قومی حکومت  کی نوید یا جمہوری بالادستی پر مفاہمت کا اشارہ


مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کراچی میں اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے جولائی میں منعقد ہونے والے انتخابات کے بعد قومی حکومت قائم کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کے صدر کا کہنا ہے کہ اگر انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو اکثریت حاصل ہو گئی تو بھی وہ قومی حکومت بنانے کی حمایت کریں گے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھا ہے کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے اور اس بارے میں حتمی فیصلہ پارٹی کے مناسب  فورم پر ہی ہو سکتا ہے۔ ملک کو درپیش مسائل اور   قومی سیاست میں تصادم  کی موجودہ کیفیت میں ملک کی اہم  سیاسی پارٹی کی طرف سے یہ اشارہ یوں تو قابل قدر اور خوش آئیند ہونا چاہئے لیکن مسلم لیگ (ن) اور قومی سیاست میں شہباز شریف جس سیاسی مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں ، اس کی روشنی میں اگر اس بیان کو پرکھا جائے تو شہباز شریف کا یہ بیان سیاسی مفاہمت کا اشارہ یا قومی مسائل کے لئے مل جل کر کام کرنے کی پیش رفت   کا مشورہ نہیں ہے بلکہ وہ  انتخابات سے چند ہفتے پہلے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اپنے بڑے بھائی اور معزول وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ سیاسی راہیں جدا نہ کرنے کے باوجود ان کی سیاسی سوچ اپنے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے رہبر اعلیٰ نواز شریف سے بالکل مختلف ہے۔ وہ مفاہمت  اور اداروں کے ساتھ مل کر سیاست کرنے کی حکمت عملی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ نواز شریف گزشتہ ایک برس کے دوران اسٹبلشمنٹ کو للکارنے اور  ملکی جمہوری نظام پر اداروں کی  ستر برس پرانی دسترس ختم کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ نواز شریف کے ’مجھے کیوں نکالا‘ اور ’ووٹ کو عزت دو ‘ جیسے نعروں کی مقبولیت بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ عوام میں اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ایک مضبوط رائے  موجود ہے  جس میں مسلسل  اضافہ ہورہاہے۔

گزشتہ سال جولائی میں سپریم کورٹ کی طرف سے معزول کئے جانے کے بعد نواز شریف نے موجود نظام کو چیلنج کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ تقاریر اور انٹرویوز میں انہوں نے اس بات کو چھپانے کی کوشش نہیں کی  کہ ان کی اصل لڑائی دراصل عسکری اسٹبلشمنٹ کے ان عناصر کے خلاف ہے  جو سیاست میں  مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور ہر  منتخب حکومت کو اپنے طریقوں پر چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔   اگرچہ نواز شریف سمیت متعدد سیاست دانوں پر یہ الزام بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف فوج کی پیداوار ہیں بلکہ اقتدار ملنے کے بعد بھی وہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی پر ہی عمل کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی اقتدار کو محفوظ بنانے کے لئے اصولوں پر  سمجھوتہ کیا اور منتخب پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے اور عوام  کے نمائندوں کے تعاون سے معاملات حکومت چلانے اور قوت حاصل کرنے پر اکتفا کرنے کی بجائے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی سودے بازی کرنا محفوظ راستہ سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے بھی 2013 میں منتخب ہونے کے بعد سے اختلافات کے باوجود  قومی سلامتی اور خارجہ امور میں اسٹبلشمنٹ کی محتاجی  کو قبول کرنے میں ہی عافیت جانی تھی ۔ وہ نہ پارلیمنٹ میں جاتے تھے اور نہ ہی اپنی پارٹی کے پارلیمانی گروپ سے مشورہ و مشاورت  کرتے تھے۔ 2014 میں جب وہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنا کی وجہ سے عاجز آئے ہوئے تھے اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی اہم پارٹیوں نے ان کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا، اس کے باوجود انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی ثالثی پر زیادہ اعتبار کیا۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کا یہ رویہ غیر جمہوری اور ملکی آئین کے تقاضوں کے برعکس ہے۔ 1973 کے آئین میں فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں ۔ اسی لئے نواز شریف نے 1999 میں اپنی حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی لیڈر پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کے لئے آخری حد تک جانے کی کوشش کی ۔ حالانکہ اس وقت کے آرمی چیف اس پیش رفت کے خلاف تھے اور انہی کی مدخلت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے بالآخر  نواز شریف کی ناگواری کے باوجود اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی اور سہولت فراہم کی۔ اب پرویز مشرف سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے ملک میں اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنے کے لئے واپس آنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ملک کے عوام اور جمہوریت نواز حلقے نواز شریف کے  جمہوریت دشمن  ماضی کے باوجود آئین کی بالادستی اور پارلیمنٹ کے اختیار کے لئے ان کے ایجنڈے کی حمایت کررہے ہیں۔

 پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ  انجام تک پہنچانے کے لئے نواز شریف  کو  ذاتی ہزیمت اور شرمساری کا سامنا کرنا پڑا ۔ تاہم اس کے باوجود اسٹبلشمنٹ ان سے راضی نہیں تھی۔ اسی لئے نواز شریف اقتدار سے محرومی  اور اپنی  سیاست پر عدالتی پابندی کے فیصلہ کو اپنے خلاف اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کی سازش سمجھتے ہیں۔ نوازحکومت سے اسٹبلشمنٹ کی ناراضگی کا کھلا اور مؤثر اشارہ ڈان لیکس کے معاملہ میں بھی دیکھنے میں آیا  تھا جب نواز شریف کو پرویز رشید جیسے روشن خیال اور وفادار وزیر  کو حکومت سے نکالنے پر مجبور ہونا پڑا۔ بعض مبصر یہ سمجھتے ہیں کہ ڈان لیکس کے مسئلہ پر اسٹبلشمنٹ کو ناراض کرنے کے بعد نواز شریف کے لئے حکومت کرنا  ممکن نہیں رہا تھا۔ اسی لئے آرمی پبلک اسکول کے  سانحہ کے بعد 2014 کا دھرنا تو اپنے انجام کو پہنچا لیکن عمران خان نواز شریف کو محروم اقتدار کرنے کے جس مشن پر گامزن تھے ، اس کی تکمیل کے لئے انہیں پاناما پیپرز کی صورت میں غیبی امداد حاصل ہوگئی۔ بعد میں سپریم کورٹ کی قائم کردہ  جے آئی ٹی میں فوجی ایجنسیوں کے نمائیندوں اور ذرائع نے ہی وہ معلومات بھی فراہم کیں جو بالآخر نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی اور سیاست سے بے دخلی کا سبب بنیں۔ اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ نواز شریف  نے       اپنی سیاست کو بچانے کے لئے  مجبوری کے عالم میں آئین کی بالادستی اور  ووٹ کی عزت  کو  سلوگن بنا کر  سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کو  انتخابات میں اپنا منشور بنایا  ہے ۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ  نواز شریف اس منشور کی تکمیل میں کس حد تک مخلص ہیں اور انتخاب جیتنے کی صورت میں ان کی پارٹی اسٹبلشمنٹ کا رسوخ  کم کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ بدعنوانی کے الزامات، سپریم کورٹ کے احکامات اور نیب اور احتساب عدالتوں کی سرگرمی کے باوجود نواز شریف کی سیاسی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہؤا ہے۔  عوام  الناس میں اسی مقبولیت کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) مکمل توڑ پھوڑ کا شکار نہیں ہوئی اور اب بھی اسے اہم ترین سیاسی قوت کی حیثیت حاصل ہے جس کی کامیابی کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ نواز شریف کی یہی ذاتی مقبولیت ایک طرف مسلم  لیگ (ن) کے لئے حیات نو کا سبب بنی ہوئی ہے تو دوسری طرف  ہر قسم کے سیاسی عہدہ سے نااہل قرار دئیے جانے کے باوجود وہ اب بھی مسلم لیگ (ن) کے قائد اولیٰ ہیں اور پارٹی  کاکوئی فیصلہ ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا۔

ایسے میں جب شہباز شریف قومی حکومت کے قیام کی بات کرتے ہیں تو  واضح ہوتا ہے  کہ   نواز شریف اور شہباز شریف کاسیاسی نصب العین مختلف ہے۔ شہباز شریف بہر صورت اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے  اس  ’زمینی سچائی‘ کو مانتے ہیں اور اسے تسلیم کروانے پر اصرار  بھی کرتے ہیں کہ بر سر اقتدار آنے کے لئے اداروں سے تعاون اور مفاہمت ہی واحد راستہ ہے۔   شہباز شریف کے تازہ بیان کی روشنی میں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا وہ اس بیان سے اسٹبلشمنٹ کو یہ اشارہ دے رہے ہیں کی نواز شریف کی مقبولیت اور ان کے ساتھ رشتہ کی وجہ سے وہ ان کی سیاسی قیادت سے علیحدہ ہونے کا اعلان تو نہیں کرسکتے  لیکن وہ آج بھی مفاہمت اور لین دین کے دیرینہ نقطہ نظر پر قائم ہیں۔ اسی اصول کو تسلیم کروانے کی جد و جہد میں چوہدری نثار علی خان  نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کی بجائے آزاد امید وار کے طور پر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی بورڈ میں  شہباز شریف  یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ پارٹی چوہدری نثار علی خان کی ’بغاوت‘ کے باوجود ان کے خلاف امیدوار کھڑا نہ  کرے  بلکہ انہیں واک اوور دے دیا جائے۔ لیکن نواز شریف نے یہ بات ماننے سے انکار کیا ہے۔  شہباز شریف کے سیاسی بیانات میں وہ شدت اور  حدت کبھی محسوس نہیں کی گئی جو نواز شریف اور مریم نواز کے بیانات میں موجود رہی ہے اور جس کی وجہ سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بھی مقبول ہؤا ہے۔ اب ووٹ کے احترام کے اصول پر لڑے جانے والے انتخاب سے   چار ہفتے پہلے پارٹی صدر کے طور پر شہباز شریف اسی ووٹ کی ’حرمت‘ پر مفاہمت کی بات کرکے کون سا اشارہ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیوں کہ اگر قومی حکومت کا قیام  ملک کی سیاسی ضرورت ہے تو اس  پر بیان بازی کی بجائے پارٹی کے اندر مناسب بحث کرنے اور پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن شہباز شریف بھی جانتے ہوں گے کہ پارٹی میں ان کی نہیں نواز شریف کی مرضی چلتی  ہے کیوں کہ سب کو ان کے نام سے ہی ووٹ ملنے کی امید ہے۔

شہباز شریف کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب نواز شریف اور  ان کی صاحبزادی  مریم ، بیگم کلثوم نواز  کی سنگین علالت کی وجہ سے لندن میں رکے رہنے پر مجبور ہیں۔    ایسے موقع پر انتخاب سے پہلے اس اصول سے روگردانی کا اشارہ مسلم لیگ (ن) کے لئے نہایت مہلک ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے نواز شریف مسلم لیگ (ن) کو بدستور سیاسی قوت بنائے رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کیا یہ بیان  مسلم لیگ (ن) پر مفاہمت پرست عناصر کے قبل از انتخاب قبضہ کا اشارہ ہے۔ یا اسے اس ڈرامہ کا پیش لفظ سمجھا جائے جو انتخاب  میں  کامیابی کی صورت میں مسلم لیگ (ن) سے نواز اور مریم کے جمہوری زہر کو زائل کرنے کے لئے رچانا مقصود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).