بات  گھمائیے مت!  اسے آسان تر   بنائیے


ہمارے ایک انگریز دوست جو پاکستان میں ایک نجی تعلیمی ادارے میں کافی عرصہ کام کر چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی رپورٹ، کوئی نام نہاد تحقیق، کوئی امتحانی سوال پوچھ لیں، کسی سے کوئی بھی بات کی جائے، راستہ پوچھا جائے، تعارف مانگا جائے، کمرہ امتحان میں توہر پاکستانی1947، سے اپنا تعارف کرائے گا اپنے آباؤاجداد کے کارنامے گنوانے گا مگر اپنا تعارف پھر حذف کردے گا۔ اسی طرح اگر کسی سوال کا جوا ب دینا شروع کرے گا تو اسے بھی 1947 سے شروع کرے گا۔ راستہ بتانے لگے گا تو مختلف سائن بورڈ یا گلیوں کے نام کے کی بجائے کھانے والی یا دودھ دھی کی دکانوں کے ذریعے آپ کو منزل مقصود تک پہنچانے کی کوشش کرے گا مگر اپنی ہدایات میں کئی غیرمتعلقہ کلمات سے جیسے ’پاہ جی آپ جب سیدھے جائیں گے تو ایک چوک آئے گا مگر آپ نے اس چوک پر نہیں رکنا، بلکہ سیدھا آگے چلتے جانا ہے پھرآگے چلتے ہوئے ایک دائیں طرف گلی نظر آئے گی آپ نے اس پر بھی نہیں مڑنا بلکہ سیدھے چلے جانا ہے۔ کہ پھر کچھ دیر چلتے چلتے آپ کو لاوارث نہاری والے کی دکان نظر آئے گی بس آپ نے اسے دیکھ کر سیدھے آگے بڑھ جانا ہے اور پھر چلتے چلتے ماجھے دودھ دہی کی دکان آئے گی اور اس کے ساتھ ایک پتلی گلی بائیں طرف ہوگی آپ نے اس گلی کی طرف نہیں مڑنا بلکہ مزید آگے سیدھا چلتے جانا ہے، ہاں ویسے اس گلی کی طرف بھی مُڑ سکتے ہیں کیونکہ یہ گلی بھی گھوم پھر کر وہیں جاتی ہے جہاں آپ جارہے ہیں تو اب ادھر آئیے اور دیکھیے کہ وہ جو سامنے وہ دور آپ کو ہمالیہ ٹھنڈ پِت مار پوڈر کا بورڈ نظر آرہا ہے۔ جی وہیں اس بلڈنگ میں واپڈا کا دفتر ہے ‘

بس یہی ہماری قوم کا المیہ ہے کہ چھوٹی سی بات کو ربڑ کی طرح کھینچ کھینچ کر کہیں کا کہیں لے جائیں گے حالانکہ عقل مند ی کا تقاضا یہ ہے کہ جتنا پوچھا جائے اتنا جواب دیا جائے نہ کہ وہ جواب دیا جائے جو آپ کو آتا ہے۔ امتحانی سوالات سے لے کر سیاستدانوں کے انٹرویوز تک ہمیں ٹودی پوائینٹ بات کرنے کا سلیقہ کہیں نظر نہیں آئے گا۔ جس کی ایک مثال آپ نے عمران خان کے بی بی سی پر‘ہارڈ ٹاک ’ کے حالیہ انٹرویو میں بھی دیکھا ہوگا اوریہ صرف عمران خان ہی نہیں کسی بھی سیاستدان پر جب بھی چبھتے سوالات ہوتے ہیں تو وہ اپنی کوتاہیوں کو ماننے کی بجائے ان سوالات کو بے سروپا کہانیوں میں غلط ملط کردیتے ہیں۔ اسی طرح چوھدری نثار بطور وزیر داخلہ کی تھکا دینے والی طویل تر پریس کانفرنسیں، شیریں رحمان کی بے ربط گفتگو، الطاف حسین کی عالم سرور میں تقاریر کہ جو بات دولفظوں میں کی جاسکتی تھی اسے کھینچ کھانچ کر گھنٹوں پر لے جانا ہے اور پلے پھر بھی کچھ نہیں پڑنا کہ آخر کہنے والے کا اصل مدعا کیا ہے اور جب صحافی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق خبر جڑدیتے ہیں تو پھر انہی سیاستدانوں کی طرف سے بیان جاری ہوجاتا ہے کہ ان کا بیان تروڑمروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ میرا جب پہلی بار برطانیہ جانا ہوا تو چونکہ مجھے زعم تھا کہ میں نے انگریزی ادب میں ماسٹر کیا ہوا ہے تو انگریزی بول چال کیا چیز ہے میرے آگے۔ لہذا میں نے پاکستانی فطرت کے مطابق شیکسپئیر کے زمانے والی انگریزی بول بول کر اپنے ساتھی گوروں کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ کہ آخر ایک دن ایک بزرگ گورے نے کہا یار تم اپنی انگریزی سیدھی و سادہ کیو ں نہیں بناتے۔ جی کیا مطلب؟ میں سمجھا کہ شاید یہ میری انگریزی بول چال کے دوران وہ مشکل الفاظ جو میں زبردستی اپنی بات چیت کے دوران زبردستی گھسیڑتا ہوں وہ اسے سمجھ نہیں آرہے اور یہ یقیناً میری انگریزی سے مرعوب ہو کر ایسا کہہ رہا ہے کہ کیا بات ہے ایک پاکستانی کی جو کیسے برمحل مقفیٰ و مسجع الفاظ کو مروارید کی لڑی کی طرح پرو رہا ہے۔ مگر میرے استفسار پر ان بزرگ گورے نے کہا کہ دیکھو آپ جو انگریزی بول چال کے لیے استعمال کرتے ہو یہ اب متروک ہوچکی ہے۔ ’جی کیا مطلب؟ ‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔ بھئی جو انگریزی آپ بولتے ہو وہ ملکہ وکٹوریہ کے زمانے کی انگریزی ہے جو اب انگلستان میں نہیں بولی جاتی۔ اچھا؟ تو پھر کیا کروں؟ کہنے لگے ہم نے انگلش کو ا اتنا آسان فہم کردیا ہے کہ ہر کوئی آسانی سے اپنا مطمع نظر دوسرے کو پیش کرسکے۔ ہمارا مقصد کسی کو متاثر کرنا نہیں بلکہ ایک دوسرے کی بات سمجھنا اور سمجھانا ہے۔ یہ سن کر میں پانی پانی ہوگیا اورپھر سوچنے لگا کہ پاکستان میں ہم ابھی تک جس انگریزی کو گلے لگائے بیٹھے ہیں گورا کب کا اس سے چھٹکارہ پاچکا ہے اور انہوں نے اسے اتنا سہل بنا دیا ہے ان کی زبان کی پوری دنیا میں حکمرانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں پرائمری اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک ہر جگہ آسان فہم انگریزی بولی جاتی ہے جو ہر ایک کو سمجھ آئے۔ مگر ہاں، اکیڈیمک انگریزی لکھنے کا ایک خاص اسٹائل ہے۔ جس کی کلاسسز غیر ملکی طلباء کے لیے یونیورسٹیز میں الگ سے ہوتی ہیں۔ تاکہ آپکی لکھائی تحقیق کے معیار پر پوری اتر سکے۔

میری اوپر وضاحت کا مقصد یہی واضع کرنا تھا کہ پاکستان میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی ابلاغ یا کیمونیکیشن کاہے۔ یورپ میں پرائمری اسکول میں کوئی لمبا چوڑا نصاب نہیں، کوئی عجیب و غریب بے معنی لیکچر نہیں، بس بچوں کو مقامی ماحول سے آگاہی دی جاتی ہے۔ کہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی کیا ہے، اسٹور سے کیسے خریداری کرنی ہے، ڈاکخانہ کیا ہوتا ہے، فائربریگیڈ کیسے کام کرتی ہے کہ بعض اوقات پوری فائر بریگیڈ کی گاڑی بھی عملی طور پر اسکول لائی جاتی ہے کہ بچے اس کے افعال کو سمجھ سکیں، اسی طرح پولیس آفیسر بھی اسکول آتے ہیں۔ ہلکا پھلکا میتھ، کھیل کھیل میں انسانی تاریخ، مختلف فیسٹیولز جیسے کرسمس، عید، دیوالی وغیرہ کی معلومات، سب وشتم سے پاک بات چیت، لکھنا پڑھنا، بولنا، اس طرح سکھانا کہ بچے کے اندر اپنا آپ بیان کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ کوئی بھاری بھر کم بستہ نہیں، کوئی لمبا چوڑا ہوم ورک نہیں، بس انہوں نے آپکے بچے کو صبح نو سے تین بجے تک اپنے پاس رکھنا ہے، دوپہر کا کھانا بھی دینا ہے جو کم آمدن والوں کے لئے مفت ہوتا ہے، باقیوں کے لیے بہت مناسب قیمت پر یا اپنا لے آئیں، اور پھر والدین تین بجے بچہ گھر لے جائیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی پرائمری ایجوکیشن کو دیکھ لیں کیسے ہوتی ہے۔ کہ بچے پر بے جا کتابوں کا بوجھ ’کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارًا ’، ڈنڈے کے زور پر دین کو سکھانا، بچے کو سوال کرنے سے روکنا یا اس کا مذاق اڑانا، اسی طرح سوچ پر پابندی۔ تو پھر خود سوچیں جب ہماری بنیاد ہی کھوکھلی اور کئی قسم کے خوف سے بھری ہوں تو ہم کیمونیکیشن کیا خاک کریں گے؟

دوسری طرف آپ مذہبی لوگوں کا ابلاغ دیکھ لیں یقیناً آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ وہ ایسی مشکل زبان نہ صرف بولنے میں بلکہ لکھنے میں بھی استعمال کرتے ہیں ہمیں صرف ہاں میں سر ہلانے کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ کہیں غلطی کسی غلط مقام پر ناں کرکے گستاخی کے مرتکب نہ ٹہرا دیے جائیں اور پھر سر کو تن سے جدا ہونے سے بچانے کے لیے ملکوں ملکوں دوڑتے پھریں۔ اس ضمن میں بعض ابلاغ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہبی اکابرین اپنے اپنے فرقے کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے عوام کے سامنے ایسے ایسے مشکل الفاظ کا استعمال کرتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہہ کیا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ عام اردو بھی عربی کے پورے حروف قلقلہ اور دیگر مخارج کے ساتھ اس طرح بولتے ہیں کہ ’ح‘ اور ’ھ‘‘ض ’ اور ’ظ، ذ، ز‘آپس میں غلط ملط نہ ہوجائیں کہ‘ ْقلب‘ اور‘ کلب‘ کی طرح کہیں کسی لفظ کے معنی، گناہ کبیرہ کی طرح ہی نہ بدل جائیں کہ کفارہ بھی ممکن نہ رہے۔

جیسا کہ ایک مولانا صاحب جب کسی حلوائی کی دکان سے شیرہ لینے کے لیے گئے تو ’شیرے ’ کے بارے اتنے مخارج سے پوچھا کہ حلوائی سٹپٹا کر بولا کہ مولانا! شیرا تو ہے مگر اتنا گاڑھا نہیں ہے۔ ایسے حضرات اردو بھی بولیں تو پتہ نہیں چلتا کہ عربی، اردو میں بول رہے ہیں یا اس کے الٹ۔ اسی طرح ہمارے وہ دوست جو ایران سے روحانی و مذہبی لگاؤ رکھتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اردو کو فارسی کے لہجے میں بیان کریں اور پھر اپنی تقاریر میں ایسے ایسے مشکل الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ لگتا ہے کوئی ہمارے دماغ کو ہتھوڑے مار کر اس کا مغز باہر نکالنے کی کوشش کررہا ہے مثلاً مستضعفین جہاں، مستکبرین، طاغوت، بنابریں احوط یہ ہے کہ۔ استنباط، نہضت اسلامی اور پتہ نہیں اپنی تقاریر میں کیا کیا ثقیل الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ سامعین سوائے نعرے لگانے کے یا واہ واہ کرنے کے اور کوئی راہ فرار نہیں پاتے۔

اسی طرح ہمارے بیوروکریٹس، وکلاء، اور عدالت کی زبان بھی اتنی مشکل ہوتی ہے کہ سمجھ نہیں آتی ہم لکھنٔو کے رجب علی بیگ سرور کا ’فسانہ عجائب‘ پڑھ رہے ہیں یا کسی شیکسپیئر کے ڈرامے کی کوئی ’خود کلامی‘۔ مگر یاد رکھیں ہمیشہ وہی سخن، تحریر، مکالمہ، بات چیت مقبول ہوئی جسے آسان فہم انداز میں لوگوں کو سمجھایا گیا جیسے غالب کے خطوط، نظیر اکبر آبادی کی عوامی شاعری، بلھے شاہ کا دل گرفتہ کلام، غامدی صاحب کی آسان پیرائے میں مذہبی بات چیت، واصف علی واصف کی گفتگو، ڈاکٹر مہدی حسن کے روشن خیالی پر اظہار خیال وغیرہ۔

ہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ آپ Slang یا بازاری بول چل کو ادبی زبان وبیان سے خلط ملط مت کیجیے گا۔ بازاروں، تھڑوں، دکانوں وغیرہ میں بولی جانے والی زبان ادبی درجہ نہیں رکھتی۔ کیونکہ اس زبان میں ہم اپنے اپنے علاقے کی نہ صرف عکاسی کررہے ہوتے ہیں بلکہ اس زبان میں ہم کچھ ناقابل تحریر الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ المیہ صرف اردو پنجابی کے ساتھ ہیں نہیں انگریزی سلینگ بھی ایسے ہی ہے۔ اور ہمارے پیدائشی برطانوی پاکستانی نوجوان جب پاکستان کے دورے پر تشریف لاتے ہیں ہیں تو وہ جہاں اپنے آپ کو شاھی خاندان کا فرد تو سمجھتے ہی ہیں مگر وہ زبان بھی بظاہر انگریزی ہی بولتے ہیں مگر ان کی زبان بھی سلینگ ہی ہوتی ہے جسے ہم جیسے بی اے انگلش میں بار بار کمپارٹمنٹ والے بڑے رشک بھرے انداز سے سنتے اور سر دھنتے ہیں کہ واہ ہم سے بی اے کی انگریزی کلیر نہیں ہورہی اور یہ بچہ یا جوان ’مِیرا ’کی طرح فر فر انگریزی بول رہا ہے۔ حالانکہ اس بازاری بول چال کا ادبی انگریزی سے دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا۔ نہ ان کی انگریزی لکھنے کے کام آسکتی ہے نہ اسے تقریر میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اور پھر یہ کہ کبھی اپنی زبان کے بارے احساس کمتری کا شکار مت ہوں آپ اردو، پنجابی، بلوچی، پشتو، سندھی، مکرانی، سرائیکی کوئی بھی مادری زبان بولتے ہوں، اسے دبنگ انداز سے بولیے اور قطعاً ججھک محسوس نہ کریں۔ میرے محترم استاد رفیق جعفر کے بقول اگر برطانیہ میں پنجابی بولی جاتی اور پھر برطانوی حملہ آور برصغیر پر حملہ آور ہوجاتے۔ اور برصغیر میں انگریزی بول چال رائج ہوتی تو پھر ہم کون سی زبان بولنے اور لکھنے میں فخر محسوس کرتے انگریزی یا پنجابی؟

مگر ایک بات ذہن میں رہے کہ انگریزی اگر دنیا بھر میں مقبول اور رائج ہوتی جارہی ہے وہ صرف اسی لیے کہ اسے آسان سے آسان تر بنایا جارہا ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے کا باسی اپنی زبان کے علاوہ اگر کوئی زبان جانتا ہے تو وہ انگریزی لازمی جانتا ہے۔ چین، جاپان اور روس جیسے ممالک نے بھی اپنے ہاں جدید انگریزی کی حوصلہ افزائی شروع کردی ہے۔ مگر ہم ہیں کہ اسی پرانی فرسودہ انگریزی کو پکڑے ہوئے ہیں جس کا وجود اب گوروں کے دیس میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ اور تو اور ان ممالک نے وی آئی پی کلچر کا بھی خاتمہ بھی اس حد تک کردیا ہے کہ یہاں Peon (چپڑاسی) کا معنی کسی گورے سے پوچھ لیں تو وہ بڑے معصومانہ انداز سے آپ سے پوچھے گا وہ کیا ہوتا ہے؟

اس آسان انگریزی کی آسان سمجھ بوجھ کا مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی کالج، یونیورسٹی کی انگریزی بھی مادر پدر آزاد ہوگئی ہے۔ اکیڈیمک انگریزی جو یونیورسٹیوں میں لکھی اور پڑھی جاتی ہے اس کا ایک خاص معیار ہوتا ہے اور اس انگریزی میں ہم بازاری بول چال والے الفاظ قطعاً استعمال نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے اگر آپ یورپی تحقیقی مقالہ جات پڑھیں گے تو آپ کو وہ نہ صرف سمجھ آئے گا بلکہ اس میں زبان کا معیار، الفاظ کا چناؤ بھی بہترین ہوگا۔

تو میرے بھائیو! اگر آپ چاھتے ہیں کہ آپکے ایک دوسرے سے غلط فہمیاں یا شکوک و شبہات دور ہوں۔ اور آپکی بات چیت میں ابہام کی دبیز تہہ صاف ہوسکے تو اپنی گفتگو کو آسان سے آسان تر بنائیے۔ کسی کو متاثر کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے دل میں گھر کرنے کی ضرورت ہے۔ قران کو جاودوئی کتاب یا منتر، دم درود کی کتاب مت بنائیے بلکہ اسے آسان سے آسان تر بنائیے کہ لوگ سمجھ سکیں کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰھُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (اس طرح خدا اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو)۔ ورنہ آپ ان لوگوں کے ہاتھوں مسلسل استحصال کر شکار ہوتے رہیں گے جو آپ کو واضح بتا نہیں پاتے یا بتانا نہیں چاھتے۔ اور کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو کاٹھا انگریز، عربی دان، فارسی دان بنانے کی بجائے اس سے اپنی مادری زبان میں آسان فہم انداز میں بات کریں کہ نہ صرف آپ اس کو اپنی بات سمجھا سکیں بلکہ وہ بھی اپنا مدعا آسانی سے بیان کرسکے۔ اور اس آسان فہم ابلاغ کوصرف گھر یا تعلیمی اداروں میں ہی نہیں بلکہ اسے مجموعی طور پر معاشرے میں اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کو متاثر کرنے کے چکر میں پورے معاشرے کو متاثرین میں تبدیل نہ کریں بلکہ ایک دوسرے کو سمجھ سمجھا کر اچھے حال اور پھر اچھے مستقبل کا آغاز کرسکیں۔ زبردستی عام فہم الفاظ کو مشکل معنی مت پہنائیں کہ لوگ اور مشکل میں پڑ جائیں جیسے گول کیپر یا گولچی کی اگر سب کو سمجھ ہے تو اسے ‘ محافظ جائے دخول‘ یا، تھرمامیڑ کو مقیاس الحرارت، رین گیج کو مقیاس المطر کہنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔

آخر میں، میں دو مثالیں دے کر اپنی بات ختم کرنا چاہوں گا کہ ایک دفعہ پھر ہم اپنا جائزہ لے لیں کہ کہیں ہم اپنے اردگرد اس قسم کی ہی گفتگو تو نہیں کررہے؟

(سعید ابراھیم کی وال سے )
اردُو کا کمرہ جماعت
اُستاد : گالی کسے کہتے ہیں؟

شاگرد : ’ اِنتہائی غُصَّے کی حالت میں جِسمانی طور پر تَشَدُّد کرنے کے بجائے زُبانی طور سے کی جانے والی پُرتَشَدُّد لفظی کارروائی کے لیے مُنتَخِب الفاظِ غَلِیظَہ، اندازِ بَسِیطَہ، لِہجئِہ کَرِیہہ اور اَثرَاتِ سَفِیہہ کے مَجمُوعے کا اِستعمال ؛ جِس کی اَدَائیگی کے بعد اِطمینان وسُکُون کی نَاقَابِلِ بَیَان کَیفِیَّت سے قَلب بِہرَہ وَر ہو جاتا ہے اور اِس طَرح مُقَابِل جِسمَانی تَشَدُّد کی بہ نِٔسبَت زِیَادَہ مَجرُوح اور شِکَستَہ ہو جاتا ہے اُسے گالی کہتے ہیں۔ ‘
اُستَاد صَاحَب غَش کھا کر کُرسی سے نِیچے گِر گئے۔

ایک فورم میں پوچھا گیا کہ روح کیا ہوتی ہے تو یہ جواب ملا اگر کسی کو سمجھ آجائے تو مجھے بھی پلیز بتائیے گا۔
‘مادہ میں حرکت جوھری کے سبب ارتقاء ہے۔ یہ ارتقاء جب بلند ترین مرتبے پر آتا ہے تو یہ انسانی وجود ہے۔ اب جب بچہ ہیدا ہوتا ہے تو وہ بلکل مادی عناصر کا حامل ہوتا ہے۔ یہ مادی عناصر حرکت جوھری کی وجہ سے ایک غیر مادی جوھر کو خلق کرتی ہے جسے ہم نفس کہتے ہیں۔ نفس در اصل مادے کے جوہر میں حرکت کا نتیجہ ہے یعنی روح کہیں اور سے آ کر جسم کے ساتھ ملحق نہیں ہوتی بلکہ مادے کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس موقع پر انسان یگانہ دوگانہ حیثیت کا حامل ہو جاتا ہے یعنی ایک مرتبہ عالم مادہ میں اور ایک مرتبہ عالم بزرخ میں ہوتا ہے۔ چونکہ حرکت جوھر جاری رہتی ہے تو نفس آہستہ آہستہ قوی ہوتا جاتا ہے۔ قوی سے میری مراد ہے کہ نفس اپنی بلقوہ صلاحیتوں کو بالفعل کرتا جاتا ہے۔ بالقوہ و بالفعل سے میری مراد ہے کہ یہ مادے کی احتیاج سے آزاد ہوتا جاتا ہے تا کہ مادے یعنی جسم کے بغیر بھی کوئی عمل انجام دے سکے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).