شام کے معذور مجبور نہیں


سوریہ (شام) کے بحرِ متوسط کے ساحل سے آداب۔ یہ خادم تین روز سے اس حسین مقام پر ایک دفتری تربیتی اجتماع کے سلسلے میں موجود ہے۔ شہر کا عربی نام ”اللاذقیہ“ ہے مگر غالبا رومن ماضی کی یادگار کے طور پر ”لطاقیہ“ بھی کہلاتا ہے۔ یہ رواج بلاد الشام میں عام ہے چنانچہ لبنان کے شہر ”صیدہ“ اور ”جبیل“ علی الترتیب ”طِیر“ اور ”بیبلوس“ کے ناموں سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ علاقہ جنگ کی تباہ کاریوں سے نسبتاً محفوظ رہا لیکن دیگر علاقوں سے پناہ لینے کی غرض سے آنے والوں کے ازدحام کی وجہ سے اس کی مکانیت، روزگار کی فراہمی اور شہری سہولیات مثلا تعلیم، صحت اور ماحولیات پر کافی بوجھ پڑ گیا ہے۔

باقی ملک کے مانند یہاں بھی آبادی نسلی اور مذہبی اعتبار سے ملی جُلی ہے۔ یہاں پہلی بار آرمینی پروٹسٹنٹ اور آرمینی کیتھولک لوگوں کی موجودگی کا پتا چلا ورنہ اس سے قبل اس خادم کا خیال تھا کہ تمام آرمینی لوگ قدامت پسند یعنی آرتھوڈاکس مسیحی ہوتے ہیں۔ آرمینی لوگوں کا اس علاقے سے ربط ضبط صدیوں پرانا ہے لیکن سب سے بڑی تعداد یہاں سلطنت عثمانیہ کے آخری سالوں میں آئی جب انہیں ایک منظم قتلِ عام کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی تاریخی آرمینی علاقوں کا اسّی فی صد ترکی کے قبضے میں ہے اور آرمینیوں کی محبوب ترین قومی نشانی کوہِ ارارات جسے ہم داستانِ نوح کے سیاق میں کوہِ جودی کے نام سے جانتے ہیں، پورے آرمینیا سے نظر آتا ہے مگر ہے ترکی کا حصہ۔

جیسا کہ ہمارے ہاں خود کو پختون کہنے والوں کا نام دوسروں کے نزدیک پٹھان ہے، ویسے ہی آرمینیا کے رہنے والے خود کو ”ہائیک“ اور اپنے وطن کو ”ہایاستان“ کہتے ہیں۔ یہ خادم ان مٹھی بھر پاکستانیوں میں شامل ہے جنہیں آرمینیا یا ہایاستان کے خوبصورت ملک کی سیاحت کا موقع ملا ہے۔ دراصل آرمینیا کا اپنے ہمسایہ ملک آذربائیجان سے ”نگورنو کاراباخ“ نامی علاقے سے جھگڑا ہے جس میں تُرکی فریق ثانی کا پشت پناہ ہے۔ سو ترکی سے اظہار یک جہتی کے چکر میں ہم نے آرمینیا سے رسمی سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے ہیں۔ آرمینی ناموں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کے خاندانی نام کے آخر میں ”یان“ کا لاحقہ لگتا ہے۔ اس کا مطلب ”بیٹا/ اولاد“ ہے جیسا کہ ہمارے ہاں پشتونوں میں ”زئی“ اور ترکوں میں ”اوغلو“۔ اہلِ ذوق کے لیے شاید بی بی کِم کارداشیان کا نام اجنبی نہ ہو۔

خیر، بات ال لاذقیہ کی ہو رہی تھی اور حسبِ عادت آرمینیا کے مماس پر چلی گئی۔ اس اجتماع میں دن بھر ٹکا کر محنت ہوتی ہے لیکن شام کو فراغت، جو ہم اور ہمارے ہم کار نیلے سمندر کے ساحل پر اہلِ شام کو لباسِ مجاز میں دیکھتے گزارتے ہیں، بلکہ لباس بھی براے بیت لکھ دیا ہے کہ معاملات مجاز کی آخری سرحد پر، حقیقت منتظر کے آس پاس چلے جاتے ہیں۔ ہاے اس چار گرہ کپڑے کی قیمت غالب۔ ”ہم سب“ کے کچھ قارئین کی نازک طبعی کے پیش نظر یہ خادم اس کا تصویری ثبوت پیش کرنے سے گریز کرے گا۔ جن احباب کا تصور کم زرخیز ہو وہ انٹر نیٹ کی مدد لے کر اس میں رنگ بھر سکتے ہیں۔ تفنّن بر طرف، غروب آفتاب کا جیسا شعلہ بار حُسن اس ساحل پر نظر آتا ہے، اس کے مقابلے میں ”مجاز“ میں کوئی جاذبیت نہیں۔

اس خادم نے اپنے سستے موبائل فون سے کچھ کوشش کی ہے مگر وہ سہ الابعادی کیفیت پردہ تصویر پر لانا ناممکن ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ”سورج نے جاتے جاتے، شامِ سیہ قبا کو۔ طشتِ افق سے لے کر لالے کے پھول مارے“ بے طرح یاد آتا رہا۔ ہمارے دفتر والوں نے شاید ان دنوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا تھا چونکہ یہاں سورج ڈوبا اور وہاں اُفق پر پورا چاند نمودار ہوگیا، مگر سچ پوچھیں تو افریقہ کے ساحلوں پر بدرِ کامل کا طلوع ایسا سحر انگیز ہوتا ہے کہ باید و شاید۔ یہاں بھی دلکش تھا مگر وہ مولوی مدن کی سی بات نہ تھی جو سالِ گزشتہ صومالیہ میں اس خادم کو ہر ماہ یک گونہ کیفیتِ جنون میں مبتلا کر دیتی تھی۔ ”اپنے تو دل کے مشرق و مغرب ’اس‘ کے رخ سے منور ہیں۔ بے شک تیرا رُوپ بھی کامل، بے شک تو بھی تمام ہے چاند“۔

احباب سے گزارش ہے کہ مضمون سے منسلک دو نوجوانوں کی تصویر کو غور سے دیکھیں۔ ان میں جو طویل القامت باریش نوجوان ہے، اس کا نام احمد ہے۔ اصلا فلسطینی مہاجر ہے اور پیدائشی طور پر سماعت و گویائی سے محروم ہے۔ دوسرا نوجوان بدر ہے۔ شام کا شہری ہے اور ایک حادثے میں دونوں ٹانگوں سے مکمل معذور ہو چکا ہے۔ شام کی خانہ جنگی میں معذورین کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جو کسی بھی فریق کی گولا باری، بارودی سرنگوں یا دھکم پیل کے شکار ہوے ہیں۔ حکومتی سطح پر انہیں امدادی اشیاء مثلا پہیوں والی کرسی، مصنوعی اعضاء، بیساکھی وغیرہ کی فراہمی کی کوشش کی جاتی ہے اور بازار میں دستیاب امدادی اشیاء بھی سرکاری زرِ اعانت کے سبب ارزاں نظر آئیں۔

ہمارے ادارے کا خیال ہے کہ اس قسم کی امداد ضروری ہے مگر ناکافی ہے۔ معذور افراد کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے لیے انہیں نئے ہنر سکھانے، جسمانی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی خراشیں مندمل کرنے اور منڈی میں روزگار دینے والے اداروں کو انہیں مناسب مواقع دینے کی تبلیغ بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، ہمارا ادارہ کوشش کرتا ہے کہ تعمیر نو میں کھڑی کی جانے والی تمام عوامی عمارتوں میں معذور افراد کی رسائی کے لیے خصوصی انتظامات ہوں۔ ویسے یہ دیکھ کر یہ خادم بہت متاثر ہوا کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اس حوالے سے کافی آگہی پہلے سے موجود ہے اور اکثر دواخانوں اور چند ریستورانوں میں سیڑھی کی ریلنگ کے ساتھ بجلی کی موٹر لگی ہوتی ہے جس سے پہیوں والی کرسی کو منسلک کیا جاسکتا ہے۔

ہمارے ادارے کا بنیادی ہدف تو جنگ سے معذور ہونے والے افراد کی بحالی ہے، مگر اس سلسلے میں معذوروں کے بیچ کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ سو چند ماہ قبل ہمارے ادارے کے زیرِ اہتمام فوٹو گرافی کی تربیت کا انعقاد ہوا۔ اس میں یہ دونوں نوجوان بھی بصد شوق چلے آئے۔ انہوں نے اس فن میں چابک دستی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ کہنہ مشق تربیت کار بھی بہت متاثر ہوئے۔ چنانچہ تربیت کے اختتام پر ایک خصوصی عطیے کے ذریعے انہیں جدید کیمرے، عدسے اور کمپیوٹر بھی دیے گئے۔ ہمارے تربیتی اجتماع کی تصویر کشی کے لیے بھی ادارے نے ان دونوں کی خدمات حاصل کیں۔

انہیں ساتھ کام کرتے دیکھنا ایک خوش کن اور ولولہ انگیز تجربہ ہے۔ پرانی رفاقت کے سبب، دونوں یک جان و دو قالب ہیں۔ بدر میاں نچلے زاویے سے تصویر کھینچنے میں طاق ہیں جب کہ احمد میاں اپنے قد کا فائدہ اٹھاتے ہوے اوپری سمت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ جب ہم فراغت کے اوقات میں ساحل پر جاتے ہیں تو لوگوں سے بات چیت بدر میاں کرتے ہیں اور انہیں کرسی سے اتار کر سمندر کے اتھلے پانی میں بٹھانے کا کام احمد میاں کے ذمے ہے۔ جب کوئی تکنیکی مشورہ دینا ہو تو ہمارے ہم کار بدر سے کہتے ہیں جو اپنی اختراع کردہ اشاروں کی زبان میں احمد کو سمجھا دیتے ہیں۔

ہمارے ہم کاروں نے بتایا کہ بدر معذور افراد کی قومی باسکٹ بال کے رکن ہیں اور اس شعبے میں معروف ہیں۔ ان دونوں کی چونچالی اور خوش طبعی کو دیکھ کر یقین کیجیے، شکرگزاری سے دل لبریز ہوگیا۔ ہم آپ معمولی سر درد کو مسئلہ بنا کر اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر پڑ جاتے ہیں۔ یہ لوگ تمام تر معذوری کے باوجود امید کی شمع روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ایسا جبھی ممکن ہے کہ معاشرہ ان لوگوں کے حوالے سے اپنی ذمہ واری محسوس کرے اور اسے نبھائے بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).