منظور پشتین کس کا؟ بوگی نمبر گیارہ میں ہونے والا مکالمہ


عید کی چھٹیاں گزار کر ہم نے اسلام آباد واپسی کا رخت سفر باندھا، گرین لائن ٹرین حیدرآباد اسٹیشن سے رات سوا بارہ بجے چلتی ہے، کراچی سے بیٹھنے والے مسافر کچی پکی نیند میں ہوتے ہیں کہ حیدرآباد آجاتا ہے۔ سو میں اور میرے میاں اس ٹرین کی بوگی نمبر گیارہ میں سوار ہوئے، اپنے مختصر سامان کے ہمراہ ڈبے میں داخل ہوئے تو دیکھا دو بھاری جسم کے پٹھان بھائی بیٹھے ہیں، ابھی میں نے نشست ہی سنبھالی تھی کہ کمپارٹمنٹ میں ایک اور پٹھان بھائی کی آمد ہوئی، ڈبے میں پشتو زبان میں گفتگو ہونے لگی، میں نے کوفت کا اظہار کرتے ہوئے میاں کی طرف دیکھا کہ اب اسلام آباد تک پشتو سننے پڑے گی اور سمجھ کچھ نہیں آئے گی۔

ڈبے میں داخل ہونے والے تیسرے پٹھان بھائی جنہوں نے سر پہ سرخ پشتین ٹوپی پہن رکھی تھی کافی وضع دار واقع ہوئے، میرے تیور دیکھتے ہی اپنے ہم زبان مسافروں سے کہنے لگے ”یار اب پشتو نہ بولو، اردو میں بات کرو“ یہ کہتے ہی انہوں نے حیدرآباد کی سوغات کافی کیک سب کو پیش کیا، ساتھ ساتھ بتانے لگے کہ یہ ایک فیس بکی دوست نے حیدرآباد اسٹیشن پر لاکر تحفہ دیا ہے۔

یہ سرخ پشتینی ٹوپی والے زمل خان تھے، پشتون ایکٹوسٹ اور فیس بک پر خاصے مشہور ہیں۔ وہ بھاری جسم والے دو بھائی، کاسمیٹکس کے کاروبار سے منسلک مردان کے سیدھے سادے پٹھان ہیں، ہمارے ڈبے میں ایک خاموش طبع میمن بھائی بھی تھے، جن کی گفتگو کا محور صرف کاروباری گفتگو تھی۔

زمل خان نے پشتین ٹوپی ٹیبل پر رکھی تو مردان کے پٹھان بھائی نے بے تکلف ہوکر جھٹ سے اپنے سر پر رکھ لی اور کہنے لگے ”یہ پیاری سی ٹوپی پہن تو لی ہے مگر مجھے یہ بالکل پسند نہیں، سفر کے آغاز میں ہی یہ طے ہوا ہے کہ زمل خان دلائل کے ذریعے منظور پشین کو لیڈر ثابت کرے گا، ورنہ ہمیں تو وہ پہلے ہی نہیں بھاتا“۔

ایک صحافی کو بھلا اور کیا چاہیے، میں نے کسی پروگرام اینکر کی طرح زمل خان کی جانب دیکھا اور تعارفی سوال پوچھ لیا، جواب واضح نہ تھا، میں نے پھر وہی سوال کیا مگر ساتھ ہی پشتین ٹوپی کا حوالہ بھی شامل کرلیا۔ معلوم ہوا کہ زمل خان منظور پشتین کے نظریاتی حامی اور ایک محب وطن پاکستانی پشتون ہیں۔

زمل خان نے اپنے تعارف کے ساتھ ہی پشتون تحفظ موومنٹ کی ابتدا، مقاصد، منزل سب ہی کچھ ایک سانس میں بتادیا، زمل خان نے بتایا کہ کیسے کراچی کے بدنام زمانہ پولیس آفیسر راؤ انوار کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کی بے گناہ شہادت ہوئی، پڑھے لکھے پشتونوں نے خامشی کیسے توڑی، پچیس سالہ منظور پشتین کیوںکر آگے آیا اور قبائلی پشتون دہشتگردی کے کس دوہرے عذاب سے تنگ آکر دھرنوں پربیٹھے۔

مردان کے بھائی شاید سوالات پہلے ہی تیار کر بیٹھے تھے، زمل خان نے سانس لی تو انہوں نے سوال کرڈالا ”یہ سب باتیں تو ٹھیک ہیں مگر وہ پاکستان کے خلاف بات کیوں کرتا ہے؟ “
”پاکستان بننے سے بھی پہلے ہمارے اجداد یہاں ہوا کرتے تھے، یہ زمین ہماری ہے اس کے خلاف بات کیسے کرسکتے ہیں“ زمل خان نے اپنا مقدمہ مضبوط کیا۔

میں نے بحث میں اینٹری دیتے ہی کہا کہ منظور پشتین تحریک کے مطالبات آئینی ہیں بر حق ہیں مگر اس کے نعرے ”یہ جو دہشتگردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے“ نے تحریک کو متنازعہ بنادیا ہے۔
زمل خان نے جواب میں اپنے وہ تمام عزیز و اقارب گنوائے جو پاک فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں، پھر کہنے لگے ”پاک فوج سے نفرت نہیں، شکایت ہے“۔
اور وہ شکایت کیا ہے؟ یہ سوال مردان کے بڑے بھائی کا تھا۔

زمل خان جیسے اسی سوال کے منتظر تھے جذباتی انداز میں بولنے لگے ”افغان جنگ میں ہم پشتون رُل گئے، انہی اداروں کے افسران نے ہمارے جوانوں کو عسکری ٹریننگ دیں، ہمیں جہاد کے نام پر استعمال کیا گیا، پھر اداروں کی پالیسی بدلی تو وہی ٹریننگ یافتہ گروہ ریاست کے خلاف ہوگئے دہشتگرد کہلائے، ریاست نے صفائی کی ٹھانی تو بھی پشتون نشانے پر آئے، چکی کے ان دو پاٹوں کے بیچ پسنے والے صرف پشتون ہیں، دہشتگردی وہ گروہ کرتے ہیں چیک پوسٹوں پر ذلیل ہم پشتون ہوئے، دہشتگردوں کی آماجگاہ کوئی اور ہے مگر زیر زمین بارودی مواد ہم پشتون کی راہ میں بچھائے گئے، ماسٹر مائنڈ کوئی اور ہیں مگر چھاپے گرفتاریاں اور ماوارائے آئین قتل ہم پشتونوں کے ہوں، کیا یہ زیادتی نہیں؟ کیا شکوہ کرنا غلط ہے؟ کیا آواز اٹھانا غداری ہے؟ ”

”آپ کا شکوہ جائز ہوگا مگر یہ سوچیں کہ پاک فوج تو خود دہشتگردوں سے لڑ رہی ہے، جوان آپریشنز میں شہید ہورہے ہیں قربانیاں دی جارہی ہیں تب ہی دہشتگردی زدہ علاقوں میں امن آرہا ہے“ اب کی بار مردان والے بھائی کے کم عمر چھوٹے بھیا نے بحث میں اپنا حصہ ڈالا۔

زمل خان جواباً خاموش رہے تو لڑکے کو حوصلہ ملا ”قسم سے میرا تو بہت دل چاہتا ہے پاک فوج میں جاکر دشمنوں سے لڑوں ملک کی خاطر جان دوں مگر افسوس میں فوجی نہیں بن سکا۔ “ میں نے سوچا چلو کچھ کرئیر کاونسلنگ ہی ہوجائے گی بیچارے کی سو میں نے پوچھا بھائی کیوں نہیں بن سکے فوجی؟ نہایت معصومیت سے کہنے لگا ” کبھی اپلائی ہی نہیں کیا۔ “
سادہ سے جواب پہ ہم سب ہی مسکرانے لگے۔

زمل خان نے مسکراہٹ کچھ اور بڑھائی اور بتانے لگے کہ عید کے موقع پر قبائلی علاقوں کی چیک پوسٹوں پر آنے والوں کو مٹھائی، پھول وغیرہ دینے کی اطلاعات ملیں ہیں یعنی اب احساس ہورہا ہے، تبدیلی آرہی ہے۔

وقت نصف شب سے کچھ اوپر ہوچلا تھا، میں نے نئے سوال کے ساتھ بحث کو پھر شروع کیا ”منظور پشتین جوان اور جذباتی ہے، اس کا سیاسی تجربہ کم ہے وہ کسی دشمن ایجنسی کے ہاتھوں غلط استعمال بھی تو ہوسکتا ہے؟ ”

زمل خان ایک بار پھر دلائل کے ساتھ منظور پشتین کے دفاع میں آگے آئے ”یہی تاثر پھیلایا گیا ہے کہ منظور کے پیچھے غیر ملکی ایجنسیاں ہیں، وہ بیچارہ تو کسی غیر ملکی نمبر کی کال تک اٹینڈ نہیں کررہا اسی ڈر سے، تحریک کے حوالے سے ہر فیصلہ ساتھیوں کے سامنے ہوتا ہے، کسی سے ملاقات ہوتی بھی ہے تو تحریکی ساتھی موجود ہوتے ہیں، منظور پشتین کی کوششیں شفاف ہیں اور تحریک کی منزل واضح ہے، جہاں تک بات رہی غلط استعمال ہونے کی تو اس تحریک سے پشتون عوام اتنے سیاسی باشعور ہوگئے ہیں کہ وہ کسی بھی گڑ بڑ کی صورت میں خود اس تحریک کو بھی مسترد کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ “

”اچھا فرض کرو منظور پشتین کے سب مطالبات مان لیے جائیں اور عمل درآمد بھی ہوجائے تو کیا یہ تحریک ختم ہوجائے گی؟ ” سوال کے لہجے سے واضح تھا کہ اب گفتگو کا دسترخوان لپیٹنے کا وقت ہوا چاہتا ہے، اور یہ سوال پھر مردان کی جانب سے آیا تھا۔
”ہاں بالکل، انصاف مل جائے تو سائل کا مقدمہ خود ہی ختم ہوجاتا ہے۔ “ زمل خان نے بات تو بہترین کی تھی۔

ڈبے میں خاموشی تھی، شاید مباحثے سے تھکے اذہان کچھ دیر آرام طلب کررہے تھے۔
ٹرین کی کھڑکی میں اگلی صبح کا سورج چمکا تو مسافر بھی جاگے، آنکھیں ملتے ہوئے چلتی ہوئی ٹرین سے میں نے باہر دیکھا، ابھی پنجاب آیا تھا یعنی منزل دور تھی۔

مصنفہ کا تعارف
عفت حسن رضوی صحافی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، شیوننگ ساوتھ ایشیا جرنلزم پروگرام برطانیہ اور انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس واشنگٹن کی فیلو ہیں۔

عفت حسن رضوی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عفت حسن رضوی

نجی نیوز چینل میں ڈیفنس کاریسپانڈنٹ عفت حسن رضوی، بلاگر اور کالم نگار ہیں، انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس امریکا اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کی فیلو ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @IffatHasanRizvi

iffat-hasan-rizvi has 29 posts and counting.See all posts by iffat-hasan-rizvi