اے جبر کرم! اب اتنا برس۔۔۔


ہم ایک بہت شاندار قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک ایسی قوم سے جو یہ سمجھتی ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم تنزلی کا شکار ہیں۔ ہمیں ہر طرف خرابی ہی خرابی نظر آتی ہے کیونکہ ہماری قومی عینک کا نمبر خرابی بٹا خرابی ہے۔

ہم یہ علم رکھتے ہیں کہ ہمارے تمام ریاستی ادارے اپنا اپنا کام سرانجام نہیں دے رہے۔ ہمیں سرکاری دفتروں میں کام نہ ہونے یا رشوت کے بغیر کام نہ ہونے کی شکایت ہے۔ ہمیں اپنے اسپتالوں میں مسائل کی شکایت ہے۔ ہمیں اپنے اسکولوں سے شکایت ہے۔ ہمیں اپنی عدالتوں سے شکایت ہے۔ ہمیں اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے شکایت ہے اور ہمیں اپنے سیاست دانوں سے بھی شکایت ہے۔  ہمیں یہ یقین ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اپنا کام درست طریقے سے نہیں کر رہا بلکہ سرے سے کام ہی نہیں کر رہا اور ریاست کے امور اللہ توکل پر چل رہے ہیں۔

اسی لیے ہم ہر وقت ہر ایک کی غلطی کی نشان دہی کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی غلطیاں نہایت وضاحت کے ساتھ نظر بھی آتی ہیں اور ہم ان کے سب سے بڑے ناقد بھی بن جاتے ہیں اور پھر ہم ان غلطیوں کو درست کرنے کا حل بھی ایک سیکنڈ میں تجویز کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی ہمارے تجویز کردہ حل سے اتفاق نہ کرے تو ہماری آنکھوں میں خون اترتے بھی دیر نہیں لگتی۔ ہم دوسروں پر مخصوص مقاصد کے حصول، مخصوص نظریے کی ترویج اور غداری اور کفر کے فتوے ایک منٹ میں لگا دیتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت تک نہیں کرتے کہ کیا ہم یہ فتویٰ لگانے میں حق بجانب بھی ہیں یا نہیں۔

ہم ایک ایسی خواب زدہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو نرگسیت کی ماری ہوئی ہے اور ستر سال سے رو رہی ہے۔ ہمیں ہر وقت اس چمن میں ایک دیدہ ور کے پیدا ہونے کا انتظار ہے جو اچانک ایک دن نمودار ہو جائے اور پھر وہ جادو کی چھڑی گھمانا شروع کرے۔ جادو کی چھڑی گھومتی جائے اور مسائل حل ہوتے چلے جائیں۔ ہم اس رومانیت میں نا آئین کا خیال کرتے ہیں نا ہی ملک میں رائج قوانین کا۔ ہم اپنے متوقع دیدہ ور کو تمام ضابطوں اور اصولوں سے ماورا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا دیدہ ور کشتوں کے پشتے لگا دے۔ بدعنوان لوگوں کو ایک لمحے میں ان کے عہدوں سے فارغ کر دے۔ ان کو جیلوں میں سڑا دے بلکہ ان کے سر تن سے جدا کر ڈالے۔

ہمارا رونا دھونا جب عروج پر پہنچتا ہے تو پھر کوئی نہ کوئی دیدہ ور اس وطن میں پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ وہ دیدہ ور دیکھتے ہی دیکھتے مقبول عام بھی ہو جاتا ہے اور پھر قوم کی امیدوں کا بھاری بوجھ اٹھانے کے لیے اپنے کندھے بھی پیش کر دیتا ہے۔ پھر جس حساب سے ہم بربادی کا واویلا مچا رہے ہوتے ہے اسی حساب سے وہ دیدہ ور اقدامات اٹھانے کی سوچتا ہے۔ اور پھر ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ دیدہ ور اقدامات اٹھانے شروع کرتا ہے تو ہم اس کی مخالفت میں خم ٹھونک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

دیدہ ور آئین اور قانون کو مدنظر رکھے تو ہمیں مایوسی ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اگر وہ آئین اور قانون سے ماورا اقدامات اٹھائے تو ہمیں غش آنے لگتے ہیں۔ ہم اس پر نکتہ چینی بھی کرتے ہیں اور اس کا مضحکہ بھی اڑاتے ہیں۔ اسے “جے کانت شکرے” بھی قرار دیتے ہیں اور اسی سے مسائل کے حل کی توقع بھی لگا لیتے ہیں۔ ہم اسے ایک ایسا ہرجائی محبوب بنا لیتے ہیں جس کے ساتھ بھی نہ رہا جائے اور جس کے بغیر بھی زندگی کا تصور محال ہو جائے۔

ہم دل و جان سے چاہتے ہیں کہ کوئی ہمارے مسائل حل کر دے مگر ہم دل و جان سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ کوئی ہمارے مسائل کو ہاتھ تک نہ لگائے۔ یہ بڑی دلچسپ صورت حال ہے۔ ہم اس متضاد کیفیت کے اسیر ہو چکے ہیں کہ اگر کوئی ہمارے لیے کچھ نہ کرے تو ہمیں وہ برا لگتا ہے اور اگر کوئی ہمارے لیے کچھ کرے تو وہ ہمیں زیادہ برا لگنے لگتا ہے۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم آخر چاہتے کیا ہیں۔ دنیا ہمیں جس نظر سے دیکھ رہی ہے ہمیں اس کی کچھ خبر نہیں ہے۔ خبر تو کیا، ہمیں پروا بھی نہیں ہے۔

انگریزی کا ایک محاورہ ہے “بلیسنگ ان ڈسگائز” اس کا اردو میں قریب ترین ترجمہ غالباً “جبر کرم” ہو سکتا ہے۔ ہماری اپنی بے نوری پر مسلسل گریہ و زاری کی بدولت ہمارے وطن میں ایک بار پھر ایک دیدہ ور پیدا ہو چکا ہے اور موجودہ دیدہ ور کے اقدامات کو “جبر کرم” ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے میں یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ اے “جبر کرم” اب اتنا برس، اتنا برس کہ ہمارے مسائل حل ہو جائیں۔ ورنہ رونے کے عادی تو ہم ہیں ہی، کسی اور دیدہ ور کے لیے پھر سے رونا شروع ہو جائیں گے۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad