پان پان کرگیا مجھے، شہباز کا بیان


رواں ہفتے مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کا تبصرہ برائے کیرانچی اور پان ٹاک آف ٹاؤن بنارہا، ، اخبارات سے سوشل میڈیا اور سوشل میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا تک بھانت بھانت کے تبصروں سے گونجتا رہا۔ شہباز شریف کے بیان کو کراچی کی تہذیب و ثقافت پر اس طرح حملہ قرار دیا گیا گویا شہر کی ساری تہذیب پان چبانے سے لے کر پیک تھوکنے کی حد تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہو اور تہذیب و ثقافت کے دیگر مراحل اہل کراچی برسوں پہلے ہی طے کر چکے ہیں۔ ان پر ذرا بعد میں بات کریں گے پہلے سیاسی پنڈتوں کا ذکر ہوجائے تو ان میں وہ بھی شامل تھے جنہوں نے گزشتہ دس برسوں میں اقتدار کا پاندان اپنے ہاتھوں میں رکھ کر عوام کو چائنا کٹنگ کا چونا اور کچرے اور گندگی کا کتھا لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لسانیت اور سیاسی تعصب کا زہر سے لبریز تمباکو گزشتہ دو دہائیوں سے اس شہر کےبچے بڑے سے کو پلایا گیا۔

یہ الگ بات ہے کہ اس نشہ کو کچھ اپنی مرضی اور باقی کو زبردستی کروایا گیا اور کراچی والے ”ٹک ٹک دیدم نہ کشیدم ”کی جیتی جاگتی تصویر بنے رہے۔ دوسرے سیاسی عالم پناہ کراچی والوں کو دس برس کی“انتھک محنت ” کے بعد دس بسیں دے کر جیسے ”خوشبو دار قوام ” کا مزہ دے دیا۔ ساتھ ہی گرین لائن سے اورنج لائن کی لال بتی کو تیز چونا کی مانند کراچی والوں کا منہ زخمی کر کے خون تھکوا تے رہے ہیں۔ اور ایوانوں میں بیٹھے پنواڑی معصوم عوام کو یہ سب میٹھے پان کے دھوکے میں کھلانے کے لیے زور ڈالتے رہے۔

شہباز شریف نے ایک صحافی کی غلطی کی تصیح کیا کردی، عوام و خواص سب کو پان کے ساتھ شہر کی تہذیب اور ثقافت بھی خطرے میں نظر آنے لگی۔ وہ ثقافت جو شہر کے کونے کھدروں، دیواروں اور سڑکوں پر پیک کی گلکار یوں سے سرخ نظر آتی ہے۔ پان اس شہر کی ثقافت ہے تو یہ بھی یاد کریں کہ اس کا اہم جز ”اگالدان“ بھی ہوا کرتا تھا جو پان کھانے والے کو جگہ جگہ پیک پھینکنے سے روکے رکھتا تھا۔ تمباکو کھانے والے پان کے شوقین جتنا خیال پاندان کا رکھتے اتنا ہی اگالدان کا بھی رکھتے تھے۔ لیکن وہ گزرے وقت کی بیتی ثقافت تھی، آج کی ثقافت تو یہ ہے منہ میں گٹکا، زبان پر گالی اور دے ماری سڑک پرگلکاری۔ الاماشا اللہ ایسے بھی تہذیب یافتہ ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھے ہیں جنہوں نے فراٹے بھرتی بس، منی بس، رکشہ، ٹیکسی یا قیمتی کار کا شیشہ اتارا اور تجریدی فن پارے کا نادر نمونہ ہوا میں اچھال دیا۔ ان کی اس حرکت نے سڑک پر کسی دوسرے کا کیا حال ہوا اس کی ان کو کوئی فکر نہیں۔

کہتے ہیں کسی شہر کے مہذب ہونے کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے ٹریفک کے نظام کو دیکھ لیں، ہم جو خود ساختہ پڑھے لکھے، تہذیب یافتہ اور شعور رکھنے کا دعوے دار ہیں“سڑک پر نکلتے ہی ایسا برتاؤ کرتے ہیں کہ ساری تہذیب، ثقافت اور تربیت چیخیں مار کر بھاگ جاتی ہے۔ سگنل کی سرخ بتی تو جیسے تیز رفتاری سے گزرنے کا اشارہ ہو۔ اشرافیہ کے لیے ٹریفک سگنل پر رکنا توہین اور اگر کوئی پولیس سپاہی ان کو روکنے کی غلطی کر بیٹھے تو وہ اس کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ جیسے بیچارے سپاہی نے ان کو روک کر قانون توڑا ہو۔ گاڑی چلانے والا ”ہائی بیم“ کو سڑک پر سامنے سے آنے والے اور ان کے آگے چلنے والے کو اندھا کر کے ان کی راہ سے ہٹانے کے ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ کسی وحشی جانور کی مانند چنگھاڑتے ہیوی ٹریفک کے پریشر ہارن سڑک پر دوسروں کی سماعتوں کو لہولہان کرتے ہیں۔ پیدل چلنے والے کودیکھ کر ایسے رفتار کی مار مارتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ ڈنکے کی چوٹ پر سیدھے رستے پر الٹا چلتے ہیں کوئی سمجھانے کی کوشش کرے تو آنکھیں نکال کر دانت کچکچا کر اپنی آواز بڑھا کر اسی کی طبعیت صاف کر دیتے ہیں۔

صبح اور دوپہر کے اوقات میں تعلیمی اداروں کے باہر جو برتاؤ ایک دوسرے سے کرتے ہیں اسے دیکھنے کے بعد تو خود پہلی جماعت میں ہم ہی کو داخلے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ہم، جی ہاں ہم اہالیان کراچی، اپنی کس بات اور کس انداز پر ہم خود کو تہذیب یافتہ گردانتے ہیں؟ دوسروں کو تکلیف میں ڈال کر خوش ہونے اور سامنے والے پر دھونس دھمکی سے دبانے پر؟ قانون شکنی پر فخر کرنے اور اسے اسٹیٹس سمبل سمجھنے کو؟ اپنی جہالت سے کسی شریف انسان کی بے عزتی کرنے کو؟ شہباز شریف نے صرف کیرانچی کی تصیح کی اور پان پر ایک تبصرہ کردیا تو ہمارے زعم کے نازک آبگینے کرچی کرچی ہوگئے ”بے عزتی“ خراب ہوگئی؟ بھائی صاحب، آپ اپنی جھوٹی انا اور دکھاوے کی عزت کی تسکین کے لیے شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بنائیے، معافی کا مطالبہ بھی ضرور کیجیے، لیکن ایک بار اپنے گریبا نوں میں جھانک کر دیکھیے کہ ہم اس شہر کی کس طرح بے حرمتی کر رہے ہیں۔ شہر کے درو دیوار، پارک، اسپتال، دفاتر اور گھر سب کو پان کی پیک سے غلیظ کرنے پر معافی مانگنے کی ہمت پیدا کریں، اپنے ہی گھر، گلیوں اور شاہراہوں پر کوڑا کرکٹ پھینک کر گندگی کے ڈھیر لگانے پر۔ بلکل اسی طرح جیسے شہباز شریف سے مطالبہ کر رہے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).