مردانہ کمزوری


ابھی پاکستان کو قائم ہوئے تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ ایک انگریز خاتون نے پاکستان کی خاک چھاننے کا فیصلہ کیا، اسےسیاحت کے ساتھ ساتھ تحقیق سے بھی لگاؤ تھا، اسی لئے وہ سیر و تفریح کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک کی اندرونی صورت حال اور مزاج سے بھی واقفیت ضروری سمجھتی تھی، سو اس نے نوزائدہ مملکت کے وسیع ریگستان میں آبلہ پائی کا فیصلہ کیا۔ اس وقت دنیا کے ”مہذب“ ممالک میں پاکستان کی تیزی سے بڑھتی آبادی سے متعلق سرگوشیاں جاری تھیں، اس کی جستجو کا موضوع بھی یہیں آن ٹھہرا۔

وہ قریبا ایک ماہ تک صحرا نوردی کرتی رہی۔ ۔ اس دوران اسے جو حقائق ملے وہ نفس ناطقہ کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی تھے، پاکستان کا ہر شادی شدہ شخص کم از کم نصف درجن بچوں کا باپ ضرور تھا اور سینکڑوں بچوں کے ماموں، چاچو اور پھو پھاہونے کا اضافی اعزاز بھی رکھتا تھا! اس پر مستزاد یہ کہ سب کرشمے ایک بیوی سے پھوٹ رہے تھے اور وہ بیوی بھی ایسی ”جواں مرد ”کہ مردوں کے شانہ بشانہ محنت و مشقت کا بار گراں بھی اپنے کندھوں پہ اٹھائے ہوئے تھی وہ ہمہ وقت انہیں حیرت ناک نظاروں میں گھری رہتی۔ ایک دن وہ کسی لوکل بس میں سفر کے لئے بیٹھی تھی کہ اچانک ایک شخص بیگ تھامے نمودار ہوا، اس شخص نے بھری بس میں اپنی تقریر جھاڑنا شروع کر دی، چند منٹ بعد نووارد نے میلے بیگ کی زنگ آلود زپ کھولی اور اس میں سے خاکی رنگ کی پھکی اور گولیوں کی پڑیاں سواریوں کے سامنے پیش کر دیں۔

لیکن انگریز خاتون صاحبہ کو اس لمحے حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب ہٹے کٹے نوجوانوں نے ”مردانگی کا جوہر” نامی دوائی ہاتھوں ہاتھ خرید لی۔ اس کے دماغ میں حیرت اور تجسس کی آندھیاں چل پڑیں۔ اگر یہ موٹے تازے نوجوان مریض ہیں تو پھر ان کے والدین کی شاندار صحت کا راز کیا ہے؟ یہ سوال اس کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برسنے لگا۔ وہ اس معمے کو تلاشنے نکل کھڑی ہوئی۔ اب جو اس نے ”مرض خاص“ کا چشمہ لگا کر دیکھا تو پورے پاکستان کا نقشہ ہی بدل کر رہ گیا۔ گھر کی دیواروں سے لے کر سائن بورڈز تک۔ پمفلٹس سے لے کر اخبارات تک۔ ذاتی ٹوٹکوں سے لے کر بازاری نسخوں تک۔ غرضیکہ پورا پاکستان چیخ چیخ کر اپنی اندرونی حالت بیان کر رہا تھا۔ ۔ مردانہ کمزوری!! گویا اس وقت پاکستان کے تمام مسائل سے بڑا اور عظیم مسئلہ یہاں کے نوجوانوں میں تباہ ہوتے جوہر کو روکنا تھا۔

بالآخر اس نے گتھی سلجھانے کے لیے ایک مشہور حکیم صاحب کا رخ کیا۔ وہاں دوا خانے میں الگ دنیا قائم تھی کہ ایک دیہاتی حکیم صاحب سے گتھم گتھا ہونے کو تھا، حکیم صاحب نے اس کے مرض کی تشخیص کی تھی۔ لیکن جب سادہ لوح دیہاتی کو محلے کے لڑکوں نے قہقہے مار کر اصل صورت حال سے آگاہ کیا تو وہ اپنے کڑیل جواں درجن بھر بچوں کو لئے یہاں آن پہنچا تھا۔ انگریز خاتون کو دیکھتے ہی اس نے نعرہ لگایا ”یہ عورت جانے نہ پائے، مجھ سے پچھلے ماہ اولاد سے متعلق تفتیش اسی نے کی تھی“، یہ سننا تھا کہ انگریز خاتون سر پر پاؤں رکھ کر بھاگی، حکیم صاحب بھی اسی کے ہمراہ دوڑ پڑے۔ دوڑتے دوڑتے وہ دونوں جنگل آن پہنچے۔ ۔ اکثر مؤرخین کا خیال ہے کہ آج جتنے بھی ”ماہر امراض مخصوصہ ”ہیں، جنہوں پورے ملک کی نوجوان نسل کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے، اسی جوڑے کی اولاد میں سے ہیں۔

قارئین! اس بے مثال جوڑے کی روحیں آج بھی زندہ ہیں، انگریز خاتون کی آتما حیرت کا مجسمہ بن چکی ہے، جب وہ کسی نوجوان پر رات کی تاریکی میں وار کرتی ہے تو نوجوان پریشانی سے کہتا ہے ”یار اے کی ہو گیا؟ “، پھر اس کے شوہر حکیم صاحب مرحوم اسی صبح نور کے تڑکے اس نوجوان کو اپنی لٹیری اولاد کے دواخانوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں!

اگر آپ بھی کبھی اس جوڑے کے فتنے میں مبتلا ہو جائیں تو مردانہ کمزوری کے لیے حکیم صاحب کے دوا خانے جانے سے پہلے اپنے خاندان میں موجود بچوں کی تعداد پر ضرور غور کیجئے گا، میرا دعوٰی ہے کہ بے اختیار آپ اپنی مونچھوں کو تاؤ دینا شروع کر دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).