میڈیکل طالبات


قریبا بارہ سے پندرہ اور کم از کم پانچ سے چھ سال کی مستقل تگ و دو کے بعد پیشۂ مسیحائی سے منسلک ہونے کا اعزاز حاصل ہونا ہمارے معاشرے میں خوش قسمتی کی ایک ایسی علامت سمجھا جاتا ہے کہ جس کے باعث ہر سال سیکڑوں نہیں ہزاروں طلبہ اپنی تمام تر کوششوں اور کاوشوں کا واحد حاصل حصول میڈیکل میں داخلے کو سمجھ لیتے ہیں لیکن فی الحقیقت میڈیکل کی قلیل التعداد سیٹوں پہ داخلہ آسان ہوتا ہے نہ ہی اس تعلیم کو برتنا، اس کی کم از کم پانچ سالہ مدت پہ محیط پڑھائی سستی ہے نہ ہی سہل، اور سب سے بڑھ کر محض ایم۔بی۔بی۔ایس کی ایک ڈگری لے کر بہترین جاب حاصل کر کے ایک بھرے پُرے خاندان کو بہترین طور سے چلانے کے قابل ہو کر سونے کا انڈا دینے والی مرغی بن جانا ایک ایسا خواب ہے جس سے صرف دنیا کو بند نظروں سے دیکھنے والی آنکھیں ہی محظوظ ہو سکتی ہیں۔
ان تمام حقائق (خصوصی طور پر آخرالذکر) کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے گزشتہ کئی برسوں سے صرف کراچی اور سندھ ہی کے نہیں پاکستان بھر میں پری۔میڈیکل کے طلباء کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اور لڑکوں کا رجحان عمومی طور پر انجینئرنگ کی فیلڈز میں دکھائی دیا ہے جس کی پڑھائی نہ صرف  سستی اور نسبتا کم عرصے پر محیط ہے بلکہ جلد از جلد ایک نوکری کے حصول کی ضمانت بھی، گو کہ یہ بات بھی اس قدر حقیقت پر مبنی نہیں جتنا کہ ہمارے والدین اور طلبہ سمجھتے ہیں اور اسی نظریے کے تحت ہر ایری غیری انجینئرنگ فیلڈ اور یونیورسٹی میں داخلہ لے کر بی۔کام، بی۔اے، بی۔ایس۔سی وغیرہ جیسی ڈگریوں سے بچ جانے اور اپنے نام کے ساتھ “انجینئر” کے اضافے کا جشن مناتے نظر آتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ملک بھر میں  موجود پبلک اور کم و بیش اسی قدر تعداد میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی طالبات کا کیا ہوتا ہے؟ جبکہ تمام ملک میں میڈیکل کی طالبات کی تعداد طلباء سے زیادہ ہے اس کے باوجود بی۔بی۔سی سمیت کئی اور معتبر اداروں کی رپورٹ کے مطابق خواتین ڈاکٹرز کی تعداد ملک بھر میں کم ہے۔ میڈیکل میں داخلے کے متعلق والدین اور طالبات میں جس قدر جوش و خروش پایا جاتا ہے آخر وہ اسی جوش و خروش کو پانچ سال بعد برقرار کیوں نہیں رکھتے یا رکھ پاتے؟ ملک بھر سے کتنی تعداد میں میڈیکل گریجویٹس اسپیشلائزیشن کرتی ہیں اور کتنی اپنی میڈیکل پریکٹس کو جاری رکھتی ہیں یہ ایک قابلِ فکر معاملہ ہے۔
سالِ رواں میں بھی میڈیکل داخلے کے لیے لڑکیوں کی تعداد حسبِ توقع، لڑکوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے لیکن جس طور سال 2017 میں ملک بھر میں میڈیکل داخلوں میں مشکلات کا سامنا نظر آیا ویسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ سندھ میں تو میڈیکل کی سیٹ پر حق رکھنے والے طلبہ کی کاوشوں سے  معاملات ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پہنچنے کے بعد حل ہوئے ہیں، اس سب کے باوجود ان تمام مراحل میں طلبا و طالبات (جن میں طالبات کی اکثریت تھی) کا جذبہ دیدنی رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ طلبہ خصوصاً طالبات اپنے اس شوق کو اصل منزل پر پہنچنے تک برقرار رکھ پائیں گے یا مملکتِ پاکستان آنے والے سالوں میں بھی اچھے،قابل اور تعلیم یافتہ ڈاکٹروں اور ڈاکٹرنیوں کے معاملے میں بحران کا شکار رہے گی؟
 کیا ان میں سے اکثر و بیشتر خواتین ڈاکٹرز اپنی پڑھائی ایم۔بی۔بی۔ایس کے بعد ترک کردیں گی یا معمولی ڈپلوما لے کر ہفتے میں چند گھنٹوں کی پریکٹس پر مطمئن ہو جائیں گی؟ کہیں ان میں سے کئی درجن کینیڈا،امریکہ،آسٹریلیا وغیرہ بیاہ کر جانے کے بعد لائسنس امتحان پاس نہ کرنے کی صورت میں اپنی اس پروفیشنل ڈگری کو کسی تہ خانے کی نذر تو نہیں کر دیں گی؟ یا پھر کہیں سسرال اور سسرالیوں کے قدامت پسندانہ خیالات کے پیشِ نظر (جنہیں شادی کے وقت انہوں نے بھی میڈیکل ڈگری ہولڈر بہو کو اسٹیٹس سمبل سمجھتے ہوئے پسِ پشت رکھا ہوا تھا) اپنی سالوں کی محنت ضائع کر دیں گی؟
میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت طلبا و طالبات اور ان کے والدین  کو اس بات کیلیے ہر طرح سے ذہنی طور پر تیار ہونا چاہیے کہ یہ داخلہ محض ایک ڈگری کے حصول تک کا معاملہ نہیں بلکہ ملک کے ایک بہت قیمتی اثاثے کی تیاری کا عمل ہے جو ان طلبہ کے٬ اپنے شعبے میں کام نہ کرتے رہنے کی وجہ سے نہ صرف ضائع ہو جاتا ہے بلکہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بنتا ہے کیونکہ اول تو یہ کہ جو لڑکیاں (اور لڑکے بھی) میڈیکل پریکٹس نہیں کرتیں وہ نہ صرف ایک سیٹ ضائع کرتی ہیں بلکہ اپنے پیچھے رہ جانے والے ایک ایسے طالبعلم سے بھی وہ موقع چھین لیتی ہیں جو ممکنہ طور پر سیٹ مل جانے کی صورت میں میڈیکل پڑھ کر پریکٹس بھی کرتا اور ملک کے اس قیمتی اثاثے کی قلت میں کمی کا باعث بنتا۔
مزید برآں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ کئی طلبا و طالبات محض اپنے والدین کی خواہش اور معاشرتی دباؤ کے پیشِ نظر میڈیکل کالج میں  قدم رکھتے ہیں اور اس کے بعد اس بات سے بے بہرہ ہوجاتے ہیں کہ انہیں وہاں کس قدر تن دہی اور جاں فشانی سے پڑھ کر ملکی سرمایے میں اضافہ کا سبب بننا ہے ناں کہ ایک ناکارہ ڈاکٹر کی صورت معاشرے میں مزید ایک قصائی اور اسپتالوں میں کمائی کا ذریعہ۔ اس امر میں یہ بات لازم ہے کہ کم از کم میڈیکل جیسی فیلڈ میں داخلے کے وقت بچوں کی اس فیلڈ سے محبت اور ان کے اہداف و مقاصد کے متعلق ان کے وژن کو پرکھا جائے کیونکہ یہ صرف پانچ سال نہیں بلکہ تمام عمر کے عہد و پیماں اور عزم و ہمت کی بات ہے ۔
والدین اور ہمارے معاشرے کو بھی یہ بات سمجھنے کی اشد ترین ضرورت ہے کہ ڈاکٹر اور انجینئر بننا دنیا کا اول و آخر کام نہیں ہے، اس دنیا میں تمام تر شعبہ جات اپنی اہمیت رکھتے ہیں، سائنس کی دیگر فیلڈز، کامرس، فنونِ لطیفہ وغیرہ سب کا اپنا مقام ہے۔ علم،تعلیم، دولت،عزت، شہرت،اچھے رشتے سب اللّٰہ کی طرف سے ہیں ان کا ڈگریوں سے ہرگز ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ کم از کم ان مقررہ چیزوں کو ہدفِ اولی بنا کر میڈیکل کالجز میں داخلہ لے کے سیٹ ضائع نہ کریں بلکہ کوئی ایسا شخص جو واقعتا اس فیلڈ کیلیے خود کو وقف کرنے کی خواہش رکھتا ہو، اسے میڈیکل میں آنے کا موقع دیں تاکہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک و قوم کی صحیح معنوں میں خدمت کر سکے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).