شخصیت پرستی ایک مہلک مرض


وطن عزیز میں عام انتخابات کا اعلان ہوتے ہی نئی حکومت بنانے کے لئے ہر سیاسی جماعت کی بے تابی او ر بے چینی بڑھتی جا رہی ہے، سیاسی میدانوں میں بھی خوب گھن گرجہے، کہیں عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کیے گئے پیسوں سے ہی عوام کو بے وقوف بنایاجا رہا ہے تو کہیں اس کام کے لئے بھاری فنڈز حاصل کیے جارہے ہیں، یہاں اہم سوال یہ ہےکہ عوام اس بار کس کو منتخب کریں گے۔ کیا اس بار بھی دم توڑتی ہوئی بوڑھی موروثی سیاست ہمیشہ کی طرح بازی لے جائے گی؟ یا تقدیر کو کچھ اور منظور ہے؟ دنیا بھر میں ووٹ کو ایک قوم فرض سمجھا جاتا ہے اور اس فرض کی ادائیگی میں بد دیانتی ملک اور قوم کو دغا دینے کے مترادف ہے۔ یہ سب جانتے بوجھتے بھی ہمارے ملک میں ووٹ کےنام پر محض ٹھپے لگتے ہیں اور یہ ٹھپے ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ہی لگائے جاتےہیں۔

گر تو برا نہ مانے کے مصداق ا یک سادہ سی بات کہنے کی جسارت کروں گی، ملککے طول و عرض میں پھیلے ہوئے عوامی اور سیاسی حلقوں میں یہ بات زبان زد خاصوعام ہے کہ چونکہ ن لیگ کی حکومت نے وسطی پنجاب میں ترقیاتی کام زیادہ کیے ہیں اس لئے پنجاب کے عوام ن لیگ کو ووٹ دینگے، اندرون سندھ کے عوام روایتی طور اپناحق رائے دہی پیپلز پارٹی کی جھولی میں ڈالیں گے، سندھ کے شہری عوام کے ووٹ سےمتحدہ مہاجر کارڈ کے ذریعے فائدہ اُٹھائے گی، معصوم پشتون ووٹرز ایک بار پھر اے این پی اور جے یو آئی کا شکار بنیں گے جبکہ متعدد ٹکڑوں میں بٹے ہوئے بلوچ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علاقائی جماعتوں کی حمایت کریں گے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے عوام کی ایک بڑی تعداد پی ٹی آئی کو اپنی نگاہ کا مرکز تصور کرتی ہے۔ رہی باقی جماعتیں تو ان کے بھاگ تو اسی وقت جاگتے ہیں جب وہ کسی بڑی جماعت سے اتحاد بنا کر یا سیٹ ایڈجسٹمنٹس کر کے اسمبلی میں چند نشستیں حاصل کر ہی لیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ذاتیپسند اور تعصب کی بنا پر کاسٹ کیے گئے ووٹ سے فائدہ آخر کس کو ہوتا ہے۔ عوامکو؟ یا حکمرانوں کو؟ ظاہر ہے اس کا فائدہ حکمرانوں کو ہی ہوگا، آج کل ووٹ کے تقدسکی باتیں تو بہت ہورہی ہیں مگر اس کا مطلب آخر ہے کیا؟

ووٹ شخصیت کا ہونا چاہیے؟ یا نظریے کا؟ یا پھر ایسی جماعت کا جو ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے مخلص ہواور سچے دل سے عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہو۔

سوال بہت ہی عام سے ہیں مگران کےجوابات یقیناً ایک تلخ حقیقت ہیں، ووٹ ایک گواہی ہے اور گواہی ہمیشہ سچی ہونی چاہیے، اپنا ووٹ شخصیت کو نہیں بلکہ ملک و قوم سے مخلص جماعت یا رہنما کو دیں، شخصیت پرستی کئی قوموں کو لے ڈوبی ہے، یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ یہاں شخصیت پرستی نسل در نسل چلتی چلی آرہی ہے جو اب تعصب کا بھیانک روپ دھار چکی ہے۔ والدین اپنی اولاد کو قومیت کا درس دے رہے ہیں اور اگر اولاد والدین سے بغاوت کرکے قومیت کی بناپر ووٹ دینے سے انکار کرے تو والدین ہی اسے قوم کا غدار گردانتے ہیں۔ کیا یہ والدین کی ذمہ داری نہیں کہ اپنے اولاد کی سوچ بدلیں اور انہیں قومیت کا نہیں بلکہ قومی فریضے کو درست انداز میں نبھانے کا درس دیں؟ ایسا سیاسی رہنما جو بات کرے تو محلے کے نکڑ پر کھڑے کسی اوباش کا گمان ہو تو وہ یقیناً آپ کے ووٹ کا ہرگز بھی حقدار نہیں ہے۔ پھر شخصیت پرستی اور اندھی تقلید تو بت پرستی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

جن حالات سے ہم آج گزر رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ نا خواندگی ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہکی جاری گئی ایک رپورٹ کے مطابق نوجوانوں کی آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کاسب سے بڑا ملک بن گیا ہے یعنی پاکستان کے مستقبل کا تعین 15سے 29 سال کےدرمیان نوجوانو ں کے ہاتھ میں ہے۔ نوجوانوں کے لئے تعلیم، روز گار کے بامعنی مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں، مگر سوالیہ ہے کہ اتنا کام کرے گا کون؟ کیوں کہ عوام نے توکسی ایسی جماعت یا رہنما کو ووٹہی نہیں دیا جو ملک و قوم سے مخلص ہو، ان کی نگاہ کا مرکز تو شخصیت تھی! یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب کچھ سال پہلے چین کو یہی اعزاز حاصل ہوا تو اس نے اپنےنو جوانوں کو مواقع فراہم کیے، انہیں بہتر تعلیم دینے کے ساتھ ان کی اعلیٰ تربیت پر بھی کام کیا۔

یہی وجہ ہے کہ آج چین دنیا کی ابھرتی ہوئی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے، کاش ہمارے حکمراں بھی اتنی طویل اورمضبوط منصوبہ بندی کرنے کے قابل ہوتے، مگر بات پھر وہیں آکررکتی ہے، ان حکمرانوں کو منتخب کر کے ایوانوں کی زینت بھی ہم نے ہیبنایا ہے، سیاہی کا درست استعمال جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کے صحیح استعمال کے نتیجے میں ہی ایک مخلص سیاسی رہنما اسمبلی میں پہنچ کر ہمارے معاشرے کا نہ صرف بوجھ بانٹ سکتا ہے بلکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی بھی لا سکتا ہے۔ جمہوری نظام جتنا مضبوط ہوگا پاکستان اتنا ہی مضبوط ہوگا اور پاکستان کی اسی مضبوطی میں ہماری بقا اور سلامتی ہے۔ اس لئے اپنے بچوں میں آگہی اور شعور پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہہم انہیں ووٹ کا صحیح استعمال کرنا سکھائیں تاکہ وہ ایک اچھا شہری ہونے کا فرض بخوبی ادا کر سکیں اور ایک کامیاب معاشرہ تشکیل پا سکے۔

ووٹ دینے سے پہلے سوچیں، موازنہ کریں کہ کون مخلص ہے، کس نے مثبت کام کیے اور کس نے صرف اقتدار کےمزے لوٹے۔ کس کا منشور کتنا مضبوط ہے اور کون اس منشور پر عمل پیرا ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، ان سوالوں کے جواب زیادہ مشکل نہیں بس صرف ’سوچنے‘ کی ضرورت ہے جو قومیں سوچنا چھوڑ دیتی ہیں ان کی مثال ہم جیسی ہی ہوتی ہے جو جلسوں کی رونقیں بڑھانے کے لئے مفت کی بریانی اور قیمے کا پراٹھا کھا کر اس کا حق ادا کرنے کے لئے پورا عرصہ مصیبتیں اٹھاتے ہیں، اور اگلے انتخابات میں پھر اسی جماعت کوووٹ دیتے ہیں۔

زیادہ دور کی نہیں صرف سندھ کے تھر کی بات کر لیتے ہیں، وہاں ہرسال ایک موسم آتا ہے جہاں غذائی قلت کا شکار بچے دم توڑتے ہیں، وہاں زندگی موت سے ڈرتی ہے۔ نہ کھانے کو اچھی غذا ہے، نہ پینے کا صاف پانی، سر چھپانے کو کچی چھت، تعلیم اور بجلی تو بہت دور کی بات ہے، ایسے میں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ کانوں کو بھلا نہیں لگتا، مگر وہاں کے لوگوں کی بدقسمتی ہے یا اہل سیاست کی خوش قسمتی کہ تھر کے وحشت زدہ در و دیوار پرآج بھی ’کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے‘ کی چاکنگ نظر آتی ہے، وہاں کی عوام آج بھی اسی سیاسی جماعت کو ووٹ دیں گےجو گزشتہ کئی برسوں سے ان کے حالات بدلنے سے قاصر ہے، کبھی کبھی یہ خیال آتاہےکہ اس غلامانہ سوچ کے پیچھے عوام کی کوئی غلطی نہیں بلکہ حکمرانوں کی چالاکی اور عیاری ہے انہوں نے عوام کو شعور سے کوسوں دور روٹی، کپڑے اور مکان کےلالچ میں لگا رکھا ہے۔ اس لالچ نے انہیں اس قدر اندھا کردیا ہے کہ وہ اس سے آگے نہ کچھ سوچنا چاہتے ہیں اور نہ ہی آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

یہ یقیناً ایک المیہ ہےمگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح کب تک کارخانہ قدرت کا نظام چلتا رہے گا۔ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).