اپنے نام کی تختی لگانےکی دوڑ


کوئی چالیس سال ہوئے، لاہور کارپوریشن نے سڑکوں کے نام مشہور لوگوں سے منسوب کرنےشروع کئے تھے۔ سمن آباد سے چھوٹا سا بازار نکلتا تھا۔ اس میں ایک اور چھوٹی گلی تھی، جس میں قتیل شفائی اور احمد ندیم قاسمی صاحب کے مکانات تھے۔ کافی دن گزر گئے اور ان کی گلی پر نیم پلیٹ نہیں لگی تو قتیل صاحب نے خود ہی اپنے نام کی پلیٹ لگائی اور ہم لوگوں کو دیکھنے بلایا تھا۔

یہ واقعہ مجھے اب کیوں یاد آیا۔ گزشتہ پندرہ دن میں عباسی صاحب اور شہباز صاحب کی بڑی پھرتیاں دیکھیں۔ اپنی نیم پلیٹ لگانے کی لوگ کہتے ہیں، مثالیں دیکر واضح کرو۔ اسلام آباد میں سول ایوی ایشن والوں نے مشورہ دیا تھا کہ ابھی اسلام آباد ائرپورٹ کا کام مکمل نہیں ہوا، اس لئے تین مہینے ٹھہر جائیے، پھر اس کا افتتاح کیجئے گا مگر ہمیں تو ڈیڈ لائن سے پہلے ہر کام کرنا تھا، چاہے سفیر مقرر کرنے ہوں کہ نئے منصوبوں کے مکمل ہونے کے نمبر ٹانکنے ہوں۔

خلاصہ یہ ہے کہ یکم نہیں 3مئی کو ائرپورٹ کا افتتاح اپنے خوش بخت ہاتھوں سے کردیا گیا۔ ہم بھی میلہ دیکھنے گئے کہ ہماری فلائٹ نے اسکردو جانا تھا۔

پہلے تو 45 منٹ کے فاصلے کے بعد باہر نکل کر کمر سیدھی کی آنکھیں گھما کر دیکھا تو بڑی عالیشان طویل و عریض بلڈنگ نظر آئی۔ ابھی دو تین کائونٹر کھلے تھے۔ گرائونڈ ہوسٹس سے پوچھا ’’کیا بتائیں،پینے کیلئے پانی بھی نہیں، چائے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ تلاشی دینے کیلئے پردہ اٹھایا۔ دو خواتین کھڑی تھی ۔ پوچھا کھڑی کیوں ہو۔ بولیں۔ابھی بیٹھنے کیلئے کوئی اسٹول بھی نہیں ملا۔

یہی حال ٹوائلٹ کا تھا کہ وہاں بوڑھی عورت کھڑی تھی کہ اسے بیٹھنے کیلئے کچھ بھی نصیب نہ تھا۔ ہر طرف خالی دیواریں مجھ پر طعنے کس رہی تھیں۔ بڑا پاکستان کا کلچر لئے پھرتی ہو۔ ہمیں تو پردہ پوش کرو۔ لائونج میں آئے تو دو ریسٹورنٹ اور ان کی کرسیاں نظر آئیں۔ سوچا چلو ذرا بیٹھ جائیں۔ بیرا آیا کہ حکم، پوچھا چائے ہے تو کیا قیمت! کہا 290روپے فی کپ۔ اتنی مہنگی چائے کا سبب پوچھا، بولے دس لاکھ کرایہ ہوگا تو اس کے مطابق دام ہوں گے۔

خالی دیواریں ۔ خالی ہال۔ بھاں بھاں کرتی چھتیں، اپنے اپنے ڈبے اٹھائے سارے خاکروب اور بس۔ اس پر طرہ یہ کہ بے نظیر ائرپورٹ کی جگہ اس کو اسلام آباد ائرپورٹ کہہ دیا گیا ہے۔کچھ تو اخلاقیات ہوتی ہیں اور کچھ تو اپنے ملک کی تاریخی شخصیت کی توقیر ہونی چاہئے۔

یوں تو گزشتہ تین ماہ میں بنے بنائے کوئٹہ اور پشاور کے ائیرپورٹس کو دوبارہ اس لئے بنایا گیا کہ وہاں بھی اپنی نیم پلیٹ لگنی تھی۔

ویسے تو ایوب خاں سے لیکر موجود سیاست دانوں تک ہر ایک اپنے اپنے پیر کے حضور حاضری دیتے اور احکام و ہدایت بجا لاتےرہے ہیں اس زمانے تو یہ گھر کی بات ہوگئی۔

وہ شخص جو سرکاری ملازمت میں من چاہے کرتوت کرتا رہا، پھر مسلسل کوشش میں ہے کہ مولانا طارق جمیل کی پوزیشن لے لے،سب لوگ گجرات کے اس گھبرو کو بلوچستان کے ڈومسائل کے ذریعہ ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے اس طرح آنکھیں پھاڑے اور حیرانی سے دیکھتے رہےکہ جیسے آج سابق اسپیکر قومی اسمبلی کو کراچی کا نوحہ پڑھتے سن کر اب تو ان لوگوں پر دو حرف بھیجنے کو بھی جی نہیں کرتا کہ ان کا ضمیر ہےنہ ان لوگوں نے خدا کو جواب دینا ہے۔

یہاں میں سول سوسائٹی اور لبرل پارٹیوں کے لوگوں سے پھر استدعا کروں گی کہ جس جس  علاقے میں پارٹی بدل مہرے ظاہر ہورہے ہیں۔ وہاں کےلوگوں کو ان کے جرائم ، نالائقی بےوفائی اور ملک کے ساتھ مخلص نہ ہونے کے واقعات مثالیں دیکر، پمفلٹ بنا کر تقسیم کرنے کو اپنی قومی ذمہ داری سمجھیں۔

بہت سے ادارے ای۔میل کےذریعہ چل رہے ہیں علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر ان سب کو ایکسپوز کریں۔ میڈیا والوں کو تو اس لئے نہیں کہہ سکتی کہ ان کا کاروبار ایمان، تعلیم اور شعور نہیں ہے۔وہ تو نظیر اکبر آبادی کے آدمی نامہ کےمطابق، نہ ہماری معیشت کی دریوزہ گری پہ بات کرینگے اور نہ ہمارے60فیصد نوجوانوں کیلئے تربیت، جدید اوزاروں اور مشینوں کے ذریعہ اہتمام کریں گے ۔

ہمارا بھی وہی حال ہونے والا ہے جو اس وقت برادر عرب ملک کی خواتین کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ وہاں خواتین گاڑی اور موٹر سائیکل چلا سکتی ہیںمگر بول نہیں سکتیں ۔ بالکل اس طرح جیسےپاکستان کی سب بچیاں پرنس ہیری کی بیگم میگھنا کو سادگی میں دیکھ کر صرف حیران ہوئیں۔ یہ نہیں سوچا کہ ہماری دلہنیں بھی اگر ہاتھوں، پیروں میں مہندی تھوپ تھوپ کر اور مسکارے کی تہیں جمانے سےگریز کریں۔تو شاید شادیوں اور زندگی میں نفاست اور وقار داخل ہو جائے۔

دیکھو نا اٹلی کا وزیر اعظم، ٹیکسی پر بیٹھ کر، اپنی تقرری کاغذات، لینے آیا تھا۔ یا پھر اسپین جیسے ملک میں وزیر اعظم کو بے عزت ، غلط حرکتوں کے باعث نکالا گیا تھا۔ سارے ملک کے نوجوانوں تم لیڈر شپ بدلنے کیلئے متحد ہوکر ، مفاد پرستوں کے خلاف محاذ بنائو۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).