….سعودی خواتین کی ڈرائیونگ اور تبدیلی کا سفر


24اور 25جون کی درمیانی رات بارہ بجے سعودی معاشرے میں ایک انقلاب آیا۔ بہت بڑا انقلاب۔ بہت بڑی تبدیلی، خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت عملی طور پر مل گئی۔ کچھ پرجوش خواتین نے اُسی وقت گاڑیاں نکالیں اور شاہراہوں پر نکل گئیں۔

یہ خواتین جب دوسرے ملکوں میں قیام پذیر تھیں تو گاڑی چلانا سیکھ گئیں۔ پھر وہیں سے ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیے۔ اُن لائسنسوں کی بنیاد پر ان کے لائسنس سعودی عرب میں بن گئے۔ دوسری عورتوں کے لیے ڈرائیونگ سکھانے والے سکول چل پڑے ہیں۔ یہ آغاز ہے۔

کچھ عرصہ میں خواتین کی ایک بھاری تعداد اس سلسلے میں خود کفیل ہو جائے گی اور ڈرائیور، باپ، بھائی، بیٹے یا شوہر کی محتاج نہیں رہے گی۔ ہاں! جن خاندانوں میں ماحول بہت زیادہ دقیانوسی یا سخت ہے، وہاں حکومت کی طرف سے اجازت ملنے کے باوجود یہ پابندی خاندان کے مردوں کی طرف سے برقرار رہے گی۔

مجموعی طور پر یہ ایک پدرسری معاشرہ ہے۔ مرد کو فوقیت حاصل ہے۔ کئی معاملات میں عورت مرد کی محتاج ہے۔ ظاہر ہے معاشرتی تبدیلیاں ایسے سخت گیر سماج میں بہت آہستگی اور نرم رفتاری سے واقع ہوتی ہیں۔ سالہا سال لگتے ہیں۔ بعض اوقات صدیاں درکار ہوتی ہیں۔

مغربی پریس کو مسلمان ملکوں کے خلاف کچھ نہ کچھ لکھنے یا بولنے کا بہانہ چاہیے۔ پہلے جب سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی تھی، اُس وقت مغربی میڈیا شور مچاتا تھا کہ عورتوں کے بنیادی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔عورتوں کو پتھر کے زمانے میں دھکیلا جا رہا ہے۔

اب جب ولی عہد شہزادے نے یہ ایک بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اور گاڑی چلانے کی اجازت دے دی ہے تو مغربی پریس نے ایک اور نکتہ اٹھا لیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے ایک مضمون چھاپا ہے کہ اس اجازت سے صرف ایک مخصوص طبقہ کی عورتیں فائدہ اٹھائیں گی جو امیر خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور پہلے ہی ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتی رہتی ہیں۔

یہ اعتراض محض برائے اعتراض یوں ہے کہ تبدیلی جب بھی آتی ہے، ابتدا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس اجازت سے بالائی طبقہ کے بعد، رفتہ رفتہ، مڈل کلاس بھی استفادہ کرے گی۔ ہوتے ہوتے نیچے تک تبدیلی رونما ہو جائے گی۔ سعودی خواتین پر گاڑی چلانے کی پابندی 1957ء میں لگائی گئی۔ 2002ء میں معروف رسالے اکانومسٹ نے حساب لگایا کہ تقریباً پانچ لاکھ مرد ڈرائیور، سعودی خواتین کو گاڑی چلانے کی سروس مہیا کر رہے ہیں، ان کی کل تنخواہیں ملک کی قومی آمدنی کا ایک فیصد بن رہی تھیں۔

کچھ بے خوف اور نڈر خواتین ایسی بھی تھیں جنہوں نے پولیس اور ٹریفک حکام سے چھپ کر ڈرائیونگ سیکھ لی۔ خاص طور پر دور افتادہ قصبوں اور بستیوں میں ایسا کرنا مشکل نہ تھا۔ یہ وہ خوش قسمت عورتیں تھیں جن کے باپ یا شوہر اس معاملے میں اُن کے ہم نوا تھے۔

ایک واقعہ سعودی عرب میں کچھ سال پہلے بہت مشہور ہوا۔ ایک سعودی مرد اپنے قصبے سے شہر کی طرف جا رہا تھا۔ صحرا کی طویل سڑک تھی۔ آبادی کا دور دور تک نشان نہ تھا۔ گاڑی چلاتے ہوئے اسے دل کا دورہ پڑا اور وہ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ایک طرف کو لڑھک گیا۔ قدرت کو ابھی اس کی زندگی منظور تھی۔ خوش بختی سے اس کی بیوی کو، جو ساتھ بیٹھی ہوئی تھی، ڈرائیونگ آتی تھی جو اس نے ٹریفک پولیس کی نگاہوں سے چھپ کر سیکھی تھی۔

اس نے جوں توں کر کے بے ہوش خاوند کو پچھلی سیٹ پر لٹایا اور گاڑی خود چلانے لگی۔ کئی گھنٹوں بعد ایک پٹرول پمپ پر پہنچی۔ وہاں سے مدد کرنے والے مل گئے اور مریض کو ڈاکٹر تک پہنچا دیا گیا۔ یوں اس کی جان بچ گئی۔ انسانی زندگی میں سب سے زیادہ ایمرجنسی یہی ہوتی ہے کہ کسی کی جان بچائی جائے۔ بے شمار ایسے خاندان ہیں جہاں مرد صرف ایک ہوتا ہے۔

اگر اسے آدھی رات کو کچھ ہو جائے، اور عورت گاڑی چلا سکتی ہو تو اسے نزدیک ترین ہسپتال پہنچا سکتی ہے۔ سعودی عرب کی خواتین نے اس پابندی کے خلاف 1990ء میں عملاً تحریک شروع کی۔ 47عورتوں نے دارالحکومت ریاض کی شاہراہوں پر احتجاجاً گاڑیاں چلائیں۔ انہیں اس خلاف ورزی پر ایک دن کے لیے قید کیا گیا۔ پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے۔ کچھ کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا۔ ایک طویل عرصہ خاموشی رہی۔

2007ء میں تحریک نے پھر انگڑائی لی۔ گیارہ سو خواتین کے دستخطوں کے ساتھ ایک درخواست بادشاہِ مملکت کی خدمت میں پیش کی گئی اور استدعا کی گئی کہ خواتین پر سے یہ پابندی ہٹائی جائے۔ اس تحریک میں ایک خاتون وجیہہ الحویدر نے مرکزی کردار ادا کیا۔ 2008ء میں وجیہہ نے گاڑی چلاتے ہوئے اپنی ویڈیو بنوائی اور اسے یوٹیوب پر لگا دیا۔ پابندی بین الاقوامی حوالے سے منظرِ عام پر آ گئی۔ وجیہہ الحویدر نے خواتین کے دیگر حقوق کے لیے بھی تحریک چلائی۔

سعودی خاتون اپنے خاندان کے مردوں کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کر سکتی۔ وجیہہ نے اس قانون کے خلاف عملی احتجاج کرتے ہوئے تین بار بارڈر کراس کر کے بحرین میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے تینوں بار اسے واپس بھیج دیا گیا۔ 2011ء میں ایک اور خاتون حنال الشریف سامنے آئی۔ اس نے بھی احتجاجاً شاہراہ پر گاڑی چلائی۔ کئی بار گرفتار ہوئی۔

شاہ عبدالعزیز یونیورسٹی سے سائنس میں گریجوایٹ ہونے والی حنال الشریف بین الاقوامی آئل کمپنی آرام کو میں ملازمت کر رہی تھی۔ 2017ء میں اس کی کتاب، سعودی خواتین پر گاڑی چلانے کی پابندی کے حوالے سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کا عربی سے انگریزی، جرمن، ڈینش اور ترکی میں ترجمہ کیا گیا۔ پھر اس نے فیس بک پر تحریک شروع کی بارہ ہزار خواتین نے اس کا ساتھ دیا۔

اُس نے گاڑی چلاتے ہوئے ویڈیو بنوائی۔ چھ لاکھ افراد نے یہ ویڈیو دیکھی، حنال کو بھی کئی بار گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سارے عرصہ میں سعودی علماء نے حکومت کا پورا پورا ساتھ دیا۔ ایک مولانا سعدالحجری نے فتویٰ دیا کہ عورت کا دماغ آدھا ہوتا ہے اور جب گاڑی چلاتی ہے تو صرف ایک چوتھائی رہ جاتا ہے۔ اس لیے ٹریفک ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کہ کسی بھی عورت کو ڈرائیونگ لائسنس نہ جاری کرے۔

تا ہم سعودی حکومت نے اس نامعقول بیان کی وجہ سے مولانا پر پابندی لگا دی۔ انہیں تقریریں کرنے سے منع کر دیا گیا۔ 2016ء میں مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ نے فتویٰ دیا کہ گاڑی چلانے سے عورتیں خطرے سے دوچار ہوں گی۔

مفتیٔ اعظم نے اس تشویش کا اظہار بھی کیا کہ عورتیں گاڑی چلانے لگیں تو خاندان کے مردوں کو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ اب وہ کہاں ہے۔ 2013ء میں ایک عالم شیخ صالح نے فتویٰ دیا کہ گاڑی چلانے سے عورتوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان مولانا نے جو تفصیلات بیان کیں وہ کم از کم اردو پریس میں نہیں دہرائی جا سکتیں۔

2011ء میں اعلیٰ ترین مذہبی کمیٹی ’’مجلس الافتاء الاعلیٰ‘‘ میں شامل علما نے فتویٰ دیا کہ اگر عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دی گئی تو باکرہ(Virgin)عورت ڈھونڈے سے نہیں ملے گی۔ یہ علما شاہ فہد یونیورسٹی کے پروفیسر کمال صبحی کی ’’قیادت‘‘ میں ’’تحقیق‘‘ کر رہے تھے۔ اس گروہ نے ایک ’’تحقیقی رپورٹ‘‘ جاری کی۔ رپورٹ نے متنبہ کیا کہ عورتوں نے ڈرائیونگ شروع کی تو زنا کاری، پورنو گرافی اور ہم جنسی میں اضافہ ہو جائے گا۔ طلاق کی شرح بڑھ جائے گی۔

2010ء میں ایک اور عالم عبدالعزیز الفوزان نے ٹیلی ویژن پر اس خدشے کا اظہار کیا کہ عورت کو چہرے سے نقاب ہٹانا پڑے گا اور ہر طرح کے مردوں اور عورتوں سے ملتی پھرے گی۔ ولی عہد شہزادے نے آ کر منظر نامہ بدل دیا۔ مذہبی اجارہ دار خاموش ہو گئے ہیں۔

کچھ نے تو حمایتی بیان جاری کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی۔ ایک عالمِ دین نے کہا ہے کہ عبایا پہننا لازم نہیں! اس تیل سے تیل کی دھار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں! ع جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا یہی ہے اک حرف محرمانہ.

بشکریہ 92 نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).