یوسفی صاحب وائرل ہوگئے


یوسفی صاحب کیا گئے سمجھو اردو ادب کا طنزومزاح یتیم ہوگیا۔ مشتاق احمد یوسفی اپنی تحریر میں زندہ رہیں گے انھوں نے ایسا ادب تخلیق کیا جو امر ہوگیا۔ ایک ایک لفظ نگینہ اور ایک ایک جملہ طنزومزاح کا وہ شہ پارہ ہے جو باذوق قارئین کے دل دماغ میں محفوظ ہیں۔ موقع محل کے حساب سے اشعار تو سب کو بروقت یاد آجاتے ہیں لیکن نثر پارے بہت کم ہیں جنھیں یاد رکھا جاتا ہے ان میں مشتاق احمد یوسفی کے کئی ون لائنر لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہیں۔

بیس جون کو یوسفی صاحب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کتابیں چراغ تلے۔ خاکم بدہن۔ زرگزشت۔ آب گم اور شام شعر یاراں ہمارے درمیان ان کی موجودگی کا احساس دلاتی رہیں گی۔ اس دن سے آج تک سوشل میڈیا پر یوسفی صاحب وائرل ہوگئے۔ ان کے ون لائنر، مضامین کے اقتباسات اتنی بڑی تعداد میں ڈالے جارہے ہیں کہ لگتا ہے اس قوم نے یوسفی صاحب کی روح کو باور کرانے کی ذمہ داری اٹھالی ہے کہ دیکھیں ہم نے آپ کی ساری کتابیں پڑھی ہوئی ہیں۔

مزے کی بات ہے وہ وہ جملے یوسفی صاحب سے منسوب کیے جارہے ہیں جو اگر یوسفی صاحب حیات ہوتے تو احتیجاجاً اپنے لکھے سے دستبردار ہوجاتے۔ طنزومزاح کو چوراہے کی زینت تو نہ بناؤ ہر لطیفہ یوسفی صاحب سے کے نام سے لگایا جارہا ہے تاکہ یوسفی صاحب کی موت کے غم کو بانٹ سکیں مگر ان لطیفوں اور مزاح پاروں کو پڑھ کر ان کا غم دگنا چوگنا ہورہا ہے کیونکہ اس باکمال شخص نے اپنی ستانوے سالہ زندگی میں اتنی عرق ریزی اور جانفشانی کے بعد پانچ کتابیں تخلیق کیں۔ سوشل میڈیائی عوام نے چند دنوں میں اتنے لطیفے۔ ون لائنر ان سے منسوب کردیے کہ پڑھ کر افسوس ہورہا ہے۔ اتنے بھونڈے لطیفے یوسفی صاحب کے کھاتے میں ڈالے جارہے ہیں کہ یوسفی صاحب کو معلوم ہوتا کہ عوام الناس ان کے بعد ان کی تحریر کے ساتھ یہ حال کرے گی تو وہ لکھنے کا کھاتا کھولتے ہی نہیں یا پھر کھولتے ہی بند کےدیتے۔

یہ کیسے لوگ ہیں جو ایک بھیڑ چال کی صورت لگے پڑے ہیں اپنی تصاویر فوٹو شاپ کرکے یوسفی صاحب کے ساتھ لگانے کا ٹرینڈ چل نکلا ہے بھئی یوسفی صاحب آپ سے پوچھنے نہیں آئیں گے کہ ان کے ساتھ تصویر کیوں نہیں کھنچوائی۔ رضاعلی عابدی نے ان کی وضعداری کا ایک قصہ لکھا ہے کہ وہ سوٹ اور ٹائی کے بغیر گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ یہاں تک کہ بیماری کی حالت میں انھیں ہسپتال کے لباس میں عیادت کرنے والوں سے ملنا بھی گوارہ نہ تھا مہربانی کرکے ان کی وضعداری کا لحاظ ہی کر لیں۔ اپنی محبت کا ثبوت دینے کا یہ کونسا طریقہ ہے۔ یاران فیس بک یوسفی صاحب سے محبت جتانا ہی ہے تو ان کی کتابین پڑھیں اگر پڑھ چکے ہیں تو دوبارہ پڑھیں اور سمجھیں تاکہ ان کے لکھے کو سمجھنے کا رجحان پیدا ہو کیا ہی اچھا ہو ان کے کسی نثر پارے کو اردو کے نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ ان سے عقیدت کا حق ادا ہوسکے۔

مشتاق احمد یوسفی کے ساتھ ان کا ہم زاد مرزا عبدالودو بیگ بھی رخصت ہوگیا تو برائے مہربانی مرزا بننے کی ناکام کوشش نہ ہی کی جائے تو طنزوظرافت پر ایک احسان ہوگا کیونکہ
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).