سیاست دانوں نے ہمیں تباہ کر ڈالا


گزشتہ چند ماہ سے کسی مغربی مفکّر کا ایک قول سوشل میڈیا پر گردش میں ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اگر تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ حققیقتاً تم پر کون حکمران ہے تو یہ دیکھو کہ ایسا کون سا طبقہ ہے جس پر تنقید کرنے کی آزادی تمہیں میسّر نہیں۔ مغرب کے اخلاقی زوال کا باعث ایسی ہی بے سروپا سوچ کی بہتات ہے۔ ویسے بھی ہم آ ج تک مغرب سے مستعار نظامِ سیاست کے ثمرات بھگت رہے ہیں۔ اس پر طرّہ یہ کہ ہم اپنے ملکی حالات کا جائزہ لینے کے لیے بھی مغربی مفکّرین کے نظریات کا سہارا لینے پر بضّد ہیں۔ مملکتِ خداداد بفضلِ خدا ایسی کسی بھی منافقانہ مصلحت اندیشی کا شکار نہیں کہ ہمیں اپنے اصل حکمرانوں کو جاننے کے لیے کچھ خاص جتن کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ ہمارے اصل حکمران بھی بدقسمتی سے وہی ہیں جو کہ ہیں۔۔۔ یعنی کہ سیاستدان۔

اگرہم افکارِ مغرب سے مرعوب طبقہ دانشوراں کی تسلّی کی خاطر اتمامِ حجّت کے طور پر درج بالا اصول کی کسوٹی پراپنی سیاسی تاریخ کو پرکھیں بھی تو نتیجہ دو جمع دو چار کی مانند واضح اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہی سیاستدان ہی ہیں جنہوں نے قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک اپنی غلط پالیسیوں، بد نیّتی اور احمقانہ طرزِ حکمرانی کے باعث ہمارے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور یہ سب جاننے کے باوجود بھی اس طبقے نے ہمیں ڈر اور خوف کے ایسے ماحول میں جینے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم میں سے ہر خاص و عام ان کی کوتاہیوں کی جانب انگلی اٹھانے سے ڈرتا ہے۔ اپنی جان کس کو پیاری نہیں ہوتی اور یہاں تو یہ حال ہے کہ ذرا آپ نے سیاستدانوں کی غلط پالیسیوں پر انگلی اٹھائی نہیں اور ادھر آپ کے لواحقین آپ کی تصاویر والے بینرز اٹھائے آپ کی بازیابی کے لیے مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔ ملک کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک آزاد نہیں۔ کوئی نیوز چینل سیاستدانوں کے خلاف کچھ بول کر تو دکھائے، اپنی نشریات عوام تک پہنچانے کو ترستا رہ جاتا ہے۔ کوئی اخبار ان سیاستدانوں کی شرانگیزیوں کے متعلق کچھ چھاپنے کی جسارت تو کرے، اس کے مالکان کو اپنے پرچے کی ترسیل تک کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

نادان عوام سوشل میڈیا تک رسائی کے بعد خوشی کے شادیانے بجاتے پھرتے تھے کہ اب وہ بلا کسی روک ٹوک سیاسی قیادت کی نااہلی پر انگلی اٹھانے کے لیے آزاد ہوں گے، مگر ہمارے گلے پڑی اس مخلوق نے بھی کچّی گولیاں نہیں کھیلیں۔ تنقیدی پوسٹس لگانے والے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے گھروں پر چھاپے پڑنے لگے اور جعلی ناموں سے بنائے گئے ایسے اکاؤ نٹس کی شناخت کر کے انہیں فوری طور پر بلاک کیا جانے لگا۔ ڈر اور خوف کی ایسی فضا قائم کر دی گئی ہے کہ ہر لکھنے والا لکھنے سے پہلے یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ اس کی کسی تحریر سے حکمران طبقے کی جبیں شکن آلودہ نہ ہونے پائے۔ ورنہ ان کی داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔

آپ خود ہی دیکھ لیجیے، اس ایک مراعات یافتہ طبقے کے علاوہ اور ایسا کون سا طبقہ ہے جس کی عزّت کی دھجّیاں اڑانے میں ہمیں کوئی باک ہے۔ اور کون سا ادارہ ایسا ہے جو ہمارے طنز و تشنّع کا نشانہ نہ بنتا ہو۔ اور تو اور ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ ادارے بھی ناقدّین کو منہ توڑ جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایک صرف یہ سیاستدان ہیں کہ اپنی تمام ترسیاہ کاریوں کے با وجود اپنے خلاف اٹھنے والی ہرآواز کو ظلم و جبر کی طاقت سے دبا دیتے ہیں۔ ایسے میں آواز اٹھانے والی ہر شخصیت پر غدّار کا لیبل چسپاں کر دیا جاتا رہا ہے اور کبھی مزاجِ شاہی زیادہ ہی برہم ہو جائے تو ان پر تنقید کرنے والے تنقید کرنا بھول کر خود کو کفروتوہین کے الزامات سے بچاتے پھرتے ہیں۔ ایسے میں سب کو چپ رہتے ہی بنتی ہے۔

دلائل کا انبار ہے مگر قارئین کے قیمتی وقت کے ضیاع کے ڈر سے طوالت سے گریز کرتے ہوئے التماس ہے کہ تار کو چٹھی سمجھتے ہوئے اور تھوڑے لکھے کو بہت جانتے ہوئے باقی کا مضمون خود ہی بھانپ لیں۔ ڈر اور خوف کی فضا میں یہ چند سطریں سپردِ قلم کرنا بھی دل گردے کا کام ہے۔ صرف اس امید پر تحریر اشاعت کے لیے ارسال کی گئی ہے کہ اس کے متن کو محض مزاح کے پیرائے میں لیا جائے اور پسِ تحریر کوئی پوشیدہ معنی اخذ کرنے سے حتیٰ الامکان گریز کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).