جج صاحب فون پر کینڈی کرش کھیل رہا تھا


مجھے کچھ زیادہ علم تو نہیں تھا لیکن پھر بھی میں دیکھ رہا تھا کہ ہمارے ادارے کی کارکردگی پچھلے کچھ عرصے یعنی کوئی ستر سال سے اچھی نہیں جا رہی ہے۔ مقدمات بہت لمبی مدت چلتے ہیں اس لیے زیر التوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں چلی گئی ہے اور ان میں ہر اگلے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے مشہور مقدمات کی تعداد بھی کافی ہو گئی ہے جو دادا نے درج کروائے تھے لیکن ان کے فیصلے تیسری نسل یعنی پوتوں کے سامنے سنائے گئے۔ مقدمات میں ایسے لوگوں کو بھی باعزت بری کیا گیا جو پانچ سات سال پہلے فوت ہو چکے تھے اور فوت ہونے سے پہلے وہ سالہا سال جیلوں میں اسی جھوٹے مقدمے میں سڑتے رہے جس سے انہیں بری کیا گیا۔

مجھے ایسے شک سا گزرا کہ ہمارا ادارہ طاقت ور کی رکھوالی کرتا ہے۔ ہم نے ہر آئین شکن کا تحفظ کیا اور اسے منہ مانگا انصاف دیا۔ ہم نے قاضی کی مسند پر بیٹھ کر وہ فیصلے سنائے جو کسی لاٹھی بردار نے لکھ کر ہمیں تھمائے تھے۔ ہم نے بھٹو جیسوں کو پھانسی گھاٹ پہنچا دیا۔ یہ سارا انصاف کیسے ہو رہا تھا اس کا مجھے علم نہیں لیکن میرے علاوہ آج کسی اور کو اس پر کوئی شک بھی نہیں۔

یہ میرے علم میں تو نہیں لیکن کچھ لوگ یعنی پندرہ بیس کروڑ پاکستانی کہتے ہیں کہ ہمارے ادارے میں لوگوں پر رشوت لے کر فیصلے کرنے کا بھی الزام بھی ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ سچ نہیں ہے۔ یہ محض یونس بٹ کی زبان میں ننانوے فیصد لوگوں کی وجہ سے سارا محکمہ بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔ ہمارے ادارے میں کسی مقدمے کے فیصلے کی نقل لینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا پٹواری سے اپنی زمیں کا فرد ملکیت لینا۔ ہر کام کی ایک “غیر سرکاری فیس” مقرر ہے اور اہل کار کو اس کی ادائیگی کیے بغیر کوئی کاغذ آپ لے کر تو دکھائیں۔

غریب آدمی ہمارے ادارے سے انصاف کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ ہم انصاف بیچتے ہیں تعلقات بناتے ہیں اور غریب آدمی کے پاس پیسے ہیں نہ سفارش۔ امیر اور طاقت ور شخص ہم سے خوش ہے کیونکہ وہ کبھی قانون کی پابندی نہیں کرتا اور ہم ان کو تحفظ مہیا کرتے ہیں۔ ہم اس کا خیال نہ رکھیں تو شاید امیر اور طاقت ور لوگوں کو بھی قانون کی پابندی کی تکلیف برداشت کرنا پڑے۔ اور پھر یہی حال ہمارا بھی ہو گا۔

ان سارے معاملات کی وجہ سے دنیا میں بھی ہمارا مقام کچھ اچھا نہیں ہے۔ یہ ساری دنیا کو پتا ہے کہ ہمارا محکمہ انصاف مہیا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

ان ساری باتوں کا مجھے کچھ زیادہ علم نہیں تھا اس لیے میں باقی کاموں میں لگا رہا۔ میرا خیال تھا کہ محکمہ صحت ٹھیک کام نہیں کر رہا اس لیے اسے ٹھیک کر دیا جائے۔ میں نے چاروں صوبوں میں چکر لگایا۔ ڈاکٹروں کو بلا کر جھاڑیں پلائیں۔ میں جدھر جاتا اور جس کو بلاتا، لوگ تھر تھر کانپتے تھے۔ میری واہ واہ ہو گئی بڑا مزا آ رہا تھا۔ اپنی اسی مہم کے دوران اور بھی کئی محکموں کو رگڑا لگایا۔ میری یہ عزت افزائی کچھ لوگوں سے برداشت نہ ہوئی اور لوگوں نے میرے محکمے کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح کے موازنے سامنے آئے کہ پاکستان میں ایک چائے کے کھوکھے والا یہ تو جانتا ہے کہ وزیر اعظم کو کیا کرنا چاہیے اور کیسے کرنا چاہیے ہاں البتہ اسے چائے بنانا نہیں آتا۔

سوشل میڈیا پر کافی شور برپا ہو گیا۔ سارا شور اور طنز سن کر میں نے اپنے محکمے کی طرف بھی تھوڑا دھیان دیا۔ صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں عدالتوں کا دورہ کر ڈالا۔ پہلے دن ہی علم اور یقین ہو گیا کہ محکمے میں یہ ساری خامیاں ضرور پائی جاتی ہوں گی۔

میں یہ جان کر حیران اور پریشان ہو گیا کہ ایک ایسا شخص جج بن کر بیٹھا ہوا ہے جس کے مذہب کا نام لینا بھی نا مناسب ہے۔

ایک ہندو جج کا بھلا کیا کام انصاف کے ساتھ۔ انصاف دینا تو ہماری میراث ہے۔ میں کمرہ عدالت میں داخل ہوا اور دیکھا کہ وہ شخص وہاں بیٹھ کر اپنے موبائیل فون پر کینڈی کرش کھیل رہا تھا۔ ظاہر ہےمجھے غصہ آ گیا اور میں نے اس کا فون اٹھا کر پھینک دیا۔ اور اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جس کا وہ حقدار تھا۔ میری کوشش کامیاب رہی۔ میں یہی چاہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو ہمارے ادارے میں نہیں ہونا چاہیے۔ میں کامیاب ہو گیا۔ اب انشااللہ ادارے میں تمام خامیاں دور ہو جائیں گی۔ سب لوگوں کو سستا اور فوری انصاف ملے گا۔ رشوت جیسی لعنت ختم ہو جائے گی۔ لوگوں پر ہمارا اعتماد بحال ہو جائے گا۔ ہم اب امیر اور غریب میں فرق نہیں کریں گے۔ اب ہم لاٹھی سے نہیں ڈریں گے اور کسی کے غیر قانونی اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت تحفظ نہیں دیں گے۔ اب کوئی بھی اپنے موبائیل پر کینڈی کرش نہیں کھیلے گا۔ دنیا میں بھی ہمارے ادارے کی عزت بہت بڑھ جائے گی۔ برائی کو جڑ سے پکڑ کر پھینک جو دیا ہے۔ وہ جن کا ہم نام بھی نہیں لینا چاہتے ان باعزت عہدوں سے دور ہی رہیں تو اچھا ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik