بچپن کی عید


بچپن میں عید کی صبح سات بجتے ہی امی اٹھا دیا کرتی تھیں گویا ہم اگر صبح نہ اٹھیں گے تو عید ہی نہ کہلائے گی۔ اٹھتے ہی نہا کر تیار ہو کر ابو اور بھائی کا نمازِ عید سے واپسی کا الگ ہی اہتمام ہوتا ہے۔ اگر کوئی عید کی نماز سے قبل تیار نہ ہو تو اس کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور بلا بلا کے پوچھا جاتا تھا کہ بیٹا کیا بات ہے ابھی تک عید کے کپڑے پہن کر تیار کیوں نہیں ہوئے؟ کسی کا ایسا پوچھ لینا ہی یہ احساس دلا دیتا تھا کہ ہماری بہت اہمیت ہے اور عید پہ ہماری تیاری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس رویے اور احساس سے عید کی تیاری میں مزید جوش پیدا ہوجاتا تھا۔

سب سے پہلے نہا، دھو کر کپڑے پہن کے تیار ہوجانا کسی اعزاز سے کم نہ ہوتا تھا۔ ابو، امی سے عیدی ملنے کے بعد اک الگ ہی امیری کی کیفیت طاری ہوجایا کر تی تھی جیسے آج ہم تمام دنیا خرید لیں گے۔ رشتے داروں کی آمد کا انتظار اس طرح سے ہوتا تھا جیسے ہم اپنا کوئی قیمتی سرمایہ ان کے گھر بھول آئے ہوں اور وہ ہمیں واپس لوٹانے کے لئے گھر آنے والے ہوں۔ رشتے داروں کی دی ہوئی عیدی کو بار بار گننا، اور اپنے تمام رقوم کا حساب لگانا کسی نیشنل بینک کے حساب سے کم نہ تھا۔ کسی اجباب کا بغیر عیدی دیے الوداع کرنا عجیب کشمکش میں ڈال دیتا تھا کہ خدارا اس کو کسی طرح یاد آجائے کی انہوں نے ہمیں عیدی نہیں دی اور اچانک انہیں حقیقتاً یاد آکر عیدی دینے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالتے دکھائی دینے سے دل میں ایسی خوشی کی لہر دوڑنے کے مترادف تھا گویا ہم نے ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔

دکان پر جاکر دس چیزوں کو بار بار کھا کر جو تسکین ملتی تھی وہ شاید ہی کسی چیز کے کھانے پر میسر ہو۔ صبح سے دوپہر تک نئے کپڑوں میں باہر گھوم گھوم کر، چیزیں کھا کھا کر جو حلیہ ہمارا ہوجایا کرتا تھا وہ بھی ناقابل بیان ہے۔ دوپہر کو واپس گھر آکر، دوبارہ تیار ہو کر جو دوستوں میں گھومنے کا مزہ تھا وہ بیان کرنے کے قابل نہیں۔ عید کی صبح، دوپہر، شام اور رات کی جو الگ الگ تیاری اور کھانا پینا چلتا تھا ان تین دنوں کی تیاری کی تفصیل بھی تین گھنٹوں کی تحریر کی محتاج ہے۔ الغرض یہ کہ پچپن کی عید کی تیاری سے عید کی تیسرے دن کی رات تک کی خوشی انوکھی ہوا کرتی تھی۔

لیکن اب تو یہ عالم ہے کہ عید پہ صبح سات بجے اٹھ کر تیار ہو نا لازم نہیں۔ اگر عید کے دن نئے کپڑوں کے بجائے کوئی ایک دو بار استعمال شدہ سوٹ بھی محظ اس نیت سے پہن لیا جائے کہ ابھی نیا سوٹ پہن کے گھر میں کیا کریں گے کسی کے دعوت پہ جایئں گے تو پہن لیں گے، ایسی سوچ کے تحت استعمال شدہ سوٹ پہ بھی کوئی نہیں بلا کر پوچھتا کہ بیٹا کیا ہوا ابھی تک تیار کیوں نہیں ہوئے؟ عیدی محظ رسم کے طور پہ تھمادی جاتی ہے جیسے اگر ہمیں عیدی نہیں دی تو احباب کی بے عزتی ہوجائے گی اور بدلے میں ہمارے ماں باپ نے ان کے بچوں کو کچھ پیسے بڑھا کر نہیں دی تو ہماری بے عزتی ہوجائے گی۔

عید کا دن منایا کم، چھٹی کا دن سمجھ کر آرام زیادہ کیا جاتا ہے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد عیدی گننے اور حساب کرنے کی سوچ کے بجائے کچن میں برتن سمیٹنے کی ٹینشن لاحق ہوجاتی ہے۔ عید پہ چیزیں کھانے کے بجائے، مہمانوں کے لئے مزید کھانے کی چیزیں دسترخوان پہ لگانے کی سوچ دماغ پہ حاوی ہوتی ہے۔ ہر وقت مہمان نوازی کی پرواہ رہتی ہے کہ کسی طرح کوئی کمی نہ رہ جائے۔ دوستوں میں جانے کی سوچ صرف اک سوچ ہی رہ جاتی ہے۔ دوستوں سے عید صرف مسیج اور کال کی حد تک محدود رہ جاتی ہے۔

عید کی خوشی صرف بچپن ہی میں میسر آتی جب صبح سے شام نہ کوئی کام کی ٹینشن، نہ کوئی مہمان نوازی کی پرواہ، نہ دوستوں سے ملنے کے لیے وقت کا انتظار، نہ آرام کرنے کی فکر، بس عید کی خوشی اور بے فکری ہوا کرتی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).