و‌زیر اعظم  عمران خان، چڑ کا چڑھتا جنون


عمران خان واحد رہنما ہیں۔ جنھوں نے استقامت اور ثابت قدمی سے ایک سیٹ والی پارٹی کو تیسری بڑی پارٹی کے طور پر لاکھڑا کیا۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پہ سچ بولتے ہیں۔ یقینا بعض اوقات پارٹی کے مفاد کی خاطر مصلحتا خاموش رہتے ہیں۔ آپ چاہے ان کی شخصیت میں تبدیلی برپا کرنے کا خاصہ دیکھتے ہیں یا سیاسی فلسفے کے شدید ناقد، بحرحال آپ کو بالرضا یا چار وناچار یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ کہ وہ یقینا تبدیلی کی سنگ بنیاد رکھ چکے ہیں۔ حاکمیت کو جدی پشتی کاپی رائٹ سمجھنے والوں کے سریے والی دیوار میں زبردست نقب انھوں نے مڈل کلاس تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سیاسی رتبہ دے کر لگائی۔ ووٹ بیچنے پر بیک وقت بیس ایم پی ایز کے خلاف اتنی سخت ضابطے کی کارروائی پاکستان میں مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اور خیبر پشتونخوا میں بنیادی سطح پر نظام اور گورننس میں بہتری لانا بھی یقینا قابل ستائش امر ہے۔

یہ جدی پشتی ٹھیکہ حاکمیت
کھیل کہ خوب جمایا تو نے
میرے آشیانہ خس و خاشاک کو
آتشکدہ نفریں میں جلایا تو نے
سینچا میرے لہو سے باغ ارم
زخم تازہ کہ بار بار سلگایا تو نے

عمران خان اک شاہین ہے، اردگرد کرگسوں کا گھیرا ہے۔ تحریک انصاف میں اکثر نقصان پہنچانے والے طفیلئے یا اشتراکی ہم زیستی والے نبات ہوائی موجود ہیں۔ تبدیلی کے جواں جہاں ساخت کو تیشہ حریف نے کم اور اندرونی دیمک نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

عمران خان کے بارے میں انتہائیں عام سی ہیں۔ مثلا ہارون الرشید صاحب انھیں ” قائدا عظم ثانی“ اور سرل المیڈا ”موسٹ ایرٹیٹنگ پرسنالٹی“ کا لقب دے چکے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ چڑ کثیر تعداد میں عوام و خواص کو ان کے وزیراع‍ظم بننے سے ہے۔ بعض تو اسے زندگی کا اولین مقصد بنا کر اس خیال کو شبانہ روز جگ ہنسائی سے ہمکنار کے درپے ہیں۔ یعنی چڑ نے ان کے لئے اوبسیشن (جنون) کی صورت اختیار کر لی ہے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر کاسہ لیس رہنماء بھی دل ہی دل میں ان کے وزیراع‍ظم بننے سے چڑتے ہوں گے۔ کیوںکہ ارض پاک کے باشندوں کے باقی خواص کی طرح اصول سیاست بھی منفرد ہیں۔ مثلا وہ شبانہ روز تو خان صاحب

کی رہبری کے گن گاتے ہوں گے۔ لیکن وزارت عظمی کی کرسی پہ شیخ رشید اور چوہدری شجاعت حسین جیسے سیاستدانوں کا براجمان ہونا پسند فرمائیں گے۔ اگر تحریک انصاف کبھی اکثریتی پارٹی بن کے ابھرے تو ظن غالب یہی ہے کہ چار و ناچار خان صاحب کو وزیراعظم قبول کر ہی لیا جائے گا۔ بشرطیکہ کوئی دوسرا رستہ نہ ہو، یا حالات اتنے ہی دگرگوں ہوں کہ ان جیسی غیر متزلزل قوت والی رہبری لازمی ٹھرے۔

یقینا اب کچھ دانائے روزگار ان کی تعریف میں زمیں آسمان کے قلابے ملائیں گے۔ کچھ ‎ سیاسی مرغابیاں آب و دانہ اور اگلے بہار تک کے لئے ٹھنڈی چھا‎‎‏‏ؤں کی تلاش میں بنی گالہ کا رخ کریں گی، جس پہ یقینا لعن طعن ہوگی۔ لیکن یاں سیاسی گلشن میں تو موسمی پرندوں کی بہتات ہے، اور ہے کوئی مائی کا لال جو تیس مارخان بنتے ہوئے انھیں رد کر دے؟ بلکہ آڑان بھرنے اور قدم رنجہ فرمانے سے پہلے ہی بے ساختہ نگاہ دید کی وارفتگی میں ”قبول ہے ” ہر نجات دہندہ کے منہ سے نکل ہی جاتے ہیں۔ کشف و کرامات والے صاحب اسرار بھی پراسرار جیتنے جیسی حالات کا عملی خاکہ پیش کرکے خان صاحب کو غیر مرئی قوتوں کی قافلہ انصاف کے ساتھ ہمراہی کی نوید سنائیں گے۔ لیکن لگتا نہیں کہ انھیں وزیراعظم بننے دیا جائے گا۔ یہ میں خان صاحب یا تحریک انصاف کی نا اہلی کی بنیاد پر نہیں بلکہ حلقہ احباب حاسدان کے جاری کردہ ایجنڈے کے خواہش تکمیل کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ کیوںکہ خان صاحب کے سیاسی کیرئیر اور تبدیلی کے مشن کو کرگسوں، حاسدوں اور مخالفین نے ایک دبیز منافقتی چادر سے دھندلا رکھنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔

ہارون الرشید صاحب خان صاحب کی مردم شناسی کے قائل نہیں۔ ہو سکتا ہے خان صاحب پارٹی کو شکست و ریخت سے بچانے کے لئے مصلحتا بعض پارٹی رہنماؤں کے ناروا عمل سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوں گے۔ انھیں یقینا مبینہ چشم پوشی کی بجائے ایم پی ایز کے خلاف ضابطے جیسی کارروائی زیب دیتی ہے۔ وہ خوشامد کو غالبا کم اہمیت دیتے ہیں جو انتہائی مثبت خصوصیت ہے۔ انھیں غصے، ”اوئے“ جیسے الفا‌ظ، غیر ضروری مصلحت پسندی سے احتراز اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنا ہی زیب دیتا ہے۔ باقی تو وہ بہت سوں کا جگر ہیں، کہ پشتون حسن پرست اس فلسفے کے قائل ہیں۔ کہ“سرخی مائل چہرے والے محبوب کا اک عیب، عیب نہ سہی“۔

میں اک جذبہ کہ روز افزوں
اک ولولہ نیا کہ پیکر جنوں
پکار اک قافلہ جواں پر دم
مستی سیل رواں ہر سوں
رہبر‏‏ مستانہ کارواں تازہ دم
مقابل صحرائے دشت ذبوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).