جب نیلسن منڈیلا کو دہشت گرد قرار دیا گیا


نیلسن منڈیلا کو جب 1964 میں دہشت گردی‘ کمیونزم اور غداری کے الزامات کی وجہ سے جیل میں ڈالا گیا تو انہوں نے مندرجہ ذیل تقریر کی۔

’ میں سب سے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت کے اصحابِ بست و کشاد نے ہم پر جو الزام لگایا ہے کہ ہمیں ملک سے باہر کے لوگ مدد کر رہے ہیں یا ہم کمیونسٹ ہیں، وہ غلط ہے۔ میں نے سیاہ فام لوگوں کی جدوجہد میں اب تک جو بھی کام کیا ہے وہ میرا ذاتی فیصلہ ہے۔ مجھ سے کسی خارجی طاقت نے کوئی کام نہیں کروایا۔

جب میں بچہ تھا تو ہمارے قبیلے کے بزرگ ہمیں بہت سے قصے سنایا کرتے تھے۔ ہمارے بزرگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے اپنی قوم کے دفاع اور اپنی آزادی کے لیے جنگیں لڑی تھیں۔ میں نے نوجوانی میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ میں اپنی قوم کی آزادی کی جنگ میں اپنا کردار ادا کروں گا۔

ہم نے اپنی آزادی کی جنگ پرامن طریقے سے شروع کی تھی لیکن پھر ایک ایسا وقت آیا جب حکومت نے پرامن احتجاج پر پابندیاں لگانی شروع کر دیں۔ اس وقت ہمارے پاس دو راستے تھے۔ ایک راستہ یہ تھا کہ ہم اپنی غلامی اور محکومی کو ہمیشہ کے لیے تسلیم کر لیں۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ ہم حکومت کے غیر منصفانہ قوانین کو چیلنج کریں۔ پہلے ہم نے پرامن طریقے سے قوانین کو چیلنج کیا لیکن جب حکومت نے ہمیں دبانے اور چپ کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا تو ہم بھی طاقت استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ہم نے بھی فیصلہ کیا کہ ہم طاقت کا جواب طاقت سے دیں گے۔ ہم نے آزادی حاصل کرنے کے لیے جو طاقت استعمال کی وہ دہشت گردی نہیں تھی۔

ایفریقن نیشنل کانگریس ANC کا ماضی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس تحریک نے ہمیشہ پرامن احتجاج کیا لیکن ہم نے مجبور ہو کر اس کا ایک باب UMKONTO بنایا جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتا تھا۔ ہمارا مقصد جنوبی افریقہ میں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا تھا جو انصاف پر مبنی ہو جہاں کالے اور گورے مل کر پرامن طریقے سے رہ سکیں۔

امکونٹو نے اپنے پہلے دور میں پوری کوشش کی کہ حکومت کے غیرمنصفانہ نظام کو چیلنج کرتے ہوئے خون نہ بہے۔ کوئی قتل نہ ہو کوئی جان ضائع نہ ہو۔

مجھ پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ میں ایک کمیونسٹ ہوں۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ میں اپنے ملک کا وفادار شہری ہوں۔ آج میں اپنے سیاسی اور نظریاتی موقف کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں ایک غیر طبقاتی معاشرے ایک CLASSLESS SOCIETY کا خواب دیکھتا ہوں۔ میں کارل مارکس کے فلسفے کا مداح ہوں جو مختلف طبقات کی برابری کے حق میں ہے۔ ہمارے بزرگوں نے ایسا معاشرہ افریقہ میں دیکھا ہے جہاں امیر و غریب برابر ہوا کرتے تھے۔ اس دور میں زمین سارے قبیلےکی مشترکہ ملکیت ہوا کرتی تھی۔ اس دور میں امرا غربا کا استحصال نہیں کرتے تھے۔ اگر ہم اپنے چاروں طرف دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ بیسویں صدی میں مارکس کی تعلیمات سے متاثر ہونے والے سیاسی رہنمائوں میں نہرو‘ گاندھی‘ نکروما اور ناصر سبھی شامل ہیں۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی جدوجہد میں کمیونزم کا کیا کردار ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ جنوبی افریقہ میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر جو ناانصافی اور استحصال ہو رہا ہے اس کا خاتمہ کیا جائے۔ ہم انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کی بنیادوں پر ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں کالے بھورے اور گورے سب شہری برابر ہوں۔ اگر اس منزل کی طرف سفر کرنے میں کمیونسٹ پارٹی ہماری مدد کرنا چاہتی ہے تو ایسی مدد کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔

جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اور میرا جن مارکسٹوں سے تبادلہِ خیال ہوا ہے اس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ مغرب کے جمہوری طرزِ حکومت اور الیکشن کے خلاف ہیں لیکن میں اس نظام کو پسند کرتا ہوں۔ میں امریکہ اور برطانیہ کے پارلیمانی نطام کو سراہتا ہوں۔

میں مشرق اور مغرب کے دونوں نظاموں سے متاثر ہوا ہوں۔ میرے نزدیک سب سے محترم نظام سوشلزم کا ہے۔

جب ہم جنوبی افریقہ کی حکومت پر اعتراض کرتے ہیں تو اس کے نمائندے کہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ کے عوام باقی افریقی ممالک کی اقوام سے بہتر حالت میں ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے۔ اگر ہم اس دعوے کو درست بھی مان لیں تو پھر بھی وہ ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لوگ سفید فام لوگوں کی نسبت زیادہ غریب، محروم اور مجبور ہیں۔ ملک کے قوانین کے مطابق سیاہ فام دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ ان سے ایسے کام کروائے جاتے ہیں جن سے انسان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔ سفید فام سیاہ فام لوگوں کو اپنا ملازم اور غلام سمجھتے ہیں۔ سفید فام لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ سیاہ فام لوگ بھی ان کی طرح کے انسان ہیں، ان کے جذبات ہیں، ان کے خاندان ہیں اور وہ بھی عزت و احترام کے مستحق ہیں۔ وہ بھی اپنے بچوں کو لذیز کھانا کھلانا اور دیدہ زیب کپڑے پہنانا چاہتے ہیں‘ انہیں سکول بھیجنا چاہتے ہیں اور ایک باعزت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ کے سیاہ فام لوگوں کو اجازت ہو کہ وہ جہاں چاہیں آزادی سے اپنا کام کریں اور رہیں اور انہیں مخصوص علاقوں میں نہ بھیجا جائے کیونکہ وہ بھی اسی ملک کے شہری ہیں۔ اور وہ بھی برابر مراعات کے حقدار ہیں۔ سیاہ فام لوگوں کا بھی حق ہے کہ وہ جائیداد خریدیں اور اپنی رہائش کے لیے گھر بنائیں۔

جب میں سیاہ فام لوگوں کے سیاسی حقوق کی بات کرتا ہوں تو سفید فام لوگ مجھے انقلابی کہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ کی اکثریت سیاہ فام مردوں اور عورتوں کی ہے اور اگر جنوبی افریقہ میں جمہوریت آ گئی اور الیکشن ہوئے تو سیاہ فام لوگ الیکشن جیتیں گے۔ اسی لیے سفید فام لوگ جمہوریت سے خوف زدہ ہیں۔ لیکن ہم اس خوف کو اپنی راہ کی دیوار نہیں بننے دیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ رنگ اور نسل کی بنیاد پر معاشرے کو تقسیم کرنا غیر جمہوری اور غیر انسانی ہے۔ اے این سی پچھلی نصف صدی سے ایک جمہوری نظام کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور جب وہ اس جدوجہد میں کامیاب ہوئی تو وہ ایک منصفانہ اور پرامن نطام قائم کرے گی۔ اس نطام میں سفید فام اور سیاہ فام عوام کو برابر کے حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے۔

میں نے اپنی زندگی اس جدوجہد کے لیے وقف کر دی ہے۔ میں غیر منصفانہ نطام کے خلاف ہوں۔ چاہے اسے سفید فام بنائیں یا سیاہ فام۔

میں ایک جمہوری اور منصفانہ نطام کا خواب دیکھتا ہوں جس میں نہ سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر بالادستی حاصل ہوگی۔ میں ایسے نظام کا خواب دیکھتا ہوں جس میں جنوبی افریقہ کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے۔ میں اس آدرش اور اس خواب کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہوں اور اگر ضرورت پڑے تو جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہوں‘۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail