منافع کی معیشت میں خسارے کا آدمی


یوسف حسن صاحب سے میرے بہت قریبی تعلقات نہیں تھے، بس گاہے گاہے کسی ادبی پروگرام میں یا کسی کے ہاں یا کسی دوست کے ساتھ ان سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ راولپنڈی میں میرے گھر شاید وہ ایک دو بار ہی آئے ہوں گے۔ لیکن ایک احترام اور محبت کا رشتہ ہمیشہ رہا۔ مجھے نہیں یاد ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی۔

جس زمانے میں راولپنڈی میں حلقہ ء اربابِ غالب، جس کے روحِ رواں یوسف حسن تھے، کے ہفتہ وار اجلاس ہوتے تھے، میں ملک سے باہر تھا۔ کبھی راولپنڈی آنا ہوتا تو حلقہ ء ارباب غالب کے اجلاسوں میں بھی چلا جاتا۔ ایک بار یوسف صاحب نے مجھ سے کسی پروگرام کی صدارت بھی کروائی تھی یا شاید صدارت کے لیے کہا اور میں نے معذرت کر لی۔

مجھے اب صحیح یاد نہیں۔ حلقہ ء اربابِ غالب جسے حلقہ ء اربابِ ذوق کی طرز پر یوسف حسن اور ان کے نظریاتی ساتھیوں آصف ڈار، جہانگیر عمران (مجھے اس وقت یہی دو نام یاد آ رہے ہیں) نے 1982ء میں مل کر بنایا تھا، کئی سال چلتا رہا پھر بند ہو گیا۔ جب میں میرپور رہتا تھا تو ایک دن مجھے بتایا گیا کہ کوئی مجھ سے ملنے آیا ہے لیکن اندر آنے سے گریزاں ہے۔ میں گیٹ پر گیا تو سامنے یوسف حسن صاحب ایک مقامی شاعر کے ساتھ کھڑے تھے۔

انہیں یوں اچانک اور غیر متوقع اپنے گھر کے دروازے پر دیکھ کر میں حیران ہوا۔ کہنے لگے میں میرپور آیا ہوا تھا، پتا چلا کہ آپ آجکل یہاں ہوتے ہیں تو سوچا ملتا جاؤں۔ میرپور میں ان کے ایک نظریاتی دوست زیدی صاحب ہوتے تھے جن کے ہاں ان کا آنا جانا تھا۔ خیر میں بہت خوش ہوا لیکن میری حیرانی اور پریشانی اس وقت اور بڑھ گئی جب انہوں نے اندر آ کر بیٹھنے کی بجائے وہیں کھڑے کھڑے باتیں کرنے پر اصرار کیا۔ میں نے بہت کہا لیکن وہ اندر نہ آئے اور تھوڑی دیر ایک رسمی سی ملاقات کے بعد گیٹ سے ہی واپس چلے گئے۔ مجھے افسوس تو ہوا لیکن ان کی محبت کا یہ انداز اچھا بھی لگا کہ جب انہیں میرپور میں میرا پتا چلا تو احترام اور اپنائیت کے ناطے ملنا ضروری سمجھا حالانکہ وہ مجھ سے ہر لحاظ سے بڑے تھے۔

یوسف حسن صاحب کا تعلق قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پیدا ہونے والی نسل سے تھا۔ وہ 1948ء میں جہلم میں پیدا ہوئے، گریجوایشن اور ماسٹر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا۔ ملازمت کے ابتدائی چند سال چکوال میں گزار کر 1980ء میں گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں آ گئے اور یہیں سے 2008ء میں ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد راولپنڈی میں مکان خرید لیا اور تا دمِ مرگ یہیں رہائش پذیر رہے۔ ادبی لحاظ سے وہ احمد ندیم

قاسمی صاحب کے تربیت یافتہ تھے اور ان کا تعلق “فنون” سے تھا اور زندگی بھر فنون سے رہا۔ فنون کے علاوہ وہ کسی اور رسالے کے معیار واہمیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغا کی تمام تر علمیت کے قائل ہونے کے باوجود ان کے رسالے اوراق اور اس میں چھپنے والوں کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے زمانہ ء طالب علمی سے ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ابتدا میں اقبال کوثر صاحب سے اصلاح لیتے رہے۔ خالد احمد صاحب سے ان کے دوستانہ مراسم تھے اور شاید شاگردانہ بھی، مجھے اس بارے میں زیادہ معلوم نہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ نظریاتی، فکری اور علمی لحاظ سے وہ مذکورہ شخصیات سے کہیں زیادہ مضبوط اور آگے تھے۔

ترقی پسندانہ نظریات میں امین مغل ان کے رہنما تھے لیکن خود انہوں نے ایک پوری نسل کی فکری و نظریاتی رہنمائی کی۔ انہوں نے عملی طور پر مزدور یونینوں کے لیے کام کیا اور سیاسی طور پر کچھ عرصہ نیشنل عوامی پارٹی میں شامل رہے۔ حبیب جالب نے جب صوبائی الیکشن میں حصہ لیا تو یوسف حسن صاحب ان کے الیکشن ورکر بھی رہے۔

اگر میں اپنی یادداشتوں کو مذید کھنگالوں تو یوسف حسن صاحب کے ساتھ میری کچھ زیادہ یادیں وابستہ نہیں۔ وہ تسطیر میں کبھی شائع نہیں ہوئے۔ جب کبھی اس بارے میں بات ہوتی تھی تو نہ انکار نہ اقرار بس ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ حالانکہ ذاتی طور پر مجھے پسند کرتے تھے اور سامنے بھی اور میری عدم موجودگی میں بھی بڑی عزت سے نصیر صاحب کہہ کر پکارتے تھے اور بطورِ شاعر اور مدیر تسطیر بھی کچھ ایسا ناپسند نہیں کرتے تھے، بہت اچھی رائے رکھتے تھے۔

وفات سے چند روز پہلے بھی جب انوار فطرت ان سے ملنے گئے تو سب سے پہلے میرا پوچھا کہ نصیر صاحب کا کیا حال ہے۔ دراصل اپنے تئیں وہ اپنے نظری اور فکری حصار سے باہر کسی کو سراہتے نہیں تھے۔ میرے معاصرین جدید نظم نگاروں کے بارے میں ان کی ایک محدود و مخصوص رائے تھی جس کے تحت میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے کبھی میری بلکہ ہم میں سے اکثر کی نظمیں پڑھنے کی زحمت نہیں کی ہو گی۔ میں کسی مخصوص لیبل، جماعت، ملک، ادبی گروہ اور نظریے کا پابند ہوئے بغیر خود کو ذہنی طور پر وسیع تر معنوں میں ترقی پسند اور روشن خیال سمجھتا ہوں لیکن کہیں نہ کہیں کوئی نظریاتی گرہ تھی جسے نہ میں نے کھولنے کی کوشش کی نہ انہوں نے ضرورت سمجھی۔

دونوں طرف مزاج کی سادگی اور درویشی حائل رہی۔ وہ مارکسسٹ تھے بلکہ فی زمانہ شاید واحد وسیع المطالعہ مارکسسٹ تھے، مارکسزم کے علاوہ دیگر ادبی نظریات کے سخت ناقد تھے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مخصوص معانی کی حامل ترقی پسندی اور روشن خیالی کے مابین جو ایک باریک سی حدِ فاصل ہے وہ اسے پار نہیں کر سکے۔

ایک بار انہوں نے یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ “تسطیر” امریکی سرمائے (فنڈنگ) پر نکلتا ہے اور ماڈرن ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم پر مبنی اس میں چھپنے والا مواد اور اس میں ہونے والے مباحث امریکی مفادات اور سرمایہ دارانہ نظام کے مقاصد کو پورا کرتے ہیں۔ انوار فطرت اس بات کے نہ صرف عینی شاہد ہیں بلکہ انہوں نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش بھی کی۔

میں ان کی اس بات پر بہت ہنسا۔ اور کہہ بھی کیا سکتا تھا۔ تسطیر میں تو کسی نظری تعصب کے بغیر ہر ادبی مکتبِ فکر کے لوگ چھپتے تھے ۔ فنون اور اوراق سمیت دیگر تمام گروپ تسطیر میں یکجا ہوتے تھے۔ شاہد انہوں نے کبھی تسطیر کا بہ نظرِ غائر مطالعہ نہیں کیا ہو گا ورنہ ان کا مطالعاتی مشاہدہ اتنا خام نہیں ہو سکتا۔ میں اسے ان کی معصومیت ہی کہوں گا۔ اب بھی جب مجھے ان کی یہ بات یاد آتی ہے تو بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔

سوویٹ یونین ٹوٹنے کے بعد بہت سے ترقی پسند سرمایہ دار بن چکے ہیں، کچھ نے این جی اوز بنا لی ہیں، کچھ نے مفادات و مراعات کے حصول اور غیر ملکی دوروں کے لیے نئی تنظیمیں اور انجمنیں بنا لی ہیں اور کچھ یورپ اور امریکہ میں آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔ پروفیسر یوسف حسن آخری سانس تک نظریے سے وابستہ و پیوستہ رہنے والے شاید آخری آدمی تھے۔ انہوں نے انتہائی سادہ اور درویشانہ زندگی گزاری لیکن اپنی معیشت کو کبھی مراعات اور مفادات کے تابع نہیں کیا۔ اپنی ضروریات کے لیے پروفیسری کے ساتھ ساتھ کتابیں بیچیں لیکن کبھی کسی سے ایک روپیہ ادھار نہیں لیا۔ مجھے یاد ہے جب وہ حلقے میں آتے تھے تو ایک تھیلے میں کتابیں ساتھ لاتے تھے جو دوست احباب کو قیمتا پیش کرتے تھے۔ کسی کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے تو ادھار دے دیتے تھے اور ایک رجسٹر میں حساب کتاب لکھ لیتے تھے۔

انہیں فرداً فرداً دوستوں کے ذوقِ مطالعہ کا پتا ہوتا تھا اور اس کے مطابق کتابیں لے کر آتے تھے۔ لیکن زیادہ تر اپنے نظریے کی کتابیں لاتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے قریب انہوں نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر گندھارا پبلشنگ کے نام سے نسبتاً بڑے پیمانے پر کتابوں کا اور پبلشنگ کا کام شروع کیا لیکن سرمائے کی منڈی میں ایک خالص شاعر، ایک نظریاتی ادیب اور ایک اعلیٰ مارکسی ذہن کا دانش ور کیا کاروبار کرتا۔ نتیجتہً خسارہ ہی خسارہ ہاتھ آیا، خسارہ بھی صرف روپے پیسے کا نہیں دوستوں پر اعتماد بھی اٹھ گیا۔ کتب خانے سے بارہ لاکھ کی وصولیوں والا رجسٹر غائب ہوا۔ شریک کار دوست کے انتقال کے بعد ملنے والی چیک بک سے ایسی بدگمانی دل میں بیٹھی کہ نفسیاتی روگ بن گئی۔

روپے پیسے اور دنیا داری کی تو انہوں نے کبھی پرواہ نہیں کی تھی لیکن کاروبار سے ہونے والا روحانی نقصان ناقابلِ تلافی تھا۔ اس صدمے سے دو تین سال گھر سے باہر نہ نکلے۔ دوستوں سے ملنا جلنا تک چھوڑ دیا۔ حزن و افسردگی کی اس کیفیت سے باہر آنے میں عرصہ لگا لیکن خود کو مستقل بیمار کر لیا اور بالآخر 26 جون 2018ء کو ستر برس کی عمر میں منافع کی معیشت میں خسارے کا آدمی،  جدلیاتی مادیت کا سچا پرچارک وقت کی جدلیات کا دائمی حصہ بن گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).