بنی گالہ کی دیوار، جنات اور عام آ دمی


بچپن میں ہماری نانیاں دادیاں اور اماں رات کو کہانی سنایا کرتی تھیں تو وہ اس طرح شروع کرتی تھیں ’’ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، خدا کا بنایا رسولؐ بادشاہ۔ نہ کہنے والے کے گلے عذاب، نہ سننے والے کے گلے عذاب۔ جس نے یہ کہانی بنائی ہے اس کے گلے عذاب‘‘۔ تو یہاں ہم جو کچھ بیان کر رہے ہیں اس کا عذاب و ثواب اس انگریزی ہفت روزہ (The Friday Times) کے سر ہے، جس نے یہ کہانی یا یہ واقعہ چھاپا ہے۔ ہم تو صرف اسے نقل کر رہے ہیں۔

وہ واقعہ یا کہانی اس طرح شائع کی گئی ہے ’’بنی گالا سے ہماری چڑیا خبر لائی ہے کہ ایک غیر ملکی خاتون صحافی خان اعظم کا انٹرویو کرنے پہاڑی والے گھر پر گئی۔ خان صاحب کافی دیر اس خاتون سے باتیں کرتے رہے۔ انہوں نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دیئے اور مرد آہن کے خلاف خوب گرجے برسے۔ ابھی وہ (خان صاحب) اور خاتون صحافی پوری طرح باتیں کر بھی نہ پائے تھے کہ اچانک کچھ خلل اندازی ہوئی، اور انہوں (خاں صاحب) نے معذرت کی کہ انہیں بہت ہی ضروری کام سے جانا ہے۔ پھر اس خاتون صحافی سے کہا کہ جب تک وہ ضروری کام سے فارغ ہوتے ہیں اس وقت تک ان کی بیگم اسے گھر گھمائیں گی (دکھائیں گی)۔ چنانچہ وہ خاتون صحافی خان صاحب کے گھر کی سیر کو لے جائی گئی۔

اب آپ ذرا اس خشک مزاج مغربی صحافی خاتون کی پریشانی کا اندازہ لگایئے جسے خانم اعظم، جنہیں پیرنی جی بھی کہا جاتا ہے، نے بتایا کہ گھر کی چند دیواریں ان سے باتیں کرتی ہیں۔ ہم نے یہ تو سنا تھا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، لیکن اب معلوم ہوا کہ دیواروں کی زبان بھی ہوتی ہے۔ پیرنی جی نے ایک خالی سپاٹ سفید دیوار کی طرف اشارہ کیا اور خاتون صحافی کو بتایا کہ یہ دیوار ان سے اکثر باتیں کرتی ہے۔ گویا وہ کہہ رہی تھیں کہ وہ خود بھی اس دیوار سے باتیں کرتی ہیں۔

صرف اتنا ہی کافی نہیں تھا۔ اسی وقت خاتون صحافی نے شیشے کی دیوار کے باہر صحن میں کچھ کچا گوشت پڑا دیکھا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے لرزتے اور کپکپاتے ہوئے سوال کیا۔ اسے خیال آیا کہ یہ کوئی اور بھی زیادہ ہولناک چیز ہو گی۔ لیکن اسے اپنے سوال کے جواب کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ پیرنی جی نے اس دہشت زدہ صحافی خاتون کو بتایا کہ یہ گوشت جنات کے لیے ہے، جو اس گھر میں رہتے ہیں۔‘‘

ہم نے پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ یہ واقعہ یا کہانی ہم نقل کر رہے ہیں اور نقل کفر کفر نہ باشد کے مصداق ہم اس کے صحیح یا غلط ہونے کے عذاب وثواب سے بری الذمہ ہیں۔ جس انگریزی ہفت روزہ میں یہ کہانی چھپی ہے اس کے ایڈیٹروں کا شمار پاکستان کے معزز اور موقر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ اس لئے ہم نے ان پر اعتبار کیا اور یہ کہانی یا واقعہ یہاں نقل کر دیا۔

یوں بھی ہمارے لئے یہ کوئی انوکھی یا انہونی بات نہیں ہے۔ ہر ایک کے اپنے جن اور بھوت ہوتے ہیں۔ اور باتیں کرنے کے لیے ہر ایک کی اپنی دیوار ہوتی ہے۔ ابھی ابھی ہمیں یاد آیا کہ ون یونٹ کے زمانے میں ملتان میں ایک ڈائریکٹر انفارمیشن آئے تھے۔ ان کا تعلق اس وقت کے صوبہ سرحد اور آج کے خیبر پختونخوا سے تھا۔ شاعر تھے اور شیدا ان کا تخلص تھا۔ انہوں نے دیوار کے حوالے سے ہی ایک شعر سنایا تھا۔ اس شعر کا پہلا مصرع تو یاد نہیں رہا البتہ دوسرا مصرع یہ تھا۔

پاگل پن تک لے آئی ہے یاری ان دیواروں کی

اس مصرع سے خیال آیا کہ کہیں وہ خاتون علامتوں اور استعاروں میں تو بات نہیں کر رہی تھیں۔ دیواروں کی یاری واقعی بہت ہی خطرناک چیز ہوتی ہے۔ لیکن نہیں، جس مقام کا یہاں ذکر ہو رہا ہے وہاں علامتوں اور استعاروں کا عمل دخل نہیں ہو سکتا۔

اچھا چلیے جانے دیجئے اس واقعے کو اور اس دیوار اور ان جنات کو۔ آج کل عام انتخابات کے حوالے سے جو حیرت انگیز تماشے دیکھنے کو مل رہے ہیں وہ بھی عجائب و غرائب قسم کی کہانیوں سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔ ہم نے کئی انتخابات دیکھے ہیں اور ان انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ تقسیم کرنے کے واقعات بھی دیکھے ہیں۔ لیکن یہ کبھی نہیں دیکھا کہ ان ٹکٹوں کے لئے جلسے کئے جا رہے ہیں، جلوس نکالے جا رہے ہیں اور دھرنے دیئے جا رہے ہیں۔ یہ دھرنے تحریک انصاف کے کارکنوں نے شروع کئے اور مسلم لیگ نون تک پہنچ گئے۔ اب اگر مرد حضرات یہ کام کرتے تو شاید اتنی حیرت نہ ہوتی مگر یہاں تو خواتین نے پالا مار لیا ہے۔

تحریک انصاف کی خواتین نے دوسرے شہروں میں بھی جلوس نکالے اور بنی گالا میں عمران خاں کے گھر کے سامنے دھرنے بھی دیئے۔ لیکن یہ اعزاز ملتان کو ہی حاصل ہے کہ وہاں خواتین نے جلوس ہی نہیں نکالے بلکہ ایک دوسری کے دوپٹے اور بال بھی نوچے۔ ایک دو خواتین زخمی بھی ہو گئیں بلکہ بنی گالا میں جن حضرات نے دھرنا دیا اور اس احتجاج میں پہل کی وہ بھی ملتان سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ ثابت ہوا کہ ملتان یا جنوبی پنجاب کے باشندے اپنے سیاسی معاملات میں دوسرے علاقوں سے کہیں زیادہ باشعور ہیں۔

یہ سیاسی شعور ہی تو ہے کہ لغاری اور مزاری سردار جب اپنی رعیت سے ووٹ مانگنے جاتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے کہ پانچ سال آپ کہاں رہے؟ اب کس منہ سے ووٹ مانگنے آئے ہیں؟ ذرا سوچیے، آج سے پانچ سال پہلے ایسا کوئی سوچ بھی سکتا تھا؟ مان لیجئے کہ یہ سب جمہوریت کی دین ہے۔ وہ جمہوریت جس میں دیکھی اور ان دیکھی پابندیوں کے باوجود آزاد اور بے باک میڈیا پروان چڑھ رہا ہے۔ آج کے اخباروں اور خاص طور سے ٹیلی وژن چینلوں کے بحث مباحثوں نے عام آدمی کو زبان دے دی ہے۔ اب عام آدمی ان جاگیرداروں اور سرداروں کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو سکتا ہے جو کل تک اسے اپنی رعیت سمجھتے تھے۔ یہ رعیت والی بات ہم نے اپنے کانوں سے سنی ہے۔

تیس چالیس سال پہلے ہم فورٹ منرو گئے تھے تو ایک بلوچ چرواہے سے یہ لفظ سنا تھا۔ اس چرواہے سے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘ تو اس نے جواب دیا تھا ’’ہم لغاریوں کی رعیت ہیں‘‘۔ یہی رعیت اب بیدار ہو رہی ہے۔ الیکشن کراتے رہیے، اس شعور میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ بھول جایئے اس بات کو کہ الیکشن میں کھڑے ہونے والے سیاسی رہنما ارب پتی اور کھرب پتی سے کم نہیں ہیں۔ بس، آپ کسی بیرونی مداخلت کے بغیر سیاسی عمل کوا پنی صحیح اور سچی راہ پر چلنے دیجئے۔ اسی عمل میں ارب پتی اور کھرب پتی رہنمائوں کی گردن پر ہاتھ ڈالنے والے بھی پیدا ہو جائیں گے۔ جی ہاں، آپ دیواروں سے باتیں کرنا چھوڑ دیجئے اور جیتے جاگتے انسانوں سے اپنا رابطہ قائم کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).