اسیں کون جمّعے جنج نال


اب نیتن یاہواور محمد بن سلمان کے درمیان عمان کے شاہی محل میں خفیہ ملاقاتیں ہورہی ہیں۔ تاج دار اردن کہیں ان ملاقاتوں میں دکھتے ہیں اورکہیں غائب ہیں۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ بھلا تمہارے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھ رہے ہیں؟ تم کون؟بھئی میں خوامخواہ۔اب یہ خواہ مخواہ اس مسلم اُمّہ سے اپنے تعلق اور ناطے واسطے کی جذبایتت کو تو ذرا ایک طرف رکھے کہ جو بار بار کچو کے دیتی ہے کہ یہ کچھ سوچ ہی لیں۔ ان مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو۔ اُن کے دیس نکالے کی تاریخ کو ہی ذرا یاد کرلیں کہ جو اِن بڑی طاقتوں کے تعاون اور اشیر باد سے اس اسرائیل نے ہولو کاسٹ کی صورت مرتب کی۔

چلو ماضی کے قصے تو چھوڑو موجودہ حالات تو سامنے ہیں کیسے ہمسایہ مسلمان ریاستوں کا پٹڑہ کردیا۔چھوڑو بھئی یہاں معاملات تخت و تاج اور اقتدار کے ہیں کہ انہیں درپیش خطرات سے بچانا کیسے ہے؟اردن کا یہ شاہی خاندان تو اﷲ معاف کرے ہیراپھیریوں اورسودے بازیوں میں گوڈے گوڈے لتھڑے ہونے کی شہرت رکھتا ہے۔ یہ شاہ عبداﷲ ثانی اسی ہاشمی النسل شریف مکّہ کی ہی توآل اولادیں ہیں جس نے فلسطین چاندی کے سکوں کے عوض بیچ دیا اور ستم یہ بھی کہ ساتھ جتلاتا بھی تھا کہ اسرائیلی یہ سمجھیں کہ میں نے سودا انہیں بہت رعایت میں دے دیا۔ ہائے ہے نا ڈوب مرنے والی بات۔ پر مرے کون؟ظالموں کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں اور اگلے مرحلے میں انہیں تسلیم کرنے کی کاوشوں کے رحجان بہت کچھ کی نشان دہی کررہے ہیں۔

اب اِس تینتس(33) سالہ نوجوان محمد بن سلمان کو کیا کہیں۔ ایک تو چڑھتی جوانی ہے اوپر سے تخت و تاج والاخاندان کہ شہزادوں کے پیسوں اور جائیداوں سے کویت کے شیخوں کی طرح برطانیہ کے بینک اپھرے پڑے ہیں۔ملک میں عیش و عشرت والے انقلابی کام کررہا ہے۔ چلو عورتوں کے تو حقوق کی بات کرنا اور انہیں دینا بہت اچھی بات ہے۔ ہاں پر یہ کسینو اور ناچ گھر بنانے جیسے کام ہم جیسے کوتاہ نظر لوگوں کو تو بُرے لگتے ہیں پر وہ تو سمجھتا ہے کہ ملک کی اشرافیہ اور شہزادے شہزادیوں کو ہر تین چار ماہ بعد خاک کھانے باہر تو جانا ہوتا ہے تو کچھ بندوبست اُن کی دل پشوری کا گھر میں بھی ہوجائے تو کیا مضائقہ۔

چلو اسے بھی گولی مارو۔اب جس مسئلے نے سپر پاور سمیت اسرائیل اور سعودی عرب کی نیندیں اڑا دی ہیں وہ ایران کا جوہری پروگرام ہے۔ سعودی عرب کو اپنے تاج و تخت چھن جانے کا خطرہ ہے کہ ایرانی تو تخت اچھالنے کے ماہر اور عوامی انقلاب لانے کے اُستاد ہیں۔یوں بھی بڑی جی دار قوم ہے۔قیصر و کسری پر فخر کرتی اور ماضی کی عصبیت پر جان دیتی ہے۔ ذرا سا خطرہ محسوس ہو تو پوری قوم پباں پھار کھڑی ہوجاتی ہے۔

اسرائیل کی جان مٹھی میں آئی ہوئی ہے کہ ہمسائے میں کوئی ایٹمی طاقت بن جائے تو خطرہ ہی خطرہ۔خلیج کی جنگ میں بڑا خوش تھا کہ دو تیزی سے ترقی کرتے مسلمان ملک ایک دوسرے کا تخم مارنے میں جی جان سے جتے ہوئے ہیں۔ بڑی طاقتوں کی چالاکیاں اﷲ کون کون سے حربے استعمال نہیں کئیے۔ مزے کی بات ایران کو اسلحہ اور فالتوپرزوں کی تیز ترین سپلائی اسرائیل کے ہاتھوں ہورہی ہے اور عراق کو امریکہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ بے چارے کا ایٹمی گھر پہلے ہی سازشوں کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔

دراصل مسلمانوں نے غوروفکرکرنا چھوڑ دیا ہے سمجھتے ہیں کہ کافر جو اس میں جُت گئے ہیں۔ اُن کے لئیے بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست والا طرز عمل ہے ایسے میں تو چیزیں یاد نہیں رہتی نا۔

1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں تیل پیدا کرنے والے ملکوں نے امریکہ سے اصرار کیا تھاکہ وہ اسرائیل کے معاملے میں توازن رکھے اور اسرائیل کو 1967ء کی پوزیشن پر واپس بھیجے ۔ مگر ہنری کسنجر اسرائیل کا لاڈلا، چہیتا اور اسکا مربّی نکسن کو الٹی پٹیاں پڑھاتا رہا۔ جونہی اسرائیل کو 220کروڑڈالر کی ہنگامی مدد کا اعلان ہوا۔ سعودی عرب نے فوراً امریکہ کو تیل کی فراہمی پر پابندی لگا دی۔

لیجئیے وخت پڑگیا۔ ایک بھونچال آگیا۔ اب کسنجر ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ امریکی سفارت کاروں کی ایک یلغارہے جو شاہ فیصل کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی ہے۔ کسنجر کا لہجہ بڑا جذباتی تھاجب اُس نے کہا۔
’’ ہزایکسنی لینسی میرا جہاز ایندھن نہ ملنے کے باعث رن وے پر ناکا رہ کھڑا ہے۔اسے بھرنے کا حکم دیں ۔ امریکہ آپکا ہمیشہ ممنون رہے گا۔‘‘

شاہ فیصل کی آنکھیں جذبات سے عاری تھیں جب انہوں نے کہا۔

’’ مسڑ ہنری میری بھی ایک دیرینہ تمنا ہے کہ میں مسجد اقصٰی میں دو نفل ادا کرسکوں کیا آپ میری خواہش کی تعمیل کریں گے‘‘۔

اب اس اتنے بڑے سٹینڈ لینے کی سزا 1975ء میں سی آئی اے اور برطانیہ کی M16 نے شاہ فیصل کو اُس کے بھتیجے کے ہاتھوں مروا نے کی صورت میں پیش کردی تھی اور میرے خیال میں ماشاء اﷲ سے یہ دلیر نوجوان بھلا ایسے پنگوں میں کیوں پڑے گا۔ ابھی کچھ ہی وقت پہلے تو اس نے یوروپ میں مہنگا ترین محل خریدا ہے۔
تعاون کے اگلے مرحلے بھی بہت آسان ہوں گے۔

خیر تکلیف کرکے ایک اور تحریر پڑھ لیجئیے اور تھوڑا سا وقت ہو تو غور بھی کرلیں۔ باقی آپ کی مرضی۔ آئیے تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں۔

اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین(Ben Gurion)نے اس حقیقت کا اعتراف 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے فوراََ بعد کِیا۔ انہوں نے پیرس(فرانس)کی ساربون یونیورسٹی میں ممتاز یہودیوں کے ایک اجتماع سے تقریر کرتے ہوئے کہا:

’’بین الاقوامی صہیونی تحریک کو کِسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کاشکار نہیں ہوناچاہیے۔پاکستان درحقیقت ہمارا اصلی اور حقیقی آئیڈیالوجیکل( نظریاتی) جواب ہے۔ پاکستان کا ذہنی و فکری سرمایہ اور جنگی و عسکری قوت و کیفیت آگے چل کر کِسی بھی وقت ہمارے لئے باعث مصیبت بن سکتی ہے ہمیں اچھی طرح سوچ لینا چاہئے۔بھارت سے دوستی ہمارے لئے نہ صرف ضروری ہے بلکہ مفید بھی ہے ۔ ہمیں اس تاریخی عناد سے لازماََ فائدہ اُٹھانا چاہئے جو ہندوپاکستان اور اس میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے۔یہ تاریخی دشمنی ہمارے لئے زبردست سرمایہ ہے۔لیکن ہماری حکمت عملی(Strategy)ایسی ہونی چاہئے کہ ہم بین الاقوامی دائروں کے ذریعہ ہی بھارت کے ساتھ اپنا ربط و ضبط رکھیں۔‘‘(یروشلم پوسٹ9۔اگست1967ء)

اب میں کیا کہوں۔ آپ خود دیکھ لیجئیے۔ امریکہ،اسرائیل اور بھارت کے اِس خطرناک ٹرائیکا کو۔1967اور 2018 اب دیکھ لیجئیے سب کچھ سامنے ہے۔پھر بھی سوئے رہیں تو قصور وار کون؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).