور ابھی دیکھو آگے آگے کیا ہوتا ہے۔ خیر میں نے ہنستے ہوئے اس سکھ اور ہندو صاحبان سے کہا بھئی ہم کو سور مت کھلانا، صرف سبزی دال پر ہی کفایت کرنا۔ انھوں نے بھی خندہ پیشانی سے فرمایا ہم کو قدرے معلوم ہے کہ آپ ہر دو صاحبان مسلمان ہیں۔ خیر ہم کھانا وغیرہ کھا کر ان کے پاس ہی سو رہے۔

 صبح جب ہم نے اپنا مسلمان لوٹا لے کر ان صاحبان کے باورچی خانے سے پانی طلب کیا تو باورچی صاحب، جو ایک مذہبی سکھ تھا اور رنگ کا اچھا خاصا کالا تھا، ہمارا لوٹا دیکھتے ہی سیخ پا ہو گیا اور کہنے لگا: کیا آپ لوگ مسلمان ہیں؟ ہم نے کہا ماشااللہ۔ تو اس نے کہا میں نے سخت غلطی کی آپ کے جوٹھے برتن اپنے برتنوں میں رکھ لیے۔ ہم نے اس سے عرض کی یہ ہمارا قصور نہیں، یہ آپ کے بابوؤں کی غلطی ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ ہم مسلمان ہیں۔

دیکھا میرے بھائی ہندو، یہ کیا اس سکھ نے ہمارے ساتھ اور وجہ وہی چھوت چھات۔ اس وقت ہمارا دل کیسے دکھا یا پشیمان ہوا ہو گا وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم مسلمانوں کی فراخ دلی کا نقطہ نظر ملاحظہ فرمائیں۔ ہم نے سور کا گوشت چاروں طرف لٹکے ہوئے اپنے ہندو بھائیوں کی دعوت قبول کی اور کچھ برا خیال نہیں کیا۔

 اس دوران میں ایک نیا افسر انگلینڈ سے آیا جس کا نام مسٹر Clixton تھا جو کہ انگلش یہودی تھا۔ اس کی الگ پارٹی نمبر1 بنائی گئی۔ اس نمبر1 پارٹی میں مجھے لیول کا سب کام بغیر چیک لیول کے اکیلے ہی کرنا پڑا۔ میں نے ساٹھ میل لیول بغیر کسی دوسرے کی امداد کے کیا اور بہت درست کیا جو کہ میرے سروس سرٹیفکیٹ میں درج ہے جو میرے استعفا دینے پر میرے افسر انچارج نے مجھے دیا تھا۔ استعفا کی وجہ صرف ترقی نہ دینا تھی۔ چونکہ میں نے دو سروئیر کا کام اکیلے کیا تھا اس لیے میں نے ترقی کی درخواست دی جس کا جواب ایکسیئن نے یہ دیا کہ اگلے موسم میں دیکھا جائے گا۔ اب موسم برسات کی آمد ہے، فیلڈ کا کام بند ہو جانا ہے۔

اپر برما میں ملازمت

 اس دوران میں مجھے دوسری جگہ یعنی برما کارپوریشن کمپنی نامتو، اپربرما ، کی طرف سے مستقل سروئیر کی جگہ کے لیے نوکری کی چٹھی آ گئی، بس میں نے استعفا دے دیا اور نامتو، اپربرما کو چل دیا۔ وہاں پر بابو کریم بخش کو بطور اسسٹنٹ سرویئر کے نوکر کرانے میں مجھے کامیابی ہو گئی۔ چند روز کام کرنے کے بعد ہی میں بیمار ہو گیا کیونکہ وہاں کی آب و ہوا بہت خراب تھی۔ کمپنی نے میری اس بیماری کے ایام کی تنخواہ کاٹ لی جس پر میرے اور کمپنی کے مابین جھگڑا شروع ہو گیا۔ اسی کش مکش میں گیارہ ماہ بعد میں نے استعفا دے دیا۔ اور مع بابو کریم بخش کے انڈیا کی راہ لی۔ نامتو سے برما ریلوے تک تیس میل کے فاصلہ میں کمپنی کی لائٹ ریلوے لائن تھی۔ کمپنی نے میرے استعفے سے ناراض ہو کرمجھے پاس دینے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ ریلوے ان کی پرائیویٹ تھی، مسافروں کے لیے نہیں تھی۔ میں اور بابو کریم بخش بڑی مشکل سے اسٹیشن ماسٹر مسٹر فتح محمد، جو کہ لدھیانہ کا رہنے والا تھا، سے مل ملا کر رات کے وقت نامتو سے گم نامی میں برما ریلوے لائن تک پہنچے جہاں سے گاڑی میں سوار ہو کر رنگون آ گئے۔ پھر ہم نے دوبارہ برما میں سروس کے لیے کوئی کوشش نہیں کی، کلکتہ کا ٹکٹ خرید کر جہاز پر سوار ہو کر کلکتہ پہنچ گئے۔

برما کارپوریشن سے میرے استعفے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ وہاں پر ہم ہندوستانیوں کے نام کے پہلے نہ مسٹر نا ہی بابو وغیرہ لکھا جاتا تھا۔ تنخواہ مہینہ میں دو دفعہ کھڑکی کے سامنے قلیوں کی طرح وصول کرنا پڑتی تھی۔ زیادہ تر افسر آسٹریلیا کے تھے جو کہ بالکل جاہل اور اجڈ آدمیوں جیسی خصلتیں رکھتے تھے اور بلاتے بھی ویسے ہی تھے۔ وہ آپس میں بھی تہذیب وتمدن سے کورے ہی نظر آتے تھے۔

اس طرح نوکری کے سلسلے میں اپر برما کی سیر ہو گئی۔ قریباً پونے دو سال برما ملک میں رہے اور وہاں کے رسم و رواج سے اور حالات سے خوب واقفیت حاصل کی۔ زبان زیادہ نہیں سیکھی کیونکہ وہاں زبان اچھی طرح سیکھ جانے پر بڑی دقتوں میں پھنس جانا پڑتا ہے بلکہ پھر وہاں کا ہی ہو جانا پڑتا ہے جیسا کہ اپنے بے شمار بھائیوں کو وہاں دیکھا گیا۔

 وہاں پر، خاص کر اپربرما میں جو کہ شان سٹیٹ کہلاتا ہے، عورتیں بہت خوبصورت اور وضعدار ہوتی ہیں اور بلا کسی جدوجہد کے مل جاتی ہیں بلکہ شام کے وقت وہ خود دروازے پر تشریف لے آتی ہیں۔ میں اور میرا ساتھی، بابو کریم بخش، ہر دو ان دنوں میں پکے نمازی تھے اور باقاعدہ تلاوت قرآن شریف کیا کرتے تھے۔ کریم بخش تو ویسے ہی باریش ملا تھا اور میں اپنی توبہ، جو کہ مدراس میں برے کاموں سے کی تھی، پر قائم تھا۔ ہم نے اس دوران قیام اس جگہ کسی سے دوستی پیدا نہیں کی تھی۔

اتنا دیکھا گیا کہ برما میں مرد کے بجائے عورت کے اختیار و حقوق زیادہ ہیں بلکہ سنا گیا تھا کہ مرد کے بجائے عورت بارات لے کر مرد کو بیاہنے جاتی ہے۔ مرد یعنی شوہر کو اپنی بیوی کے گھر رہائش اختیار کرنا پڑتی ہے جو کہ اس طرح معلوم ہوا اور دیکھا گیا۔ ایک دفع ہمارا سروے کیمپ ایک گاؤں کے نزدیک ہی لگایا گیا تھا۔ ایک دن برمی زمیندار اور اس کی بیوی باہر کھیت سے فصل ربیع کاٹ کر گھر لائے۔ کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی یا کیا ہوا ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس عورت نے اپنے شوہر کے تھپڑ رسید کر دیا۔ ہم نظارہ دیکھنے والے خوب حیران ہوئے۔ ہم نے اپنے سروے خلاصیوں سے پوچھا جو کہ برمی تھے، ان خلاصیوں نے ہمارے ذہن نشین کرایا کہ برما کا رسم و رواج ایسا ہی ہے۔

برمی لوگ عموماً مکان کے فرش پر، جو کہ لکڑی کا ہوتا ہے، سوتے ہیں۔ برما میں، خاص کر دیہات میں، مکانات کے فرش زمین سے تین چار فٹ اونچے ہوتے ہیں۔ نیچے کی جگہ برسات میں پانی کے گزرنے کے لیے کھلی چھوڑی ہوتی ہے۔ لوئر برما میں کلک یعنی سرکنڈے کا جنگل بہت ہوتا ہے۔ یہ وہی کلک یعنی سرکنڈے کی قسم ہے جس کی قلمیں پٹواری یا مدرس لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اس کو ہاتھی گھاس بھی کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).