آزادی صحافت: ایک سراب، ایک دھوکہ


\"mujahid

آج یوم آزادی صحافت ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1991 میں افریقی جرنلسٹوں کی تحریک پر عالمی سطح پر یہ دن منانے کی قرارداد منظور کی تھی۔ اسی روز یونیسکو 1997 سے آزادی اظہار کے لئے کام کرنے والے کسی صحافی کو گولیرمو کانو ایوارڈ دیتی ہے۔ اس سال یہ ایوارڈ آذربائیجان کی فری لانس صحافی خدیجہ اسماعیلوا کو دیا گیا ہے۔ وہ اس وقت ساڑھے سات برس کی قید بھگت رہی ہیں۔ یہ سزا ”طاقت کے غلط استعمال“ اور ٹیکس چوری کرنے کے الزامات میں دی گئی ہے۔ لیکن ان کا اصل جرم صدر الہام علی یوف کی حکومت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی ہے۔ یہ انعام کولمبیا کے صحافی گولیرمو کانو اسازا کی یاد میں بنائی گئی فاﺅنڈیشن کے تعاون سے دیا جاتا ہے۔ انہیں 1986 میں منشیات اسمگلنگ کرنے والے گروہوں کے خلاف مضامین لکھنے پر ان کے دفتر کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔ حرف کی حرمت کے لئے استقامت کا مظاہرہ کرنے والے صحافی آج بھی جان داﺅ پر لگا کر حقائق پڑھنے اور سننے والوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ صرف پاکستان میں گزشتہ 16 برس میں 72 صحافی مارے گئے ہیں۔

یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے صحافیوں کو بہت سی سہولتیں حاصل ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت کی وجہ سے بہت سے معاملات پر زیادہ کھل کر بات کی جانے لگی ہے اور مین اسٹریم میڈیا بھی اس دباﺅ کو محسوس کرنے اور ایسے موضوعات پر رپورٹیں سامنے لانے پر مجبور ہوتا ہے جو اس سے قبل شجر ممنوعہ سمجھی جاتی تھیں۔ اس کے باوجود اظہار کی مکمل آزادی اور درست معلومات کی پوری طرح ترسیل دنیا بھر میں ایک خواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں صحافت اور کمرشل مفادات کو علیحدہ کر کے کسی حد تک صحافیوں کو آزادی سے کام کرنے کی سہولت حاصل ہو سکی ہے۔ لیکن سرمایہ دار اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے بدستور ورکنگ جرنلسٹوں کے لئے خطرہ بنے رہتے ہیں۔ خاص طور سے آمدنی میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کے نقطہ نظر سے مسابقت اور مقابلے کی دوڑ میں صحافی ہی کو بیروزگاری یا مفاہمت کی صورت میں قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ بعض مغربی ممالک میں سرکاری میڈیا ہاﺅسز کو خود مختار ادارے بنا کر صحافیوں کو کام کرنے کی کافی حد تک آزادی ضرور ملی ہے لیکن تجارتی کمپنیوں کے زیر انتظام چلنے والے میڈیا ہاﺅسز اکثر کمرشل مفادات کے دباﺅ کا شکار رہتے ہیں۔ آج جبکہ دنیا بھر میں یوم آزادی صحافت منایا جا رہا تھا تو ناروے کا سب سے بڑا کمرشل میڈیا ہاﺅس ٹی وی 2ساڑھے تین سو صحافیوں کو نوکری سے نکالنے کے منصوبے کا اعلان کر رہا تھا۔ یہ ادارہ 1991 میں اپنے قیام سے لے کر اب تک ہر سال منافع دیتا رہا ہے۔ 2015 میں اس میڈیا ہاﺅس کا منافع 50 ملین ڈالر کے لگ بھگ تھا۔ لیکن مستقبل میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے اس ادارے میں تنظیم نو کے نام پر 40 ملین ڈالر بچت کے منصوبہ کا اعلان کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ادارے میں کام کرنے والے دس فیصد کارکنوں اور صحافیوں کو کام سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
ترقی پذیر ملکوں میں صورتحال زیادہ دگرگوں ہے۔ ان ملکوں میں جنوبی ایشیا کے ملک پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ صحافیوں کو حکومت ، مالکان اور معاشرے میں سرگرم مذہبی اور سیاسی گروہوں کی طرف سے دباﺅ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ نے جب یوم آزادی صحافت منانے کی قرارداد منظور کی تھی تو اس کے پیش نظر انسانی حقوق کے چارٹر کی شق 19 کے تحت ملنے والی آزادیوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اس قرارداد میں رکن ممالک کی حکومتوں سے یہ توقع کی گئی تھی کہ وہ صحافیوں کو اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق کام کرنے کی آزادی فراہم کریں گی۔ لیکن اس دوران تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے سبب معاشروں میں سامنے آنے والے دیگر عوامل نے صحافیوں پر دباﺅ میں اضافہ کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں یکے بعد دیگرے کئی بلاگرز کے قتل کے بعد صحافی بھی ہوشیار ہو گئے ہیں اور متنازعہ امور پر رپورٹ کرنے اور تبصرہ لکھنے میں احتیاط سے کام لیا جاتا ہے۔ یعنی قانون کو ہاتھ میں لے کر دہشت پھیلانے والے گروہ باالواسطہ طور سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کیونکہ حکومت اور مالکان اس صورتحال کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اسی طرح بھارت میں گزشتہ دس برس کے دوران انتہا پسند مذہبی گروہوں نے قوت پکڑی ہے۔ بھارت کے صحافی بھی پہلے کے مقابلے میں گھٹن کا شکار ہیں اور مکمل آزادی سے کام کرنے کی صورت میں مار پیٹ ، قتل یا نوکری سے ہاتھ دھونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔
پاکستان میں بھی آزادی صحافت کے حوالے سے صورتحال خوشگوار نہیں ہے۔ صحافی تنظیموں نے 80 کی دہائی میں اس وقت کے آمر جنرل (ر) ضیاءالحق کے خلاف بھرپور جدوجہد کی تھی جس کے نتیجے میں ملک کی تاریخ میں پہلی بار صحافیوں کو کوڑے بھی مارے گئے۔ لیکن اس سیاہ دور میں صحافیوں اور آزادی صحافت پر سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا کہ مختلف ہتھکنڈوں اور تحریص کے ذریعے اخبارات میں کام کرنے والے کارکنوں اور جرنلسٹوں کو گروہوں میں بانٹ دیا گیا۔ اسے صحافیوں کے درمیان نظریاتی جنگ کا نام دیا گیا اور ایک گروہ نے مذہب اور عقیدہ کے تحفظ کا نام لیتے ہوئے پیشہ وارانہ یکجہتی ، محنت کے مناسب معاوضہ اور حرمت قلم کے اصول پر سمجھوتہ کر لیا۔ اس دور کو اگرچہ صحافیوں کی جدوجہد اور قربانیوں کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے لیکن ان قربانیوں کے نتیجے میں نہ تو صحافی زیادہ آزاد ہوئے اور نہ ہی انہیں خوشحالی نصیب ہو سکی۔ بلکہ کمزور تنظیم اور باہمی انتشار کے سبب اپنے اداروں اور حکومت کے سامنے ان کی پوزیشن کمزور ہو گئی۔ ضیاء دور کے بعد ملک میں برسر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں بھی اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی موثر کارروائی کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ کیونکہ جمہوری حکمران بھی اخبارات کو کنٹرول کرتے ہوئے زیادہ بہتر حکمرانی کی امید کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت نے کئی برس تک ملک میں نجی ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کے آغاز کو روکنے کی کوشش کی تا کہ الیکٹرانک میڈیا پر پاکستان ٹیلی ویژن کی اجارہ داری برقرار رہے اور اس میڈیم کے ذریعے عوام صرف سرکاری پروپیگنڈا سننے اور دیکھنے پر مجبور ہوں۔ ستم ظریفی کی بات ہے کہ ملک میں پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا کا آغاز سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ہو سکا۔ ان کی حکومت میڈیا کو آزادی دینے کا اعزاز لینے کی کوشش کرتی رہی ہے لیکن اس عمل میں اصل اختیار صحافیوں کی بجائے میڈیا کے طاقتور تاجر مالکان اور اشتہارات دینے والے بڑے تجارتی اداروں کو حاصل ہو گیا۔ اب وہی صحافی مقبول ، مشہور اور بڑا ہے جو اپنے پروگرام کے لئے زیادہ اشتہارات لا سکتا ہے۔
ملک میں میڈیا پر کمرشل مفادات کے کنٹرول کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک آدھ میڈیا گروپ کے سوا سارے میڈیا ہاﺅسز میں ایڈیٹر کی ذمہ داری بھی مالکان نے خود سنبھال رکھی ہے۔ گویا غیر صحافی، اس شعبہ کی ضرورتوں سے انجان اور آزادی صحافت کو بیکار سمجھنے والے عناصر میڈیا میں سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ بطور مالک وہ ان اداروں سے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا چاہتے ہیں اور ایڈیٹر کے طور پر وہ کارکنوں اور عامل صحافیوں کو کمرشل مفادات کی حدود و قیود قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ضیاء دور میں جرنلسٹ تنظیمیں کمزور اور منتشر ہو چکی تھیں۔ اس لئے ان میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ باہمی اشتراک سے میڈیا مالکان کی اس زور زبردستی کو روکنے کے لئے کوئی اقدام کر سکیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کسی اخبار یا ٹیلی ویژن پر خبر اس ادارے کے تجارتی مفاد کے تابع ہو چکی ہے۔ اصل اختیار نیوز ایڈیٹر سے ایڈورٹائزمنٹ یا بزنس منیجر کو منتقل ہو چکا ہے۔
سرمایہ دارانہ حرص ، کمزور صحافی تنظیموں اور حکومت کی لاتعلقی ہی کا نتیجہ ہے کہ ملک کے طاقتور اور مقبول میڈیا ہاﺅسز کے مالکان اور مٹھی بھر من پسند صحافی یا پیش کار تو وسائل اور دولت میں کھیل رہے ہیں لیکن ان اداروں کے صحافی ، ٹیکنیکل اسٹاف اور دوسرا عملہ عسرت اور بے چارگی کی تصویر ہے۔ اکثر ادارے اپنے کارکنوں کو باقاعدہ جاب دینے کی بجائے انہیں کنٹریکٹ پر بھرتی کرتے ہیں اور تنخواہ یا سہولتوں میں اضافہ کے مطالبہ کی صورت میں نوکری سے نکالنے اور نئے ناتجربہ کار لوگوں کو بھرتی کر لینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اکثر صورتوں میں اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ اکثر اداروں میں صحافیوں اور اخباری ورکروں کو نہایت قلیل مشاہرہ ملتا ہے اور اس کی ادائیگی بھی باقاعدگی سے نہیں ہوتی۔ بلکہ کارکنوں کی کئی کئی ماہ کی تنخواہ روک لی جاتی ہے۔ اگر کوئی ورکر کام چھوڑتا ہے تو اسے اپنے بقایا جات سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ ایسے استحصالی مالکان کی گرفت کرنے کے لئے کوئی ادارہ یا نظام موجود نہیں ہے۔ کمرشل مفادات کی دوڑ میں بعض صحافیوں کو شراکت دار بنا لیا گیا ہے۔ اسکرین پر مقبول دکھنے والے اینکر دراصل مالکان کے تجارتی مفادات کے محافظ ہیں۔ وہ ریٹنگ میں اضافہ اور زیادہ اشتہارات کے لئے تو کوئی بھی حرکت کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں لیکن اپنے ہی اداروں میں اپنے ہی ہم پیشہ صحافیوں کے لئے آواز اٹھانے یا تنخواہوں اور مراعات میں توازن کا مطالبہ کرنے سے قاصر ہیں۔ وگرنہ کیوں کر ممکن ہے کہ چند نام نہاد اینکرز اور سینئر صحافیوں کو تو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ دی جائے لیکن ادارے کے اکثر رپورٹر اور ڈیسک جرنلسٹ چند ہزار روپے ماہانہ پر کنٹریکٹ کے تحت ملازمت کرنے پر مجبور ہوں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک میں میڈیا ہاﺅسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی مانگ میں بھی اضافہ ہوتا اور انہیں اسی حساب سے مناسب معاوضہ اور مراعات دی جاتیں تا کہ وہ سکون قلب اور آزادی سے پیشہ وارانہ فرائض انجام دے سکتے۔ اس کے برعکس کارکنوں کو معاشی مجبوریوں کے جال میں یوں جکڑ لیا گیا ہے کہ آزادی اظہار ، خود مختارانہ اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور حق پرستی بس ایسے سہانے الفاظ ہیں، جن کی پاکستان کے عامل صحافیوں کے لئے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جو لوگ یہ نعرے بلند کرتے ہیں، وہ اپنی ” کمرشل ویلیو“ کی قیمت پہلے ہی وصول کر چکے ہوتے ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments