لاوارث بچوں کے شناختی کارڈ کا مسئلہ اور الیکشن


ہر عام انتخابات کی طرح حالیہ انتخابات 2018 میں بھی لاوارث یتیم بچے ماہی گیر اور کسانوں کی بڑی تعداد اپنا بنیادی حق رائے دہی استعمال کرنے سے قاصررہیں گے اس سال بھی الیکشن کمیشن اور ناں ہی وفاقی حکومت اس سلسلے میں کوئی قانون بنانے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ ہر الیکشن میں پریس ان معاملات کی نشاندہی تو ضرور کرتا ہے لیکن الیکشن گزر جان کے بعد یہ طبقات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہی ں ہوتے کراچی سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں سرکاری و نجی شعبوں میں غریب اور لاوارث بچوں کے سینٹر قائم ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں بچے بستے ہیں ان بچوں کے والدین ناں ہونے کی باعث ان کا قومی شناختی کارڈ نہیں بن پاتا

چند سال قبل تک یہ کہا گیا تھا کہ عبدالستار ایدھی یا پھر کسی بھی رفاہی ادارے کے سربراہ یا پھر ودر مملکت کے نام پر لاوارث بچوں کی ولدیت کا خانہ پر کیا جائے گا تاکہ پاکستان کے ان بے شناخت شہریوں کو ان کے قومی اور آئینی حق قومی شناختی کارڈ بنائے جا سکیں لیکن مناسب قانون سازی نہ ہونے کے باعث اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

یہ بچے شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث ناں صرف ووٹ دینے سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ بینک اکاؤنٹ اور تعلیمی اسناد بھی حاصل نہیں کر پاتے۔ عموما یہ بچے رفاہی اداروں میں قائم کردہ پرائمری یا پھر سیکنڈری اسکول تک ہی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں لیکن ہائی اسکول یا پھر یونیورسٹی پہنچنے کی عمر میں ہوتے ہیں تو شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات اعلی تعلیم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں اور یہ افراد ایک ناکارہ پرزے کی طرح معاشرے میں پھینک دیے جاتے ہیں۔

جس سے ملک ایک باشعور شہری سے محروم ہو جاتا ہے یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو جرائم پیشہ افراد اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرت ے ہیں ایک غیر سرکاری تنظیم کے سروے کے مطابق ملک بھر میں 2 لاکھ سے زائد بچے اپنے گھروں کو چھوڑ کر مختلف گلیوں چوراہوں پارکوں اور اور سڑکوں پر زندگی بسر کرتے ہیں ان ہی بچوں کی اگر ہم سرپرستی کرکے اسٹریٹ چائلڈ کی فٹ بال ٹیم بنائی تو ہم اسٹریٹ چائلڈ فٹ بال کے ورلڈ چمپئن بن گئے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ناں صرف ہم اسٹریٹ چائلڈ فٹ بال ٹیم کی سرپرستی کریں بلکہ حکومت ایسی قانون سازی کرے کہ ان اسٹریٹ چائلڈ کو ہنر مند اور ملک کے لئے کار آمد شہری بنا ئے پاکستان میں بلوچستان سے لے کر ٹھٹھہ بدین اور کراچی ساحل سمندر پر واقع ہے ناں صرف سمندر بلکہ کشمیر سے لے کر دریائے سندھ اور پنجاب کے پانچوں دریاؤں کے کناروں پر لاکھوں ایسے افراد موجود ہیں جن کا ذریعہ معاش پانی سے جڑا ہے۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں مچھیرے ماہی گیر بستے ہیں یہ ماہی گیر ملک کے لئے زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن اگر ان کی حالت زندگی پر اگر نظر ڈالیں تو وہ بہت ہی کسمپرسی کی زندگی گزار تے ہیں۔

تعلیمی ادارے اور بنیادی ضروریات نہ ہونے کے باعث لاکھوں کی تعداد میں ماہی گیروں کے بچے بنیادی انسانی حقوق اور تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جس میں سے ایک حق قومی شناختی کارڈ کا بھی ہے قومی شناختی کارڈ ناں ہونے کے باعث منتخب نمائندے ان بستیوں کی طرف آنا گوارا نہیں کرتے ہونا یہ چاہیے کہ الیکشن کے انعقاد سے بہت پہلے نادرا کی مہبائل گاڑیاں ان طبقات میں بھجوائی جائیں اور ان کی شناخت اور تصدیق کے لئے کچھ مناسب بندوبست لئے جائیں تاکہ یہ بندے شناختی کارڈ بنوا سکیں اور قومی شناختی کا رڈ کے حصول کے بعد اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے منتخب نمائندوں سے بنیادی سہولیات حاصل کر سکیں۔

پاکستان کی ترقی میں کسانوں کا کردار کلیدی ہے۔ کسان گندم بوتا ہے فصل اگاتاہے فروٹ لگاتاہے تب ہی ہم شہروں میں خوراک استعمال کرتے ہیں لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں کسانوں کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں لاکھوں کی تعداد میں کسان چھوٹے چھوٹے گاؤں میں پسماندہ زندگی گزارتے ہیں۔ نادرا کے دفاتر میں مختلف قسم کے اعتراضات لگا کر ان کے شناختی کارڈ بنانے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے تعلیم ناں ہونے شعور کی کمی اور اور اپنے شہری حقوق سے لاعلم ہونے کی وجہ سے یہ طبقات خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت خصوصی انتظامات کر کے ان دور افتادہ علاقوں میں قومی شناختی کارڈ بنانے کے لئے موبائل گاڑیاں وہاں بھیجے اور کسانوں کو قومی شناختی کارڈ دے دو سال قبل نادرا اور سندھ حکومت کے درمیان ایک تنازعہ کھڑا ہوا تھا جس میں نادرا نے سندھ حکومت کو بتایا تھا کہ 20 لاکھ سے زائد گاؤں دیہات کے شہریوں کے شناختی کارڈ بنائے گئے ہیں لیکن وہ کارڈ وصول کرنے نہیں آتے اس صورتحال میں نادرا کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی ٹیمیں تشکیل دیں جو مذکورہ کارڈ کے دیے ہوئے ایڈریس پر کارڈ پہنچانے کا بندوبست کرے۔ واضح رہے کہ پاکستان کا آئین ہر بالغ شہری کو ووٹ دینے کا یکساں حق دیتا ہے ان طبقات کو یہ حق نا دینے سے ہمارے معاشرے میں ووٹ ڈالنے کی شرح کم سے کم ہوتی جارہ ہے اس لئے قومی ادارے آگے بڑھیں اور اپنی قومی ذمے داری کو پورا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).