پاکستانی شہر اور ان کے مسائل


 
پاکستانی شہر گوناگوں مسائل کا شکار ہیں جن کا چرچا گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے، مگر نہ تو کبھی ان مسائل کی بنیادی وجوہات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا گیا ہے اور نہ ہی ان کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں کی گئی ہیں۔ ان میں سے بڑے مسائل صفائی، پانی کی دستیابی اور ٹریفک کی روانی کے ہیں۔ اس کے علاوہ سیکیورٹی بھی بعض شہروں کے لئے بڑا مسئلہ ہے۔

کراچی میں، جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، مسئلوں کی شدت بھی باقی شہروں کی نسبت زیادہ ہے۔ وہاں صفائی کی حالت اتنی خراب ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پچھلے کئی مہینوں سے کچرا نہیں اُٹھایا جا سکا۔ یہی حالت پانی کے مسئلے کی ہے۔ سپریم کورٹ کے بنائے گئے کمشن کی پوری کوشش کے باوجود شہریوں کو صاف پانی فراہم نہیں کیا جا سکا۔ یہی حال ٹریفک کا ہے۔ نہ صرف بندرگا ہ سے آنے والی بھاری ٹریفک شہر کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہے، بلکہ شہر کی اپنی ٹریفک بھی نہیں سنبھالی جا رہی ہے۔

اگرچہ ان میں شدت کراچی جتنی نہیں، لیکن ملک کے باقی بڑے شہروں کے مسائل بھی کم نہیں ہیں۔ دوسرے شہروں کو تو چھوڑیں، اسلام آباد میں، جسے ملک کا سب سے صاف شہر سمجھا جاتا ہے، صفائی کا بُرا حال ہے۔ اس کا اندازہ کرنا ہو ہو تو ایف اور جی سیکٹرز کے مکانوں کے پیچھے پیدل چلنے کے لئے بنائے گئے راستوں پر جا کر دیکھیں، جہاں غلاظت، کوڑے کے ڈھیر، اور ابلتے ہوئے گٹرز کی وجہ سے چلنا مشکل ہے۔ کسی زمانے میں یہ خوبصورت راستے ریٹائرڈ لوگوں کے لئے واک کی بہترین جگہ تھے۔ اور اسلام آباد کے نالے جن میں کسی زمانے میں چشموں کا صاف پانی بہتا تھا، اب گندے پانی کی نکاسی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ کم و بیش یہی حال پشاور، کوئٹہ، لاہور، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالا اور دوسرے شہروں کا ہے، ماسوئے ان شہروں کے چند مخصوص علاقوں کے علاقوں۔

یہ سب ایک دو سال میں نہیں ہوا، یہ گزشتہ ستربرسوں کی عدم توجہی اور منصوبہ بندی کے نہ ہونے سے ہوا ہے۔ پاکستانی شہروں کا زوال اس دن سے شروع ہوا جس دن مرکزی حکومت نے کراچی کی منتخب حکومت کو برطرف کرکے ایک آئی سی ایس افسر ہاشم رضا کو اُس کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ یہی عمل ملک کے دوسرے شہروں میں بھی دہرایا گیا اور رفتہ رفتہ شہر تباہی کی طرف بڑھنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی اور لاہور سمیت کئی دوسرے شہر جو 1950۔ 60 دہائی تک کئی یورپی مملک جن میں پرتگال اور سپین شامل ہیں کے شہروں سے زیادہ صاف اور خوبصورت تھے، اپنے ایشیائی شہروں سے بھی خراب حالت میں آگئے۔

اگر ہم ترقی یافتہ ملکوں پر نظر دوڑائیں تو تمام میں بغیر کسی استثنا کے شہروں کا انتظام منتخب شہری حکومتیں کرتی ہیں۔ اگر شہر کا نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا جو وہاں رہتے ہیں تو وہ شہر کے مسائل سے آگاہ ہونے کی وجہ سے ان کے حل کے لئے وقت پر منصوبہ بندی کریں گے۔ اس کے علاوہ ان کے تجویزکیے گئے حل ان لوگوں کے تجویزکیے گئے حل سے بہتر ہوں گے جنہیں اس شہر میں رہنے کا تجربہ نہیںہے۔ وہ اس لئے بھی اس کام کو بہتر طریقے سے کریں گے کہ خود انہوں نے اور ان کی آنے والی نسلوں نے اسی شہر میں رہنا ہوتا ہے۔ اور قدرتی طور پر وہ اچھے ماحول میں رہنا چا ہیں گے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے مسئلوں کا بر وقت اور اچھا حل نہ نکا لا تو آئندہ انتخابات میں ان کا کامیاب ہونا مشکل ہو جائے گا۔

انگریزوں کی حکمرانی کے خاتمے کے وقت برِ صغیر کے شہروں کا نظام منتخب حکومتیں کرتی تھیں۔ جیسے ہی یہ کام افسر شاہی پر چھوڑا گیا شہروں کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ ایک افسر جتنا ذہین اور فرض شناس ہو، کسی شہر کے مسائل کو اس وقت تک اچھی طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ اس کا تعلق اسی شہر سے نہ ہو۔ دوسرا اس کے فیصلے شہر کی بہتری کے لئے کم اور اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے زیادہ ہوتے ہیں جنہوں نے اسے ترقی دینا ہو تی ہے۔ اس کے فیصلوں سے شہر پر آئندہ سالوں کیا گزرے گی، اس کا اسے کوئی غم نہیں ہوتا۔

افسروں کی زیرِ نگرانی پاکستانی شہر گزشتہ ستر سالوں سے پلاٹ اور دیگر مراعات اور ملازمتیں دینے کا ذریعہ بنے رہے ہیں۔ کبھی ایسا افسروں نے اپنے سینیئرز کی خوشنودی کے لئے کیا ہے اور کبھی صرف اپنی انا کی تسکین کے لئے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 1980 کی دہائی میں اسلام آباد میں سی ڈی اے کے صرف ایک چیرمین علی نواز گردیزی نے سینکڑوں پلاٹس اپنے جاننے والوں میں بانٹ دیے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری پلاٹوں کے علاوہ پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائیٹیاں مراعات لینے اور بانٹنے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئیں اور افسر شاہی نے اس کے مضمرات پر غورکیے بغیر کبھی پیسے لے اور کبھی اوپر والوں کو خوش کرنے کے لئے ان کی اجازت دینا جاری رکھا، یا وہ اوپر والوں کی خوشنودی میں اتنا مصروف رہے کہ انہیں ان سوسائیٹیوں کے بے ہنگم پھیلنے کو روکنے کا خیال تک نہ آیا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں یہ شہر بے ہنگم انداز میں پھیلتے گئے ان میں شہری سہولتوں کو بہم پہنچانا مشکل ہوتا گیا۔

شہروں میں منتخب حکومتیں نہ ہونے کی وجہ سے ان میں صوبائی حکومتوں کا عمل دخل بھی بہت بڑھ گیا جس کے اپنے بُرے اثرات مرتب ہوئے۔ دیہاتوں سے منتخب ہونے والے سیاسی لیڈر شہروں کو کنٹرول کرنے لگے۔ وہ اپنے ساتھ دیہی اقدار بھی لے آئے جس سے شہروں کا لبرل کیریکٹر بُری طرح متاثر ہوا۔

آزادی کے وقت شہری حکومتوں کا اپنا عملہ ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ یہ ختم ہو گیا اور اب اکثر اہم ذمہ داریوں پر یا دوسرے محکموں سے ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے لوگ ہوتے ہیں یا وہ سفارشی جنہیں سیاسی لوگ اپنے حلقہءانتخابات کو مضبوط بنانے کے لئے دیہاتوں سے شہر لاتے ہیں۔ یہ لوگ شہروں کی ضرورتیں اور لوازمات سے بے خبر ہوتے ہیں، اور سوچ کے لحاظ سے شہری لوگوں سے زیادہ دقیانوسی ہوتے ہیں۔ چنانچہ رفت رفتہ شہر شہر نہیں رہتے، بڑے گاؤں بن جاتے ہیں۔

آزادی کے بعد پاکستانی شہروں نے ایک مختصر سا اچھا زمانہ، 2000 کی دہائی کے شروع میں مقامی حکومتوں کے نئے نظام کے تحت دیکھا، جس کے دوران شہروں کو واقعی خود مختاری ملی اور جس کی وجہ سے شہروں نے کم عرصے میں بے پناہ ترقی کی جسے ورلڈ بنک اور دوسرے عالمی اداروں نے اپنی رپورٹوں میںتفصیل سے رقم کیا ہے۔ مگر اس ترقی کو، جنرل مشرف نے جنرل نقوی کے انتہائی محنت سے بنائے گئے نظام میں وقتی سیاسی فائدے کے لئے ترامیم کرکے تباہ کردیا۔

پاکستان کے تمام شہروں کو مزید تباہ ہونے سے روکنے اور انہیں جدید شہروں میں بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں فی الفور با اختیار منتخب شہری حکومتیں قائم کی جائیں۔ کوئی کمیشن اور کوئی دوسری ہدایات چاہے وہ اعلیٰ عدلیہ کی ہی کیوں نہ ہوں صورتِ حال میں مستقل بہتری نہیں لا سکتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).