کیا واقعی ہم اشرف المخلوقات ہیں؟


مسلسل بارش اور رات کا آخری پہر، یہ وہ کیفیت تھی جسے میں انجوائے کررہی تھی۔ حالانکہ بارش سے پہلے آندھی کا طوفان برپا ہوا تھا جس سے شہر بے مثال کے بہت سے علاقے فیڈر ٹرپ ہونے کی وجہ سے اندھیرے میں ڈوب گئے تھے۔ کمرے میں عجیب سی پراسرار خاموشی تھی، میرا دھیان بارش کے گرتے معصوم قطروں سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ بے دھیانی میں بہت وقت گزر گیا اور میں اب بھی بارش کے قطروں کی محبت میں غرق تھی۔

اسی دوران طوفانی انداز میں آسمانی بجلی کڑکی جس سے بارش کی رفتارمزید تیز ہوگئی۔ معصوم بچی کی طرح میں سہم گئی۔ اب میری تمام توجہ بارش کی گرتی ہوئی حسین بوندوں سے ہٹ کر چار سو پھیلے ہوئے اندھیرے کی جانب مائل ہو گئی۔ دماغ میں عجیب و غریب سوالات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ سوچا بارش کا منظر کس قدر خوبصورت ہے، آسمان سے تسبیح کے دانوں کی طرح گرتی ہوئی بوندیں زندگی کو کیسے معطر کردیتی ہیں، لیکن آسمانی بجلی بچپن کی طرح آج بھی خوف پیدا کردیتی ہے ! عجیب سا خوف، موت کا جیسا خوف!بجلی کے کڑکنے کا خوف مکمل طور پر مجھ پر طاری ہو چکا تھا۔ سوچا بارش تو فطرت کی طرف سے باعث رحمت ہوتی ہے۔ مگر یہ رحمت ہمیشہ ہمارے لئے باعث زحمت بن جاتی ہے، جس کے ذمہ دار ہم خود انسان ہیں۔

پاکستان میں مون سون سیزن یہاں کے انسانوں کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ مون سون سیزن شروع ہوتے ہی یہی تبصرے شروع ہوجاتے ہیں کہ اس سے سیلاب بھی آسکتا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کا اندیشہ ہے، مون سون سیزن کے ساتھ ہی سیلاب کا ذکر شروع ہوجاتا ہے۔ سیلاب ہمیشہ تباہی و بربادی لاتا ہے، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے، درجنوں افراد اس ناگہانی آفت سے مر جاتے ہیں، لاکھوں کی تعداد میں غریب شہریوں کو نکل مقانی کرنی پڑتی ہے۔

اس کے علاوہ یہ ملک زلزلوں کی بھی زد میں رہتا ہے۔ 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بارے میں اب بھی سوچوں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں معصوم اس زلزلے کی وجہ سے مارے گئے۔ دہشت گردی جیسی لعنت کا بھی ہم شکار ہیں۔ وہ خونی دور تو اب بھی سب انسانوں کے ذہن میں ہوگا جب ہر دوسرے دن دہشت گردی کا واقعہ ہوتا تھا، جس سے کئی معصوم جانیں ضائع ہو جاتی تھی۔ اس بدقسمت ملک میں لاکھوں کی تعداد میں انسان بھوک و افلاس کا شکار ہیں، بہت سے انسان تو اس صورتحال کی وجہ سے خودکشی تک کر لیتے ہیں۔ آسمانی بجلی کی چیخ و پکار جاری تھی، سوچ سے حسین بوندوں کا حسن نکل چکا تھا، انہی سوالات نے مجھے یرغمال بنا رکھا تھا۔

سوچ رہی تھی کہ اتنی آفات کا شکار ہم کیوں بنتے ہیں؟ کیا سماج ہے جہاں مطلب پرستی اور مفلسی کا راج ہے، جہاں لین دین کے معاملے پر لوگ ایک دوسرے کو گولی مار کر ہلاک کردیتے ہیں، ہر کسی کے ذہن میں بس ایک ہی بات ہے کہ کیسے وہ دوسرے کو چونا لگا کر اپنا الو سیدھا کرسکتا ہے۔ جھوٹ و منافقت کا کاروبار کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی اپنے آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ہی اشرف المخلوقات ہیں؟ کاش ہم اشرف المخلوقات کے معانی و مطلب جان سکتے؟ وہ سماج جہاں خواتین کو عزت دینا تو دور انسان تک نہیں سمجھا جاتا ہے۔ مائیں، بہنیں، بیٹیاں کوئی بھی تو محفوظ نہیں۔ خواتین پر تیزاب پھینکنا تو ایک نارمل سی بات ہے، ہر گھر میں جہیز جیسے گندے رواج پر تنقید کی جاتی ہے، لیکن ہر گھر میں ہی یہی رواج ہے۔

کیا جہنمی سماج ہے جہاں معصوم بچے اور بچیاں تک غیر محفوظ ہیں، زینب جیسی معصوم بچی کو جس درندگی سے ہوس کا نشانہ بنایا گیا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کیا ہیں اور ہماری کیا اوقات ہے؟ کیا سماج ہے جہاں ایک خاتون کو اس لئے مرد گولی مار دیتا ہے کہ اس نے کیوں انکار کیا؟ بچے زمین کے ٹکڑے کی خاطر والدین کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ غربت سے نجات کے لیے مائیں اپنے جگر گوشے فروخت کردیتی ہیں۔ مذہب، عقیدے اور خدا کے نام پر یہاں کیا کچھ نہیں ہورہا؟ ہم سیاستدانوں اور سابق فوجی جرنیلوں کو تو کرپٹ کہتے ہیں، لیکن خود اپنا گریباں چاک نہیں کرتے کہ ہم خود کیا ہیں، جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہمارے حکمران ہیں۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ پرستی جس سماج کی شناخت بن جائے، اس سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے؟

مشال خان جیسا باشعور نوجوان قتل ہوجاتا ہے اور سماج کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، ہم سب قاتل بھی ہیں اور مقتول بھی اور اس پر یہ بھی خوش فہمی کہ ہم ہی اشرف المخلوقات ہیں؟ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں اپنے مالی و سیاسی مفادات کی خاطر سینکڑوں مزدوروں کو زندہ جلا دیاگیا، ہم تو وہ قوم ہیں جو امجد صابری جیسے معصوم آرٹسٹ کونہیں چھوڑتے۔ تعصب، نفرت ہماری شناخت ہے، پھر بھی ہم اشرف المخلوقات ہیں؟ کاش ہم انسانیت جیسے نظریئے کو سمجھ جائیں، کاش اس ملک کے دانشور سیاست کے ساتھ ساتھ قوم کی ذہنی تربیت کریں، سماج کی بدصورتی پر غور کرتے کرتے بہت وقت گزر گیا، بارش بھی رک چکی تھی، بجلی کڑکنا بند ہو گئی تھی، بارش کی بوندیں بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ صبح کا وقت تھا، میں نے آسمان کی طرف نگا ہ دوڑائی اور بس اللہ تعالی سے یہ عرض کی کہ یا اللہ ہمیں حقیقی اشرف المخلوقات بنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).