نواز  شریف  زرداری  کی پیٹھ  میں  چھرا  گھونپ  رہے  ہیں؟


بقول آصف علی زرداری پیٹھ میں چھرا گھونپنا نواز شریف کا وطیرہ ہے۔ یعنی نواز شریف سیاسی سودے بازی اور سیاسی یکجہتی کے لئے قابل اعتبار شخصیت نہیں۔ حالیہ دنوں زرداری اور نواز شریف کی آئندہ انتخابات کے لئے سیاسی ڈیل کی خبریں گردش میں تھیں۔ اگر اطلاعات مصدقہ ہیں، تو زرداری اک بار پھر پیٹھ میں چھرا سہنے کے لئے اتنے بے چین کیوں ہیں؟ جیسے ہی زرداری نے انتخابات کے بعد ضرورت پڑنے پر عمران خان سے ممکنہ اتحاد کی بات کی ۔ نواز شریف کو اپنی ہار اور عمران خان اور زرداری کی جیت یقینی نظر آ ئی۔ نواز شریف جو ابھی تک زرداری کے سینیٹ انتخابات والی وار سے سنبھل نہیں پائے تھے، وہ بھلا زرداری کو پورا تخت گھمانے کے لئے کیسے یوں کھلا چھوڑ سکتے تھے۔ اس لئے انھوں نے رام کرنے والی اپنی مرغوب اور کارگر ترغیبی چال چلی۔ جس کو وہ دہائیوں سے استعمال کرتے ہوئے پورے ملک اور خصوصا چھوٹے صوبوں کے عوام اور رہنماؤں کو خالی خولی وعدوں پر ٹرخاتے ہوئے تین مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں۔

نواز شریف عمران زرداری کے ممکنہ اتحاد پہ پانی پھیرتے ہوئے سادہ اکثریت پانے کے لئے زیادہ سے زیادہ سیٹیں بٹور کر مریم نواز کو وزیر اعظم بنانے کے چکر میں ہیں۔ انھیں متعلقہ تعداد میں سیٹیں ملتی ہیں، تو وہ پی پی پی کو وزارت اعظمی دینے کے وعدے سے مکرتے ہوئے زرداری کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں دیر نہیں لگا‎ئیں گے۔ متعلقہ تعداد میں سیٹیں حاصل نہ ہونے کی صورت میں وہ عمران خان کو وزارت عظمی کی منصب سے روکنے کے لئے یقینا ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اے این پی کو رام کیا گیا۔ اے این پی کی بعض سنیئر رہنماؤں کو ٹکٹ دینے میں نظراندازی، پی ٹی ایم کے بارے میں بعض رہنماؤں کا مصلحتی انداز/ مخالفت اور ایم ایم اے کے ساتھ غیر فطری سیاسی سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ اسی سلسلے کی کڑیاں لگ رہی ہیں۔ اور عمران خان کی روایتی حریف ایم ایم اے کی سیٹیں تو مسلم لیگ (ن) کی جھولی میں ہی لگ رہی ہیں۔

ہاں زرداری کے عمران خان کے ساتھ اتحاد کی صورت میں عمران خان کے لئے کفارے کا موقع دینے پر نظرثانی ہوسکتی ہے۔ پنجاب کی نا انصافیوں پر سیاسی دارومدار رکھنے والی بلوچ پشتون قوم پرست جماعتوں (جو حیرت انگیز طور پر چند سالوں سے میاں صاحب کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتی ہیں) کا جھکا‎ؤ یقینا میاں صاحب کی طرف ہوسکتا ہے۔ رہ گئے اختر جان مینگل، تو ان کے گلے ‎شکوے وزارت اعلی کی کرسی کے لئے ان کی راہ ہموار کرتے ہوئے دورکیے جا سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم یقینا صوبے میں حکومتی حصہ پانے کی بنا پر زرداری سے اتحاد کو ترجیح دے گی۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی برتری کی صورت میں تگڑا حصہ ملنے پر مرکز گریز قوت یقینا مرکز مائل قوت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ رہ گئے آزاد آمیدوار، وہ حکومتی جماعت کے ساتھ ملنے میں آزاد ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو۔

نتیجتا نواز شریف کا زرداری کے ساتھ یک دم لگاؤ محبت نہیں بلکہ عمران خان اور زرداری کو ممکنہ حکومت سے باہر کرنے کی سازش ہے۔ اب چاہے عمران خان اور زرداری کتنے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن قدرت کا حسین اتفاق دیکھئے کہ دونوں ایک ہی بلاک میں اکیلے اور حکومت بنانے کے لئے جیسے لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ ویسے دونوں کا مل کر حکومت بنانا ملک کے لئے نیک شگون اور یقینا مسلم لیگ (ن) کے لئے سیاسی جنازہ نکلنے کا بد ‎شگون ہے۔ عمران خان اور بلاول بھٹو دونوں فلاحی کاموں کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اصلاحات اور فلاحی کاموں کے حوالے سے دونوں کی سوچ میں کافی یکسانیت نظر آتی ہے۔ پی پی پی اور تحریک انصاف کی طرف سے مڈل کلاس اور غریب پارٹی کارکنوں کو سیاسی عہدے دینے کی روش بھی یقینا قابل تحسین ہے۔

سب سے بڑھ کر اگر دونوں جنوبی پنجاب کے صوبہ بننے میں مخلص ہیں تو اس کی راہ صرف اور صرف دونوں کے اتحاد کی صورت میں ہموار ہو سکتی ہے۔ چاہے یہ اتحاد انتخابات کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ بننا اور عمران خان کو بطور وزیر اعظم قبول نہ کرنا ہی وہ دو نکتے ہیں، جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) پی پی پی اور تحریک انصاف کے ممکنہ اتحاد کو ہر قیمت پہ روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی۔ کیونکہ جنوبی پنجاب کا صوبہ بننا مسلم لیگ (ن) کے مرکز میں حکومتی خواب کی دائمی موت اور تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).