تضاداتِ سائنس،ایک جائزہ


                                   

یہ ایک عاجزانہ کوشش ہے کہ سائنس کے کچھ مقبولِ عام تصورات اور نظریات پر کچھ جرح و تنقید کا ڈول ڈالا جائے، گو کہ یہ عمل یقینا کچھ جبین ہائے ناز پر سائنسی نظریات و قوانین کو معصوم عن الخطاء سمجھنے والے مہربان) شکنیں ضرور ڈالے گا اور شاید اس آرٹیکل پر کچھ تنقیدی و اختلافی آرا بھی سامنے آئیں جو کہ میرے لحاظ سے ایک خوش آئند عمل ہوگا کہ اس سے فکر و نظر و تفہیم کے ئنے در وا ہونے اور نئے چراغ جلنے کی کم از کم امید تو پیدا ہوگی۔ تو آج اس سیریز کی پہلی قسط اگر کہیں تو بے جا نہ ہوگا پیش کر رہا ہوں، اگر یہ کوشش پسند کی گئی تو اسی عنوان کے تحت مزید خامہ فرسائی بھی میں قلم برداشتہ کرنے کی کوشش کروں گا۔

تو صاحبان، قدر دان، مہربان و نامہربان، آج ابتدا کرتے ہیں بگ بینگ یا انفجارِ عظیم سے، بگ بینگ تھیوری کائنات کی پیدائش اور آغاز کے تعین کرنے کے اعتبار سے ابھی تک پیش کیا جانے والا سب سے معتبر نظریہ (غلط یا صحیح) سمجھا جاتا ہے، مگر صاحبان، یاد رکھیں کہ یہ ابھی تک نظریہ ہی ہے، اس نے سائنسی ترتیب کے لحاظ سے ابھی قانون کا روپ نہیں دھارا ہے، اور سائنس میں مستعمل ترتیب یعنی مشاہدہ“خیال، آزمائش(پریکٹیکل)، نظریہ اور پھر سائنسی قانون کے اعتبار سے یہ ابھی تھیوری ہی ہے، اس لئے ٹکا کر تنقید کرنے کی اجازت ہے، پر عوام الناس کو نہیں بھیا، بلکہ متعلقہ ماہرین کو، چنانچہ چند مختصر نکات اس نطریئے کے پیش کروں گا اور پھر اس نظریئے پر اٹھائے جانے والے چند سوالات جن کے جوابات ابھی تک تشنہ ہیں۔

کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اس سوال نے انسان کو صدیوں سے تجسس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دنیائےِ سائنس میں اس سوال کا جواب دینے کے لیے رائج الوقت نظریہ ”انفجارِ عظیم“ یعنی بگ بینگ کہلاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملحدین اس نظریہ کو بنیاد بنا کر خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں جبکہ جدید تعلیم یافتہ مذہبی لوگ اس نظریے کو مذہب سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہے نا کیسی زبردست بات۔

اس نظریے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 2014ء میں پونٹیفیکل اکیڈمی آف سائنس میں اپنے خطاب کے دوران پوپ فرانسس کو یہ کہنا پڑا کہ“ بگ بینگ تھیوری اور تھیوری آف ایوولوشن اور مذہب میں کوئی تضاد نہیں۔ ان دونوں نظریات کو۔ تسلیم کرنے سے خدا کا کردار ختم نہیں ہوتا“۔

اسی روش پر عمل پیرا کچھ مغربی تعلیم یافتہ مسلمان بھی بگ بینگ تھیوری کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملحدین ہوں یا مذہب پسند دونوں کا مسئلہ یہ ہے کہ نہ ان کو بگ بینگ تھیوری کا مکمل ادراک ہے اور نہ ہی اس بات کا اندازہ ہے کے اس نظریے کے بہت سے پہلو آج بھی غیر ثابت شدہ ہے۔ وہ مسلمان جو قرآن کی آیات کو اپنے من چاہے معنیٰ پہنا کر اس نظریہ کو الہامی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو اس بات کی سمجھ ہونی چاہیے کہ یہ نظریہ آج بھی ابتداء کائنات کے اسرار کو پوری طرح بیان کرنے سے قاصر ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بگ بینگ نے ابتداء کائنات کی گتھی سلجھانے کی بجائے مزید الجھا دی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ آئیے اب ان مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا بگ بینگ تھیوری کے پاس اب تک کوئی جواب نہیں۔

بگ بینگ تھیوری یا انفجارِ عظیم کا نظریہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ

1)۔ یہ وسیع و عریض کائنات آج سے تقریبا 7۔ 13 ارب سال پہلے نقطہء وحدانیت (singularity)سے ایک عظیم دھماکے سے وجود میں آئی، سنگولیریٹی یا نقطہء وحدانیت وہ حالت تصور کی گئی ہے جہاں لامحدود کشش ثقل اور کثافت ایک نقطے میں مجتمع تھے اور زمان و مکان وجود نہیں رکھتے تھے، اس کا مطلب ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ بگ بینگ لا زمان اور لا مکان کی حالت میں وقوع بذیر ہوا یعنی حالتِ عدم (nothingness)، چلو بھائی مان لیتے ہیں کہ دھماکہ ہوگیا، کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، مگر پھر کچھ ایسے لا ینحل سوالات نے بھی جنم لیا جن کے جواب کی تلاش میں بڑے بڑے سائنسی دماغ ابتک غور و فکر میں بری طرح غرق ہیں مگر ہنوز دلی دور است، ابھی تک جواب نہیں مل پایا ہے، چلیں آج کی قسط میں ایسےہی چند سوالات پرجوکہ اب تک لاجواب ہیں ذراغور کرتے ہیں،

بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ کیا عدم کے مصدر وجود ہونے کا امکان ہے؟

بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ اور کیا عدم سے کسی شئے کے وجود میں آنے کا امکان ہو سکتا ہے؟ کچھ سائنسدانوں کے بقول بگ بینگ سے پہلے وقت ہی وجود نہیں رکھتا تھا تو اس کا مطلب ہے کچھ نہیں تھا یعنی عدم۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر بگ بینگ کے کیسے ہو گیا؟ کیوں کہ کسی بھی واقعے کو ہونے کے لیے سپیس اینڈ ٹائم (مکان و زمان)کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے سائنسدانوں کے پاس کوئی حتمی جواب نہیں کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟

نقطہِ وحدانیت یا نقطہِ انطلاق کا ظہور کیسے ہوا؟ دوسری پہیلی یہ ہے کہ نقطہِ وحدانیت یعنی وہ نقطہ جس میں دھماکے کے نتیجے میں کائنات معرض وجود میں آئی، اس نقطے کا بجائے خود ظہور کیسے ہوا؟ اس سوال کا سائنسدانوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔

بگ بینگ کے فوراً بعد کیا ہوا؟

بگ بینگ کے فوراً بعد کیا ہوا؟ اب تک سائنسدان جو کچھ اندازہ لگا پائے ہیں وہ یہ کہ دھماکہ ہونے کے بعد ایک ملی سکینڈ کے بتیسویں حصہ میں کیا ہوا ہوگا؟ مگر جیسے ہی سائنسدان ذرا پیچھے جاتے ہوئے ایک ملی سکینڈ کے اڑتیسویں حصے تک پہنچتے ہیں توان کی فزکس کو سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اس مقام پر درجہ حرارت اس قدر شدید تھا کہ چار بنیادی کائناتی قوتوں کا وجود ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ سائنسدانوں کے بقول اس مقام پر ایک ہی ایسی فرضی قوت تھی جس نے بعدازاں باقی چار قوتوں کو جنم دیا۔ اس ”فرضی قوت“ کا وجود ثابت کرنے کے لیے سائنسدانوں نے ایک مفروضاتی تھیوری بنائی ہے جیسے گرینڈ یونیفیکیشن تھیوری کہا جاتا ہے۔ مگر جب سائنسدان مزید پیچھے جاتے ہوئے ایک ملی سکینڈ کے بیالیسویں حصے تک پہنتے تو اس مقام پر فزکس کے مروجہ تمام قوانین کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں اور ٹوٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس مقام پر ایک ایسی گریٹ تھیوری کی ضرورت پیش آتی ہے جو فزکس کے تمام قوانین کو ایک ہی تھیوری کے تابع کر دے۔ اس فرضی گریٹ تھیوری کو تھیوری آف ایوری تھنگ کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں تھیوزیر ابھی تک سائنسدانوں کے دماغوں میں تو ضرور ہیں مگر تجرباتی طور پر کوئی وجود نہیں رکھتیں۔

تو صاحبان، یہ تو ابتدائے عشق ہے، ، ابھی تو پکچر بہت باقی ہے، بات آگے بھی بڑھے گی اگر صاحبانِ اقتدار برائے بلاگ کو منظور ہوا، اور یہ قلم برداشتہ تحریر ان کے معیار پر پورا اتری اور شائع ہو پائی، چناچہ تھوڑے لکھے کو فی الحال بہت جانیں اور ہضم کرنے کی کوشش کریں، اور پیوستہ ء شجر رہ کر امیدِ بہار پر گزارا کرنے کی کوشش کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).