کاش عمران خان اپنی سمت کا تعین خود کرتے


رشتہ ازدواج میں بندھنے سے پہلے ہمارا ایک مغالطہ تھا۔ اور وہ مغالطہ یہ تھا کہ شادی کے بعد مرد اپنی مرضی کرنے میں آزاد ہوتا ہے۔ چالیس برس تک ہم نے اس مغالطے کے ساتھ زندگی بسر کی اور پھر ناگہانی آن ٹھہری۔ یعنی آسمانوں میں جس عفیفہ سے ہمارا جوڑا ڈالا گیا تھا وہ زمین میں تلاشِ بسیار کے بعد بالآخر ہمارے عقد مسنونہ میں تشریف لے آئی اور وہ شعر سچ ثابت ہو گیا کہ ؎ عقد سے کس کو رست گاری ہے آج ہم کل تمہاری باری ہے۔

اہلیہ کے آنے کے بعد ہمارے سر پر منڈلاتا نااہلی کا خطرہ تو دور ہو گیا لیکن اس شادی کے ٹھیک ایک دن کے بعد ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ گذشتہ چالیس برس سے ہم جس فکری مغالطے کا شکار تھے اب اس کی تطہیر کا وقت آن پہنچا ہے۔

جیسے پرانی گاڑی اسٹارٹ ہو کر ایک دھچکے سے آگے بڑھتی ہے ویسے ہی ہماری نئی زندگی کا آغاز اس دھچکے سے ہوا کہ وہ چالیس سالہ سنہری دور ختم ہو چکا جس میں ہم پلنگ سے زمین پر وارد ہونےکےلیے کسی بھی سمت کا بلا جھجھک انتخاب کرنے میں آزاد تھے۔ ہمیں یہ سمجھنے میں کچھ دیر لگی کہ اب خواتین ڈائجسٹ کی کہانیوں کے ہیرو کی طرح ہمارے پاس بھی ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ یہ کہ ہم نہایت تہذیب کے ساتھ پلنگ کی ایک سمت کا انتخاب کر لیں اور تاحیات اپنے اس فیصلے پر قائم رہیں۔ تاہم ہم نے یہ حق انتخاب اہلیہ کو تفویض کر دیا کہ وہ ہمارے لیے جو سمت چاہیں متعین کر سکتی ہیں۔ اور انہوں نے اس حق کا بھرپور استعمال کیا۔

پہلے دھچکے سے سنبھلنے کے بعد پتا چلا کہ ایک اور دھچکے کا سامنا تھا مجھ کو۔ ناشتہ کرنے کے بعد جب عادت قدیمہ کے تحت اپنے ہاتھوں کو کپڑوں سے رگڑ کر صاف کرنا چاہا تو یک دم جیسے کھلونے کی چابی ختم ہو گئی۔ اہلیہ سامنے بیٹھی مسکرا رہی تھیں تو ایسے میں اچھا نہیں لگا کہ اپنا ازلی گنوار پن فوری طور پر ظاہر کر دیا جائے۔ چناچہ ٹشو پیپر لیا اور نزاکت سے ہاتھ صاف کیے۔ پھر اٹھ کر ٹشو پیپر کو ردی کی ٹوکری کے سپرد کیا حالانکہ دل چاہ رہا تھا کہ وہیں بیٹھے بیٹھے ردی کی ٹوکری کا نشانہ لے کر ٹشو اچھال دیں۔ یہ تبدیلی کا نقطہ آغاز تھا۔ یعنی تبدیلی آ نہیں رہی تھی بلکہ تبدیلی آ گئی تھی۔ آنے والے دنوں میں پے درپے ہماری عادتوں پر ضرب لگتی گئی اور تبدیلی پر تبدیلی آتی چلی گئی۔

غالباً کچھ ایسی ہی تبدیلی اس نعرے کے موجد عمران خان کی زندگی میں بھی آ چکی ہے۔ عمران خان اپنی تباہ کن باؤلنگ کے باوجود اپنے کرکٹ کیریئر میں ہیٹ ٹرک کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے مگر یہ کارنامہ انہوں نے اپنے تاب ناک ازدواجی کیریئر میں کر دکھایا۔ پہلی شادی کی بوجوہ ناکامی کے بعد ایک طویل مجرد زندگی گذار کر 2014 کے اواخر میں وہ ایک تبدیلی لے کر آئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ تبدیلی پائیدار ثابت نہ ہو سکی۔ 2018 کے آغاز میں ایک بار پھر تبدیلی نے عمران خان کے گھر کا راستہ دیکھا ہے۔ اور ہم اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں صدق دل سے یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ عمران خان کی زندگی میں بھی وہی تبدیلی آئی ہے جس طرح کی تبدیلی ہماری زندگی میں آئی تھی۔ ؎ روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے۔

اکثر مرد اپنی زندگی میں ایک نیک بیوی اور ایک سچے مرشد کی پیروی کی خواہش رکھتے ہیں۔ انفرادیت پسند عمران خان نے یہاں بھی کمال کر دکھایا اور نیک بیوی اور سچے پیر کو ایک ہی وجود میں مجتمع کر لیا۔ اب چونکہ ان کی اہلیہ ایک پیرنی بھی ہیں چناچہ خان صاحب رن مریدی کو پیری مریدی کے پردے میں چھپا کر فخر سے اہلیہ کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔ اور انہی نقوش پا پر چلتے چلتے کبھی وہ برہنہ پاؤں سرزمین مقدس پر عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں تو کبھی برہنہ پاؤں پاک پتن میں بابا فرید شکر گنج کے مزار کی چوکھٹ پر عقیدت سے لبریز بوسے دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ حاسدین ان کی تیسری شادی اور ان کے روحانی تجربات کو ان کی کسی بھی قیمت پر حکومت حاصل کرنے کا پاگل پن قرار دیتے ہیں۔

ہمارا شمار عوام میں ہوتا ہے۔ ہماری زندگی میں آنے والی تبدیلی سے سوائے ہماری ذاتی زندگی کے اور کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ عمران خان مگر ایک عام آدمی نہیں ہیں۔ وہ اس قوم کے مقبول راہ نما بن چکے ہیں اور مستقبل میں حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کی زندگی میں آنے والی تبدیلی کا اثر پوری قوم پر پڑ سکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر عمران خان اپنی سمت کا تعین خود کرتے تو وہ اپنے پلنگ سے اپنی مرضی سے اتر سکتے تھے۔ اگر راہ نما اپنے پلنگ سے اپنی مرضی کی سمت سے نہ اتر پائے تو وہ اپنی قوم کے دلوں میں کیسے اتر سکے گا؟ راہ نما اگر اپنی سمت کے تعین کرنے کا اختیار دوسروں کو دے دیں تو پھر ایک وقت آتا ہے کہ پوری قوم کی سمت تبدیل ہو جاتی ہے۔ اور یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اگر قوم کی سمت دوسروں کی مرضی سے تبدیل ہو جائے تو منزل کے نشان گم ہو جایا کرتے ہیں۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad