ہم مہوش کے مجرم ہیں


اُس نے دھڑکتے دل کے ساتھ بس کے پائیدان پر قدم رکھا اور جب وہ دو قدم اوپر گئی تواسے انجانے خوف نے گھیر لیا کہ وہ کیسے ان سب کاسامنا کرے گی جیسے ہی اس کی نظر مسافروں پر پڑی تو ایسا محسوس ہوا کہ اسے ابھی یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ بہر حال اس نے عزم و حوصلہ سے اپنا کام کرنا شروع کردیا۔ اس نے جس عمر میں بس ہوسٹس کا ذریعہ معاش اختیار کیا وہ عمر تو لڑکیوں کی سہانے خواب دیکھنے کی تھی مگر اس کے دل میں بہتر مستقبل کی خواہش اور امید جاگزیں تھی۔

فیصل آباد کی مہوش نے جب ہوش سنبھالا تو چاروں طرف غربت کی چادر تنی دیکھی ایسے میں بیمار والد کی وفات نے تو اس چادر کو تار تار کر کے رکھ دیا۔ اب گھر میں کوئی کمانے والا فرد نہ تھا۔ ان حالات میں ماں نے دستانے بنانے کا کام شروع کیا مگر اس سے گھر کا چولہا کچھ دن جلتا اور کئی دن بجھا رہتا۔ بھوک کا افعی روز ڈستا وہ ان حالات کو دیکھ کر کڑھتی۔ میٹرک کرتے ہی اس نے گھر کی کفالت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی اس وقت وہ صرف سولہ سال کی تھی۔ اس عمر میں تو لڑکیاں دوپٹہ بھی۔ صحیح طرح نہیں سنبھالتیں، وہ تو ہاتھوں میں مہندی رچانے، کانوں میں بالیاں پہننے، آنکھوں میں کاجل ڈالنے، ہونٹوں پر سرخی لگانے اور پلکوں پر سہانے سپنے سجانے کے لیے بے تاب ہوتی ہیں۔ ایسے میں مہوش نے گھر والوں کی شکم کی آگ بجھانے کے لیے خود کو رزق کی بھٹی میں جھونک دیا۔

وہ گھر والوں کے لیے کماؤ پوت تھی وہ دن رات اوور ٹائم لگا کر محنت کر کے چھوٹے بہن بھائیوں کی خواہشات اور گھرکا خرچاپورا کرنے کی کوشش کرتی ماں فخر سے اسے بیٹا کہتی کیونکہ شوہر کے مرنے کے بعد وہی اس گھر کا سہارا تھی مگر اسے کیا معلوم کہ یہ بیٹا جس سے اس کا گھر آنگن خوشیوں سے مہکتا ہے اسے نظر لگ جائے گی۔ اس کا ہنستا بستا گھر ویران ہو جائے گا۔
مہوش کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے زبردستی ہاتھ تھامنے والے کو انکار کیا۔ یہی حرفِ انکار اس کا قتل نامہ بنا۔

لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی

عمردراز نے اسے راستے میں روکا اور شادی کے لیے کہا اس کے انکار پر آگ بگولہ ہو کر پہلے دست درازی کرنا چاہی پھر اسی عمر دراز نے اس معصوم کو درازئی عمر سے محروم کرتے ہوئے فائرکھول دیا اور وہ سیڑھیوں پر ہی تڑپتی رہ گئی۔ اس کے منہ سے یہ بھی نہ نکل سکا
مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی۔
جیسے ہی اس واقعے کی وڈیو وائرل ہوئی اسے دیکھ کر کون ہے جس

کے کلیجے پر ہاتھ نہ آیا ہو، دل سے ٹیس نہ اٹھی ہو، کون ہے جس کے لب سے آہ نہ نکلی ہو اور کونسی سی ایسی آنکھ ہے جو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ ظالم نے صرف ایک زندگی کو ختم نہیں کیا بلکہ چار لوگوں کو زندہ لاشیں بنا دیا اور ماں کے بین یہ کہنے پر مجبور تھے
کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے
اسی لیے تو وہ بیٹوں/بیٹیوں کو مائیں دیتا ہے
وہ اپنے نام کی طرح مہ وش یعنی چاند جیسی تھی۔ سبھی کو اپنی بیٹیاں چاند جیسی دکھائی دیتی ہیں وہ بھی کسی کی بیٹی تھی اس چاند کو وقت سے پہلے گہنا دیا گیا۔

نہ جانے کتنی مہ وشیں روز ایسے ہی حالات سے دوچار ہوتی ہوں گی۔ کیسے کیسے عمر درازوں سے واسطہ پڑتا ہو گا۔ روزانہ جیتی ہوں گی روزانہ مرتی ہوں گی مگروہ کریں تو کیا کریں گھر سے باہر نکل کر ذریعہ معاش اختیا ر نہ کریں تو بھوک کا عفریت کھاجائے۔ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے یہاں صنف نازک کا گھر سے باہر نکل کر کام کرنا جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرنے کے برابر ہے۔ مہوش نے گھر سے باہر قدم نکالنے کی ہمت کی تھی اور یہ ہمت اس معاشرے میں کی تھی جہاں ہر دوسری نظر صنف نازک کی طرف ہوسناکی سے لبریز ہوتی ہے۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسے معاشرے میں کیا عزت وقار صرف چادر اور چار دیواری میں رہنے والی عورت کے لیے ہے یا پھر گھر سے باہر نکل کر کام کرنے والی عورت تفریح طبع کی چیز یا کھلونا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو کھیل تماشا سمجھ رکھا ہے کبھی قرآن کے نام پر شادی کر دی جاتی ہے۔ کبھی ونی کا کھیل کھیلا جاتا ہے، کبھی پنچایت کے حکم پر آبروریزی کرا دی جاتی ہے اور کبھی اکیلی نہتی عورت کو دیکھ کر تمغۂ مردانگی جڑ دیا جاتاہے۔

پہلے سنتے تھے کہ بہنیں بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں شاید اب اس جملے کا مفہوم اورمعنی بدل گیاہے یا ماؤں نے اس کی تعلیم دینا چھوڑ دی ہے۔ دوسروں کی عزت کو اپنی عزت نہیں سمجھا جاتا۔ اس اسلامی ملک میں جہاں چوبیس گھنٹوں میں متعدد بار ” حی علی الفلاح‘‘ کے آواز یں فضاؤں میں گونجتی توہیں مگر کانوں سے ہو کر دلوں تک نہیں پہنچتیں۔ ہم بحیثیت قوم الٹے سفر پر رواں دواں ہیں بلکہ بگٹٹ دوڑ رہے ہیں۔ یہ معاشرہ مَردوں کانہیں بلکہ مُردوں کا معاشرہ ہے جہاں ہر آنکھ عزت و شرم سے عاری ہو چکی ہے۔ جہاں ہر بات غرض اور مطلب سے لتھڑی ہوئی ہے۔ بے حسی کی چادر ہر جا تنی ہوئی ہے۔

کبھی مہوش نے سنا ہو گا کہ ریاست ماں ہوتی ہے یا کبھی غلطی سے اعتزاز احسن کی زبانی یہ الفاظ کانوں میں پڑے ہوں گے ”ریاست ہو گی ماں کے جیسی‘‘وہ سوچتی ہو گی ریاست کس ماں کا نام ہے یہ کہاں ہوتی ہے کبھی کسی نے بتایا ہو گامغربی ملکوں بلکہ کافر ملکوں میں ریاست واقعی ماں ہوتی ہے جہاں یہ ماں رزق کے ساتھ ساتھ روزگار اور چھت بھی مہیا کرتی ہے۔ اسے غربت نے یہ تو بتا دیا تھا کہ اس کے ملک میں ریاست ماں تو کیا سوتیلی ماں بھی نہیں ہوتی۔ ریاست کے فرائض سنبھالنے والے صرف اپنا پیٹ پالتے ہیں۔

کم عمر مہوش کی تصویر دیکھ کر کون ہے جس کے تصور میں اپنی بیٹی نہ آتی ہو۔ کیا اس معاشرے میں بیٹیوں کو زندہ درگور ہونے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟ کیانہیں چوراہوں بس اڈوں اور سیڑھیوں پر قتل ہونے دیا جائے؟ روزِ قیامت اس معصوم کا ہاتھ ہمارے گریبانوں پر ہوگا یہ انصاف طلب کر رہی ہو گی۔ انصاف اوروہ بھی اس ملک میں جہاں قاتل اور دیگر مجرم سرِ عام دندناتے پھرتے ہیں کیونکہ انصاف دینے والوں سے معاف کرانے والے زیادہ طاقتور ہیں۔ ایک دن اس کا قاتل بھی چھوٹ جائے گا پیسے کے زور پر یا اثر رسوخ سے۔ سنو مہوش! ہم واقعی شرمندہ ہیں تم نے صرف انکارکیا اور تم سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ ہم تمہیں جینے کاحق بھی نہ دے سکے یہ معاشرہ تمہارا قرض دار ہے۔ کاش! تمہارے قاتل کا ہاتھ ہم میں سے کوئی پکڑتا اسے روکتا۔ سو ہم مجرم ہیں، واقعی ہم مجرم ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).