زعیم قادری اور جمال لغاری کا زعم


دو تین روز سے مختلف محفلو ں میں محترم زعیم قادری اور سردار جمال خان لغاری کا زعم گفتگو کا موضوع ہے۔ یہ وہی زعیم قادری ہیں جو شریف خاندان کی بدعنوانیوں کابھرپور دفاع کیا کرتے تھے۔ پنجاب مسلم لیگ کے عہدیدار اور پارٹی ترجمان کی حیثیت سے نوازشریف، شہبازشریف سمیت پورے خاندان کا پوری یکسوئی اور خشوع وخضوع کے ساتھ دفاع کرنا زعیم قادری صاحب کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔ ہم تو آج تک اسی غلط فہمی میں رہے کہ زعیم صاحب بھی بدعنوان ٹولے کے رکن ہیں اور وہ نوازشریف، شہبازشریف اور خاندان کے دیگر افراد کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں سچے مسلمان اور پکے مسلم لیگی کی حیثیت سے ہی کہتے ہیں۔ وہ گفتگو کے دوران اتنے پرجوش اور سچے نظر آتے تھے کہ کبھی شائبہ بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں صدق دل سے نہیں کہہ رہے۔ اس تمام عرصے میں انہوں نے کبھی بھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیاتھا کہ وہ حمزہ شہباز کے بوٹ پالش کررہے ہیں۔

زعیم قادری 2008ءسے 2018ء تک پنجاب اسمبلی کے رکن رہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ سے دو مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جس کے بعد شادیوں کے شوقین شہبازشریف نے انہیں اوقاف اور مذہبی امور کا صوبائی وزیر بھی بنا دیا۔ اوقاف اورمذہبی امور کے وزیر کی حیثیت سے زعیم قادری نے بہت تندہی کے ساتھ پنجاب میں علماء و مشائخ کو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ یکسو رکھا۔ زعیم قادری کی اہلیہ سیدہ عظمی قادری بھی 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مخصوص نشستوں پر پنجاب اسمبلی کی رکن رہیں۔ حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مخصوص نشستوں کے لیے خواتین کی جو فہرست جاری کی گئی ہے اس کے تناظر میں مخصوص نژستوں کے ٹکٹ کا جو معیار اور میرٹ سامنے آیا ہے اس سے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے خود زعیم قادری اوران کی اہلیہ محترمہ عظمی قادری کو شریف خاندان کے فرد کا درجہ حاصل تھا۔ جس طرح اس مرتبہ شریف خاندان نے اپنے گھر کے افراد کو ہی مخصوص نشستوں کے ٹکٹ دیئے ہیں، ماضی میں بھی اسی سطح کے قابل اعتماد افراد کو ہی اسمبلیوں میں بھیجا جاتا تھا۔

شریف خاندان کے دور حکومت میں محترمہ عظمی قادری اور خود زعیم قادری نے بارہا ٹی وی پروگراموں اور پریس کانفرنسوں میں مسلم لیگ(ن) اور شریف خاندان کا بھرپور دفاع کیا۔ 21 جون کو خدا معلوم کیا ہوا کہ زعیم قادری نے یک دم نہ صرف یہ کہ مسلم لیگ کے خلاف بغاوت کر دی بلکہ پریس کانفرنس میں یہ بھی کہہ دیا کہ میں اب حمزہ شہباز کے بوٹ پالش نہیں کروں گا اور یہ بھی کہا کہ لاہور حمزہ شہبازاور اس کے باپ کی جاگیر نہیں۔ بوٹ پالش کی اصطلاح ان انتخابات میں کچھ اس انداز میں استعمال ہو رہی ہے کہ اس کے نتیجے میں دھیان کسی اور جانب ہی چلا جاتا ہے۔ زعیم قادری کے اعتراف نما انکار نے سوشل میڈیا پر بحث کے نئے در وا کر دیئے ہیں۔ لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ زعیم قادری نے اگر حمزہ شہباز کے بوٹ پالش کرنے سے انکار کیا ہے تو اس انکار کے پیچھے چھپا اقرار کس جانب ہے۔ یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا وہ صرف حمزہ شہباز کے بوٹ ہی پالش کرتے تھے یا حمزہ کے ساتھ انہیں ان کے بزرگوں کے بوٹ بھی چمکانا پڑتے تھے۔

2018ء کے انتخابات کی نئی حکمت عملی میں اگر انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے تو کیا اب وہ شریف خاندان کے کسی بھی فرد کے بوٹ پالش نہیں کریں گے؟ اور کیا انہیں اپنے 10 سالہ تجربے کی بنیاد پر یہ کام کسی اور جگہ سونپ دیا گیا ہے۔ اورکیا انہوں نے نوکری فراہم کرنے والوں کی آواز پر واقعی لبیک بھی کہہ دیا ہے۔ بعض لوگ اسے شریف خاندان کے داخلی انتشار کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں اور دوسری جانب کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زعیم قادری کو انکار کا حوصلہ کسی اور نے دلایا ہے۔ یہ کوئی اور کون ہے اس بارے میں تاریخ بھی خاموش ہے اور راوی بھی کچھ نہیں کہتا۔ راوی بے چارہ تو صرف یہ کہتا ہے کہ ان ا نتخابات میں ابھی بہت سے کرتب ہونا باقی ہیں۔ ان انتخابات میں تخت بھی گرائے جائیں گے اور تاج بھی اچھالے جائیں گے۔ اوراس عمل میں سب کچھ کہیں اور سے نہیں ہوگا۔ کچھ نہ کچھ تو لوگ اب خود بھی کرنے جا رہے ہیں۔

بالکل اسی طرح جیسے ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے میں ایک نوجوان نے دہشت کی علامت سمجھے جانے والے سردار جمال خان لغاری کو روک کر ان سے ایک سوال کر دیا اور پھر یہ سوال اور اس کا جواب مکمل ہونے سے پہلے ہی بہت سے نئے سوالات سامنے آگئے۔ عزت مآب لغاری قبیلے کے تمن دار سردارجمال خان لغاری نے کب تصور کیا ہوگا کہ یہ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ان کے غلام کبھی ان سے سوال کرنے کی جرات بھی کرلیں گے۔ اور جب سردار نے پوری رعونت کے ساتھ کہا کہ پہلے میرے سوال کا جواب دو۔ ”یہ 40 کلومیٹر سڑک تمہیں کس نے دی ہے؟“ اور ایک سادہ لوح نوجوان نے اونچی آواز میں سردار کو جواب دیا ”جمہوریت نے دی ہے“۔ تو گویا جمال خان لغاری کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

”جمہوریت جمہوریت جمہوریت۔ میں سب جانتا ہوں کیا ہے جمہوریت۔ ووٹ کی ایک پرچی وہ بھی قبیلے کے سردار کے لیے اور اس پر اتنا ناز۔ “جمال خان لغاری کی بے بسی ان کے ایک ایک لفظ سے جھلک رہی تھی۔ وہ علاقہ جہاں سے ان کے والد سردار فاروق خان لغاری بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا کرتے تھے اورجہاں کسی مہمان پرندے کو بھی پرمارنے جرات نہیں ہوتی۔ اور جہاں سردار جمال خان لغاری تلور کا شکار کر کے اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر لگاتے ہیں اور کمزور پرندوں کو مار کر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ میں کتنا طاقت ور ہوں۔ اور وہ علاقے کہ جہاں کوئی قانون بھی نافذ نہیں۔ جہاں کوئی سکول بھی نہیں۔ ہسپتال اور پینے کا صاف پانی بھی نہیں۔ اس علاقے کے نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بعد انگریزی بولنا بھی آ گئی اور وہ انگریزی بھی اپنے سردار کے سامنے بولتے رہے۔ اورجب سردار بے بس ہو کر وہاں سے روانہ ہوا تو نوجوانوں نے اس کا مذاق بھی اڑایا۔ سردار نے کہا کہ میں اب تمہارے سوال کا جواب 25 جولائی کو دوں گا۔ اور پڑھے لکھے گستاخ نوجوان نے جواب دیا کہ سر ہم بھی 25 جولائی کو ہی آپ کو جواب دیں گے۔ 25 جولائی کو کسے کیا جواب ملے گا اس کا ہمیں بھی انتظار ہے۔ زعیم قادری کو بھی۔ جمال لغاری اور اس پڑھے لکھے گستاخ نوجوان کو بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).