کیا اردگان پاکستان کے لیے ماڈل بن سکتے ہیں؟


ترکی کے حالیہ انتخابات میں رجب طیب اردگان کی غیر متوقعہ اکثریت سے کامیابی پر پاکستان کے بہہت سے سیاسی، مذہبی اور صحافتی حلقوں میں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں۔ ان کی فتح کو عالم اسلام اور جمہوریت کی فتح قرارا دیا جا رہا ہے۔ اور ان کی شخصیت کو ایک مثالی مسلمان حکمران کے طور عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ ترکی کے ان انتخابات سے پاکستان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے لیکن، شاعر سے معذرت کے ساتھ،

‘خوشی‘ وہاں ہے ضرورت نہٰیں ’خوشی‘ کی جہاں
وہاں نہیں ہے جہاں پر بڑی ضرورت ہے

پاکستانی اور مسلمان، بلکہ ایک عالمی شہری کی حیثیت سے، ہمارے لئے مقام مسرت ہے کہ یہ انتخابات بین لاقوامی معیار پر بہت حد تک پورے اترے۔ ایمرجنسی کے باوجود حکومتی اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے بڑے بڑے جلسے منعقد ہویے جن میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ اردگان کے سب سے بڑے چیلنجر محرم انجے نے نہایت پروقار طریقے سے انتخابی کارروائیوں میں حصہ لیا اور اردگان کی فتح تسلیم کی۔ اسی طرح جیل سے انتخاب لڑنے والے امیدوار کو بھی کافی حد تک پر امن طریقے سے انتخاب میں حصہ لینے کا موقعہ دیا گیا۔

کسی ایک شخص کی مدح و ستایش میں ہمیں تصویر کے دوسرے رخ سے منہ نہیں پھیر لینا چاہیے۔ اگر ہم اس انتخاب کے دونوں رخ سامنے رکھیں تو ایسے پہلو نظر آتے ہیں جن سے اگرچہ پاکستان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، لیکن ذاتی اقتدار کے کچھ ایسے مظہر بھی ہیں جن سے پرہیز کرنا جمہوریت اور گوورننس کے لیے لازمی ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ اردگان کی انتخابی کامیابی کی، اور بہت سی وجوہات کے علاوہ، دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک ان کی ذاتی شخصیت ہے۔ ان کی نڈر اور باہمت باتوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی اس وقت ترکی عوام کے دل جیت لیے تھے جب استنبول کے میٔیر کی حیثیت سے انہوں نےاک جلسہ عام میں، تمام خطرات سے بے خوف ہو کر، ایک شعلہ انگیز نظم پڑھی تھی جس کے نتیجے میں انہیں جیل جانا پڑا۔

ان کے وفادار ساتھی ابن الوقت ثابت نہیں ہویے۔ پاکستانی سیاست دانوں کی طرح الیکٹیبلزکو ترجیح دے کر ان کی یٹھ میں خنجر نہیں بھونکا اور ان کے ایسے حریفوں کے ساتھ شامل نہیں ہویے جن کو وہ کل تک مغلظ گالیاں دیتے تھے۔ اردگان کے سیاسی ساتھی ان کے حلیف رہے، حریف نہیں بنے۔ ان سے دغا نہٰیں کی اور مصلحت اور اقتدرار کے لالچ مین اپنے سیاسی منشور سے غداری کے مرتکب نہیں ہویے۔ ان کی ذاتی شخصیت میں ان کے ساتھیوں اور پیروکاروں کے لیے ایک مقناطیسیت ہے جو مشکل حالات میں بھی ان سے منسلک رہتے ہیں۔

اردگان کی مقبولیت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کی نبض پہچانتے ہیں۔ ان میں وہ انتہائی حساس سیاسی حس ہے جو یہ جانتی ہے کہ عوام، چاہے ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت یا طبقے سے ہو، اصل میں کیا چاہتے ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کی طرح انہوں نے صرف نعروں، نباہ نہ ہونے والے وعدوں، اور بیان بازیوں سے عوام کا پیٹ نہیں بھرا بلکہ ان کی معاشی حالت سدھاری۔ انہوں ایسے انفرا سٹرکچر پراجیکٹس شروع کیے جنہوں نے نہ صرف بہت بڑی تعداد میں بے روزگار لوگوں کو روزگار کےمواقع فراہم کیے بلکہ ترکی کو یورپ ہی کی نہیں، مغربی دنیا کی صف اول میں لے آیے۔

میں نے استنبول، ازمیر اور قونیہ جیسے بہت سے شہروں میں ہوائی اڈوں، سڑکوں کے جال، اور پبلک اور انڈسٹریل پارک دیکھے جو دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں۔ اردگان کے اقتدار میں آنے سے پہلے ان میں سے کئی جگہیں پس ماندہ ملکوں کی طرح تھیں۔ اردگان نے ایک عام ترک کو دوسری اقوام کے سامنے اپنا سر فخر سے بلند کر سکنے کے قابل بنایا۔ ان انتخابات نے مغربی تجزیہ نگاروں کی پیشین گویؤں کے بر عکس ترکی کو مزید تقسیم نہیں کیا بلکہ متحد کرنے کا ایک اہم موقعہ دیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخاب کے نتیجے میں اردگان صاحب اس نئی طاقت کو عوام کی مزید فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرتے ہیں یا اس مقولے کو صحیح ثابت کرتے ہیں کہ طاقت کرپٹ کرتی ہے اور مکمل طاقت مکمل طور پر کرپٹ کر دیتی ہے۔ خدا کرے وہ اپنی نئی طاقت کا صحیح استعمال کریں اورترکی کو عالم اسلام نہیں ساری دنیا کے لیے ایک ماڈل بنا دین۔

کرپشن کا ذکر اس لئے آیا کہ اردگان کے پندرہ سالہ دور اقتدار میں ایسی کئی باتیں ہوئی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردگان کرپشن کی اس کشش سے مبٌرا نہیں۔ بہت سی اطلاعات سے پتہ چلتاہے کہ اپنی سربراہی میں اردگان نے کروڑوں ڈالرز ناجایز طریقوں سے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے حاصل کیے۔

اس سے پہلے کہ وہ رجب طیب اردگان کو امیر المومنین کا درجہ دیں پاکستان کے سیاست دانوں، اینکروں اور علماء کرام کو ایک اور بات سوچنی چاہیے کہ اردگان کی مقبولیت کا راز ان کی اسلام پرستی میں پوشیدہ نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کا سب سے بڑا سیاسی دشمن فتح اللہ گولین نہ ہوتا جو بہت نامور اسلامی عالم دین اور سول سوسایٹی کا مقبول ترین قاید تھا۔ ایک زمانے میں گولین اور اردگان کا سیاسی، مذہبی، اور ذاتی الحاق اردگان کے عروج میں معاون ثابت ہوا تھا۔ لیکن گولین کی مقبولیت مذہبی حلقوں میں ہی نہیں سول سوسایٹی میں اتنی بڑھی کہ اردگان کو اپنے اقتدار کا خطرہ پیدہ ہو گیا اور گولین کو ترکی سے فرار ہونا پڑا۔ اس کے باوجود گولین کے نقطۂ نظر اور اس کے پیروکاروں نے ترکی کے تقریبأ ہر شعبہ زندگی میں مظبوط اثر و رسوخ حاصل کرلیا۔

جب دو سال پہلے جولائی میں ملٹری نے حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی تو اردگان کی مقبولیت کا ایک شاہکار مظاہرہ دیکھنے میں آیا جس کی مثال حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ ملٹری ترکی کی سول حکومت کو ختم کرنے کے بللکل قریب تھی۔ جب اردگان نے ایک سمارٹ فون کی مدد سے عوام سے اپیل کی کہ وہ سڑکوں پر نکل آیٰںٔ تو عوام نےجوق در جوق سڑکوں پر نکل کر اس کوشش کی مخالفت کی اور ملٹری کو منہ کی کھانی پڑی۔

لیکن اس کوشش ناکام کے بعد جو ایمرجنسی نافز کی گئی وہ انتخاب کے دوران بھی رہی۔ ترکی کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جن میں ایک کثیر تعداد میں جرنلسٹ جیلوں میں قید ہیں۔ اس کے علاوہ گولین کی خدمت تحریک کے چلائے ہوے سکول، اس کے نقطہ نظر کے سرکاری اور ملٹری افسران اور اس سے ہمدردی کرنے والے بزنس لیڈرز، اخبار اور میڈیا چینلز سب زیر عتاب ہیں۔

ایک دلچسپ بات ایسی ہے جس میں ترکی یگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ ترکی دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ابھی تک پاکستان اور پاکستانیوں کو بے پناہ محبت، عزت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال پیش ہے۔ کچھ عرصہ پہے ترکی جانا ہوا۔ بیگم کا اصرار تھا کہ ایک خاص قسم کی ٹرکش ڈیلایٔٹ ضرور خریدی جائے۔ استنبول کے ہر بازار میں تلاش کی۔ نہ ملی۔ پتہ چلا بہت بڑے تاجر بابا حاضر صاحب کے ہاں ملے گی۔ وہاں بھی وہ قسم ناپید۔ ایک دکاندار نے بتایا کہ اس خاص ڈیلایٔٹ کے لیے ازمیر جانا پڑے گا۔ ازمیر کی سب سے بڑی مال میں ایک دکان کا پتہ مللا۔ وہاں پہنچے تو دو نوجوان دکاندار بیٹھے تھے جو انگریزی کا ایک لفظ نہیں بول سکتے تھے۔ انہون نے اشارے سے پوچھا ’کہاں سے ہیں؟ ‘ بتایا ’پاکستان سے‘ ایک دم لگا جیسے ان کو بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو۔ دونوں اپنی کرسیوں سے اچھلے، ہاتھ ہوا میں بلند کیے اور بھنگڑے کے انداز ’جیوے جیوے پاکستان۔ جیوے جیوے پاکستان‘ گانا شروع کر دیا۔

پاکستان کو اس والہانہ دوستی کی قدر کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی یہ سوچ کر مرتب کرنی چاہیے کہ ہمارے کونسے ساتھی مخلص ہیں؟ مشکل میں کون ہمارا ساتھ دے سکتا ہے؟ ہمارا مفاد کس سے وابستہ ہے؟ آج کل ترکی ان بہت کم ملکوں میں شامل ہے جن سے ہم دوستی کا دعوی کر سکتے ہیں۔ خدا کرے ہماری آنے والی حکومت کی حکمت عملی ایسی ہو کہ ہم ترکی سے دوستی کو دونوں کے مفاد میں نباہ سکیں۔ سوال یہ ہے، کیا ہم اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ابھی تک اس محبت، عزت، احترام اور دوستی کے مستتحق ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).