اپنا حلقۂ ہے حلقہ زنجیر


اندرون لاہور کے کوچہ کمان گراں میں جب ملنگی نے آنکھ کھولی تو گھر میں اداسی، یاسی و غربت کی لا متناہی چادر پہرہ زن تھی۔ شعور کی منزلیں بھی طے ہوتی رہیں اور لا شعور میں بھوک بھی بڑھتی رہی۔ دو وقت کی روٹی کی خاطر جگہ جگہ خاک چھنتی رہی۔ کبھی محفل کی جوتیوں کے اوپر کبھی جوتیوں کے نیچے گویا۔ کبھی عرش پر کبھی فرش پر، کبھی اُن کے در کبھی دربدر۔

کہتے ہیں ملنگی کے بڑے سب ٹھاٹ لٹا پرانی دلی سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ سنا ہے ملنگی کا باپ ادھڑتی عمر تک اپنے پرکھوں کی جائیداد کا کلیم کرتے گزرا۔ جب وہ محکمہ بحالیات جاتا تو بابو لوگ اسے ازراہ تفنن کہتے کچھ لگاؤ۔ ملنگی کے باپ کے پاس سوائے ان کے پاؤں کو ہاتھ لگانے کے کچھ نہ تھا۔ بابو لوگ بھی آگے سے اس کی داڑھی کو ہاتھ لگا کر کہتے “ بزر گو جاندی کرو “

پھر آہستہ آہستہ وہ بھی نئے ماحول و حالات آشنا ہوگیا۔ سچ تو یہ ہے پیٹ کی آگ سے بڑی کوئی آگ نہیں۔ وقت بھی چلتا رہا سبک اور تیز۔ ملنگی کے باپ کا پہلا اور آخری عشق پاکستان تھا۔ مشہور قصہ ہے ملنگی کا باپ منٹو پارک کے اس جلسے میں شریک جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ ساری زندگی احباب کو قیام پاکستان کے قصے سنایا کرتا۔ کبھی قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے کا واقعہ کبھی حکیم الامت کے ساتھ ہاتھ ملانے کی باتیں۔ ملنگی کا باپ 1965 کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر اپنا مشہور زمانہ نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ بلند کرتے کرتے اپنی جان نذر کر گیا۔
غریب کب پیدا ہوتا ہے۔ کب بچپن کہاں جوانی کچھ پتہ نہیں چلتا۔ اس راہ میں مقام ویسے ہی بے محل لیکن اکثر یہ لوگ بڑھاپے کے بستر پہ مقام ومحل پذیر ہوتے ہیں۔

حالات نے کروٹ لی ملنگی چھ بچوں کا باپ اور بھٹوصاحب اپنے جوبن پر۔ ملنگی سارا دن روٹی کپڑا اور مکان کی تگ و دو میں سرگرداں۔ بھٹو صاحب کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان ملنگی اور اس قبیل کے لوگوں کو یہ نعرہ دل کی آواز لگا۔ یہ تو وہ ندا غیبی تھی جس کی خاطر ملنگی دن رات ایک کیے ہوئے۔ یہ نعرہ اسے تلاطم میں سفینے کی طرح لگا۔ ا لاؤ کو لکڑی اور لکڑی کو الاؤ مل گیا۔

ملنگی دیوانہ وار بھٹو کا مداح ہوگیا۔ چراغ سحر کو نجم سحر جانا۔ ملنگی خاندانی نعرہ ساز، نعرہ زن سو یہی ہنر اس کی پہچان بن گیا۔ جس رات موچی دروازے میں بھٹو صاحب نے جلسہ کیا ملنگی نے نعروں سے میدان مار لیا۔ طارق سٹیج سیکریٹری، معراج خالد، حنیف رامے، مصطفی کھر، ڈاکٹر مبشر، شیخ محمد رشید اور بھٹو کا سحر اپنی جگہ لیکن۔ ملنگی کے نعروں کا کوئی جواب نہیں۔ ہر کوئی کہتا ایتھے رکھ ملنگی۔ رات نوں راج ملنگی دا۔ دلی، یکی، شیرانوالہ، موچی، شاہ عالمی، روشنائی، ٹیکسالی، لوہاری، مستی، کشمیری، بھاٹی، اکبری، موری غرض ملنگی کے نعروں سے ہر در دروازہ گونج اٹھا۔

بھٹو دے نعرے۔ روٹی کپڑا اور مکان۔ بھٹو دے نعرے۔ جیوے جیوے۔ بھٹو دے نعرے۔ روٹی کپڑا اور مکان۔ الیکشن کی رونق جلسوں کی گہما گہمی لوگ ملنگی کو نعرے لگوانے کے لیے گھر لینے آتے۔ کبھی تو سالم تانگہ بھی بھیج دیتے۔ ملنگی کو لوگ اترن بھی دیتے اور جلسوں میں روٹی بھی ملتی۔ یوں روٹی اور کپڑا ملنے لگا۔ ملنگی کچھ دال روٹی چھپا چرا کر اپنے بچوں کے لیے بھی لے آتا۔ اس زمانے میں لوگوں بھی کچھ وضع تھی۔ ملنگی روٹی چراتا تو کوئی ہاتھ نہ پکڑتا۔ کوئی خوش ہوکر تھوڑی بہت مٹھی بھی دبا دیتا۔ جب تک جلسوں کی رونق رہی روٹی کپڑا ہر کس و ناچار چلتا رہا۔

بھٹو صاحب مسند نشین کیا ہوئے۔ الیکشن کے جلسے نہ رہے۔ جلسے ٹھنڈے ہوئے تو ملنگی کا چولہا بھی مردے کی نبض کی طرح ٹھنڈا ہوگیا۔ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔ ملنگی جگہ جگہ مارا مارا پھرتا کبھی کسی ایم این کے در پر کبھی دوسرے ایم پی اے کے دروازے پر۔ وہ لوگ جو ملنگی کے لیے سالم تانگہ بھیجا کرتے تھے اب مسند نشین ہو کر اپنی اگلی نسلوں کے لیے روٹی کپڑا اور مکانوں کا بندوبست کر رہے تھے۔ سب کوٹھیوں کے پہرے داروں کو حکم تھا ملنگی کو باہر ہی سے چلتا کریں۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔

ملنگی جیالا بھٹو پیپلز پارٹی کا تو شیدائی رہا لیکن پہرے داروں سے نالاں۔ یہ جان بوجھ کر مجھے صاحب سے ملنے نہیں دیتے۔ ورنہ صاحب تو مجھ سے بڑا پیار کرتے ہیں۔ بھٹو صاحب رخصت ہوئے تو ملنگی نے ضیائی صعوبتیں سہہ وہی پرانی امیدیں محترمہ بینظیر سے باندھ لیں۔ بینظیر جب لاہور آئی تو ملنگی نے پھر سے سماں باندھ دیا۔ نعروں کی برجستگی روئیں روئیں میں سرایت کیے جاتی تھی۔ بینظیر تخت نشین ہوئی تو پھر وہی پرانے زمانے لوٹ آئے۔

ہفتوں چولہا ٹھنڈا۔ پہروں فاقوں کا پہرہ۔ جیالا کہاں مانتا ہے۔ دل کی حیرانی نہیں جاتی۔ حالات کی پریشانی نہیں جاتی۔ پھر بھی خوش گمانی نہیں جاتی۔ اک جلسے میں ملنگی زخمی ہوا۔ کئی ماہ بستر نشین رہا۔ ملنگی کا بیٹا گلو باپ کے علاج کی خاطر مارا مارا پھرتا رہا لیکن اس کی داستان حسرت کیا لکھوں۔ ملنگی کی وصیت تھی اسے پیپلز پارٹی کے پرچم میں دفن کیا جائے۔ 1995 میں جب ملنگی راہ عدم کو ہولیا تو کسی صاحب ثروقت نے کفن دفن کا انتظام کیا۔ نہ تو پارٹی کا کوئی بندہ آیا نہ ہی کوئی لیڈر نہ ہی پرچم۔

یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے
آواز د ے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آ گئے

باپ کا انجام دیکھ کر 1997 کے الیکشنوں میں ملنگی کے بیٹے گلو نے نون لیگ سے امیدیں وابستہ کرلیں۔ وہی حال دھمال چال ڈھال۔ میاں دے نعرے۔ میاں دے نعرے۔ آیا آیا کون آیا شیر آیا شیر آیا۔ میاں دے نعرے۔ آیا آیا کون آیا۔
شیر بار ہا آیا اور جنگل میں شکار کرتا رہا۔ تن پہ کپڑے تو پہلے ہی نہیں تھے اب روٹی کے ٹکڑے بھی گئے۔ ملنگی کا بیٹا اب خود کنبے کا سربراہ عید کی صبح فالج زدہ جسم لے کر اپنے تین بچوں سمیت سلام کرنے آیا۔ شاید فطر کا نصاب پوچھنے یا بتانے آیا۔ پھول سی بچی کا نام پوچھا مریم بینظیر، بیٹا بلاول حسین و حسن مرتضیٰ۔ کینسر زدہ بیوی موت کی منتظر۔ ملوک الحال۔ بیٹے کا بازو ٹوٹا ہوا۔ پتا چلا بچہ تندور سے روٹی چراتے پکڑا گیا۔ میں نے پوچھا گلو ووٹ کسے دو گے؟ ۔ بولا باؤ جو الیکشن والے دن چنگی روٹی کھلائے گا۔
جب تک اس معاشرے میں بھوک و افلاس محو رقص رہیں گے بریانی کی پلیٹ پر ووٹ ڈلتے رہیں گے۔

وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).