گھر مت آنا۔۔ابا


وہ آج رات بھی ٹھیک سے سو نہ سکا۔ وہ جیسے ہی آنکھیں بند کرنے لگتا، اس کے ذہن میں عجیب عجیب خیالات ابھرنے لگتے۔ کبھی بچوں کی خوراک، کبھی چھوٹی کی فیس تو کبھی ماں کی دوائی۔ سوچیں تھیں کہ پیچھا ہی نہ چھوڑتی تھیں۔ سارا دن سڑکوں کی دھول جھوکنے کے بعد بھی بس اتنے پیسے ہی بن پاتے کہ دو وقت کی روٹی نصیب ہو سکے۔ کوئی اور ہوتا تو اس کو اپنی تقدیر سمجھ کر چپ کر جاتامگر یہ اعظم دین تھا۔ جس کی ماں نے اسے لڑنا سکھایا تھا، حالات سے لڑنا، قسمت سے لڑنا، تقدیر سے لڑنا۔ وہ کہاں چپ کر کے بیٹھنے والا تھا۔ بچوں کو ایک روشن مستقبل دینے کے لیے، بیوی اور ماں کو خوش کرنے کے لیے اس نے اپنے آپ کو کام میں ایسا مگن کیا کہ پھر نہ کھانے کی ہوش ہوتی اور نہ پینے کی۔ بس کام، کام اور کام۔

سارا دن کولہو کا بیل بنا رہتا اور رات کو تھک ہار کر چارپائی پر گر جاتا۔ اس کے لیے بس یہی خوشی تھی کہ اس کے بچے بیوی سکھ میں تھے۔ ان کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے تھے، نہ کسی کی جانب دیکھنا پڑتا۔ اعظم دین مگر پھر بھی پریشان رہتا۔ وہ چاہتا تھا کہ بچپن میں جو محرومیاں اس نے دیکھی تھیں ان کی پرچھائیاں اس کے بچوں پر نہ پڑیں۔ اس کے بچے بھی دوسرے بچوں کی طرح سکول جائیں، پڑھیں لکھیں اور اس سے بہتر زندگی گزارنے کی قابل ہو جائیں۔ پس اسی لیے ایک دن اس نے بیوی کو کہا:۔ ’میرا سامان باندھ دو، میں پردیس جا رہا ہوں۔ ،
۔ ’پردیس؟ مگر کیوں؟

’وہاں اچھی نوکری ہو گی، اچھا پیسہ ہو گا، میرا بچے اچھے سکولوں میں پڑھیں گے، میرے بچے اچھے عہدوں پر لگیں گے‘۔
’مگر پردیس رہنا تو بہت کٹھن ہوتا ہے۔ کیا رہ لو گے اپنے بچوں کے بغیر۔ ، اپنے گھر والوں کے بغیر، اپنے پیاروں کے بغیر؟ ‘
’ہاں، بہت مشکل ہوتا ہے رہنا ایسے، مگر میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں مگر میں اپنے بچوں کو اپنی طرح ان پڑھ اور گنوار نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں نے جو مصیبتیں دیکھی ہیں، میں نہیں چاہتا میرے بچے بھی وہ مصبیتیں دیکھیں۔ تم سامان باندھو۔ مجھے نکلنا ہو گا۔ ‘

واقعی پھر ایسا ہی ہوا۔ ایک اعظم دین کے جانے سے گھر بھر کی قسمت کھل گئی۔ غریبی کے دن مٹنے لگے اور پیسے کی ریل پیل ہونے لگی۔ اُدھر اعظم دین سارا دن پردیس کی دھول چاٹتا رہتا، اپنے سے دوری کے دکھ کو سہتا رہتا، محنت مشقت کرتا رہتا اور اِدھر اولاد پیسہ اُجاڑنے میں مصروف رہتی۔ اب حال یہ تھا کہ ان کی فرمائشیں ہی نہ پوری ہوتیں۔ کوئی باپ سے فرمائش کرتا کہ شہر کے مہنگے ترین سکول میں داخلہ دلائیں، کوئی فرمائش کرتا کہ باہر سے مہنگے تحفے بھیجیں اور کوئی سونے چاندی کی ضد کرنے لگتا۔ اعظم دین ان کی جدائی میں ویسے ہی مر رہا تھا، گھر سے جو بھی فرمائش آتی اس کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا اور گھر والے تھے کہ گویا ان کی لاٹری نکل آئی ہو۔ کوئی اسے گھر آنے کے لیے نہ کہتا، سب جانتے تھے کہ اس کے آنے سے پیسے ضائع ہو جائیں گے۔

’نہ ابا! تو نہ آنا۔ تیرے آنے جانے کا کرایہ مجھے بھیج دے میں نے سکول سے دوستوں کے ساتھ گھومنے جانا ہے۔ ‘ اعظم ایسی باتوں کا برانہ مناتا۔ اس کے لیے بچوں کو خوش کرنا سب سے اہم تھا۔ خیر وقت گزرتا گیا اور اعظم نے گھر والوں کے کہنے پر انہیں اپنی ساری جمع پونجی بھیج دی کہ وہ کہیں اچھا سا گھر خرید سکیں۔

’اگلے مہینے میں واپس آ جاؤں گا۔ میری نوکری بڑھاپے کی وجہ سے ختم ہو گئی ہے۔ میں اپنی ساری جمع شدہ رقم تم لوگوں کو بھیج دی ہے۔ تم لوگ اس میں سے ایک گھر خرید سکو گے۔ ‘
’ہائے ابا۔ تو واپس آ رہا ہے تو پیسہ کون بھیجے گا؟ ہمارا خرچہ کیسے چلے گا۔ ایک ہی نوکری تو نہیں ہے نا، کہیں اور ڈھونڈ لے کام مگر وہیں رہ۔ یہاں آ کر کیا کرے گا۔ یہاں تجھے اتنے اچھے پیسے نہیں ملیں گے۔ ‘

’مگر پتر میں اب کام کرنے کے قابل رہا بھی نہیں ہوں۔ میری عمر دیکھو اب مجھے کہیں بھی کام نہیں کرنا، سوچا ہے یہ زندگی کے آخری دن سکھ چین سے اپنی اولاد میں گزاروں گا۔ جو سکون ساری زندگی میسر نہیں ہوا وہ اب گھر میں ملے گا۔ ‘

’اف ابا۔ ایک تو بات سن تو نے جتنے پیسے بھیجے ہیں نا، اس میں کسی اچھی جگہ گھر کیا ایک پلاٹ تک نہیں آئے گا۔ ہمارا ایک سٹینڈرڈ بن گیا ہے محلے، خاندان میں۔ اب ہم گندی جگہ پر تو گھر نہیں لے سکتے نا۔ سچی بات کہوں تو تو مت آ۔ وہاں رہ کچھ نہ کچھ کر۔ یہاں ہم تجھے کیا کریں گے۔ نہ میں فارغ ہوتا ہوں، نہ ارسلان۔ ہماری بیویاں کیسے سنبھالیں گی تجھے۔ اوپر سے پیسے بھی اتنے کم ہیں کہ بس ہم گھر کا خرچہ ہی مشکل سے چلائیں گے۔ اگر تو بھی آ گیا تو گزارا مزید مشکل ہو جائے گا۔ ‘

’اچھا بیٹا۔ میں نہیں آتا تم لوگ خوش رہو۔ شاید میرا گھر یہی ہے۔ ‘
اعظم دین واقعی اس کے بعد کبھی گھر نہ جا سکا، چند دن بعد خبر آئی کہ نوکری کی تلاش میں نکلا ایک ضعیف انسان سڑک کراس کرتے ہوئے گاڑی کے نیچے آ گیا۔

ثمانہ سید
Latest posts by ثمانہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).