ناانصافی طے شدہ معاملہ نہیں ہوتی


\"wajahatخدا بہتر جانتا ہے کہ کس ستم ظریف نے پچھلی صدی کے اردو نصاب میں ’مدیر کے نام نمونے کا مراسلہ‘ شامل کیا تھا۔ واللہ آج بھی عین مین اسی نمونے پر اردو اخبارات میں رائے اور تجزیے شائع کئے جاتے ہیں، مجال ہے جو سو برس کے عرصے میں ڈکشن اور استدلال میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔ رائے عامہ کی بیداری اور سیاسی شعور کی حقیقت یہی ہے۔ ایک تشویش تو یہ ہے کہ حالات کب ’ٹھیک‘ ہوں گے۔ اس میں ڈھکا چھپا زعم یہ ہے کہ ہم حالات ’ٹھیک‘ ہونے کا معیار سمجھتے ہیں، مشکل یہ ہے کہ کم بخت حالات ہماری طے کردہ صورت اختیار کرنے کا نام نہیں لیتے۔ فکر مندی کا ایک انداز یہ ہے کہ ’قوم کب جاگے گی‘۔ قوم کی تصویر کچھ ایسی بنتی ہے کہ ایک جواں سال خاتون چادر اوڑھے گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے اور محترم دانشور ہاتھ میں گھڑی پکڑے بے چینی سے ٹہل رہے ہیں۔ ’کب جاگے گی؟ دن چڑھ آیا، ادھرمجھے کھیتوں کو پانی دینے جانا ہے۔ خواجہ حالی نے طعنہ لکھ بھیجا ہے ’کچھ کر لو نوجوانو، اٹھتی جوانیاں ہیں‘۔ حضرت اقبال کے ہاں سے دعوت آئی رکھی ہے ’کبھی اے نوجواں مسلم، تدبر بھی کیا تو نے…. وغیرہ، وغیرہ….“۔

لطف یہ ہے کہ قوم کے جاگنے کا انتظار کرنے والے قوم کی تعریف ہی پر متفق نہیں۔ قبائلی علاقوں میں ’اقوام‘ کا جرگہ منعقد ہوتا ہے ۔ پنجاب میں ارائیں اور جاٹ ’اقوام‘ بستی ہیں۔اسلام آباد میں قوم کا مفہوم اور ہے، کوئٹہ اور حیدرآباد میں قوم سے کچھ اور مراد لی جاتی ہے۔ ایک ’قوم‘ نیل کے ساحل سے کاشغر تک آباد ہے اگرچہ ان دنوں بوجوہ کاشغر کے ذکر سے گریز کیا جاتا ہے۔ 1926ءمیں ہمیں اماکن مقدسہ کا مقدمہ درپیش تھا، اب حرمین شریفین کی فکر لاحق ہے۔ تب خلافت کے لئے ترکی کو ہجرت پیش نظر تھی، اب جہاد کے لئے عراق کے سفر پر کمر باندھی ہے۔ تب امرتسر اور فیروز پور میں ڈکٹیٹر مقر کئے جاتے تھے، اب آئیڈیالوجی کی ما بعد ساختیات مد نظر ہے۔ ایک تماشا یہ بھی ہے کہ عظمت رفتہ کی بحالی کے آرزو مند تاریخ کا حوالہ آتے ہی بلبلا اٹھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’پرانی باتیں چھوڑئیے، یہ بتائیے کہ آج کرپشن کیسے ختم کی جائے ۔ نیز یہ کہ بار بار منتخب ہونے والے حکمرانوںسے کیسے نجات پائی جائے۔ صاحب، ہم چار آمریتوں میں ہمیشہ نیا چہرہ سامنے لائے۔ اک جیسا انجام تھا اپنا ہر طغیانی میں…. آپ کو نئے چہرے کا ایسا ہی شوق ہے تو اردو شاعری میں اساتذہ نے سراپے کا مضمون باندھ رکھا ہے ، وہ مال آپ ہی کے لئے بندھا رکھا ہے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ آپ آج کے حالات سے مطمئن نہیں تو اس کا مطلب یہ کہ ماضی میں کہیں کچھ بھول ہوئی ہے، اس کی تحقیق سے گریز کیونکر ممکن ہے۔ اس پر ارشاد ہوتا ہے کہ ’طے شدہ امور‘ کو چھیڑنے سے گریز کیا جائے۔ طے شدہ امور یعنی چہ؟ اس پر بھبکی آمیز لہجے میں تنبیہ کی جاتی ہے کہ آپ قرار مقاصد سے چھیڑ خانی کرنا چاہتے ہیں۔ حضور، ایسی بھی کیا نازک مزاجی، آپ تو عصر حاضر سے زور آزمائی پر نکلے ہیں ، تاریخ سے نظریں چرانا آپ کو زیب نہیں دیتا۔ قرار مقاصد آئین کی شق 2 (الف) کے مطابق ہمارے دستور کا حصہ ہے لیکن اس کی خوبیوں اور خامیوں پر مکالمہ تو خلاف آئین نہیں۔ نیز یہ کہ ایسے مکالمے کو سیکولر بمقابلہ رائٹسٹ بحث قرار نہیں دینا چاہیے۔ اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ ہم سیکولر اور رائٹسٹ کا فرق بھی نہیں جانتے۔ سیکولر ازم ایک وسیع تر سیاسی بندوبست ہے جس میں ریاست مذہب کی بنیاد پر امتیاز کئے بغیر تمام شہریوں کے یکساں تحفظ ، رتبے اور حقوق کی ضمانت دیتی ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی اصطلاحات کے ڈانڈے انیسویں صدی کے یورپ کی تاریخ سے ملتے ہیں۔ برطانیہ میں کنزریٹو پارٹی اور امریکا میں ری پبلکن پارٹی سمیت دنیا بھر میں دائیں بازو کی ان گنت جماعتیں سیکولر سیاست کی علمبردار ہیں۔ سیکولر نظام اور دائیں بازو کی سیاست ہرگز متصادم نہیں۔ اردو زبان میں سیکولر ازم کو مذہب کی مخالفت قرار دینے سے سیاسیات میں اس اصطلاح کا حقیقی مفہوم بدل نہیں جاتا۔

دائیں بازو کی سیاست معاشرے میں تسلسل اور انضباط سے عبارت ہے اور بائیں بازو کی سیاست زیادہ منصفانہ توازن کی جستجو کا نام ہے۔ ہر دو طرح کی سیاست میں مکالمے کی مدد سے متنوع مفادات میں سمجھوتہ پیدا کیا جاتا ہے۔ فکری اختلافات میں باہم مکالمے سے بہتر پیداواری ڈھانچوں اور زیادہ قابل عمل معاشرتی معیارات کا امکان پیدا ہوتا ہے۔ مکالمہ پرامن اختلاف رائے ہے، اسے روکا جائے تو ابلاغ، تغیر اور مفاہمت کی عدم موجودگی میں تشدد کا راستہ کھل جاتا ہے۔ پاکستان کا مطالبہ اس لئے کیا گیا تھا کہ مسلم اقلیت متحدہ ہندوستان میں اپنے مفادات کے بارے میں عدم تحفظ کا شکار تھی۔ قائد اعظم نے پاکستان کا مقدمہ انصاف کے تمام جدید اصولوں کی روشنی میں لڑا۔ اسی تناظر میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی مخالفت کی گئی تھی۔ ان اصولوں کی روشنی ہی میں قائد اعظم نے پاکستان کا عمرانی معاہدہ بیان کرتے ہوئے تمام شہریوں کے لئے مساوی رتبے اور حقوق کا اعلان کیا تھا۔ دستور ساز اسمبلی نے مارچ 1949ءمیں قرار داد مقاصد کے ذریعے اس عمرانی معاہدے سے انحراف کیاجس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا۔ دستور ساز اسمبلی کے تمام غیر مسلم ارکان نے قائد اعظم کے اعلان کا خیر مقدم کیا۔ قائد اعظم سے اختلاف کی واحد آواز شبیر احمد عثمانی کی تھی جنہوں نے 30 اگست 1947ءکو ایک بیان کے ذریعے قائد اعظم سے اختلاف کیا۔ دوسری طرف دستور ساز اسمبلی کے کسی ایک غیر مسلم رکن نے قرار داد مقاصد کی تائید نہیں کی۔ عمرانی معاہدہ معمول کی قانون سازی نہیں ہوتا کہ اکثریت رائے سے فصل نزاع ہو سکے۔ کوئی ایک مذہبی گروہ ریاست پر اپنی اجارہ داری مسلط کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ جمہوریت اکثریت کا استبداد نہیں۔ قرار داد مقاصد سے اختلاف کا سبب مذہبی نہیں، سیاسی ہے۔ ریاست کسی ایک عقیدے کو ترجیحی درجہ دے تو اس مراعات یافتہ ڈھانچے میں مذہب اور فرقے کی بنیاد پر منافرت اور تفرقے کا راستہ کھل جاتا ہے۔ پاکستان میں موجودہ انتہا پسندی کا سبب اسلام نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ ریاست نے مذہب کی بنیاد پر جانبداری اختیار کر لی۔

ہمارے محترم دوستوں کو اختلاف رائے کا پورا حق ہے لیکن وہ آئین کی شق 2(الف) کو ناقابل ترمیم قرار دے کر انصاف نہیں کرتے۔ آئین کی شق 238اور 239میں آئینی ترمیم کا طریقہ کار بیان کرتے ہوئے کسی حصے کو ماورائے ترمیم قرار نہیں دیا گیا۔ آئین کی تشریح کا اختیار عدلیہ کے دائرے میں آتا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے اب تک آئین کی کوئی ایسی تشریح نہیں کی جس میں آئین کے کسی جزو کو بنیادی ڈھانچہ قرار دیا گیا ہو۔ حاکم خان بنام وفاق پاکستان( PLD 1992 SC 595 ) میں وفاقی حکومت نے مو ¿قف اختیار کیا کہ شق 2(الف) ماورائے آئین شق ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ شق 2(الف) ماورائے آئین نہیں گویا اسے اصول اولیٰ (Grund Norm)ماننے سے انکار کر دیا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے فیصلے میں لکھا کہ اگر شق 2 (الف) کو ماورائے آئین حصہ تسلیم کر لیا جائے تو ہمیں نئے سرے سے آئین تیار کرنا پڑے گا۔

قرار داد مقاصد کو 1973ءکے دستور میں دیباچے کا درجہ دیا گیا تھا اور دیباچہ آئین کا نافذ العمل حصہ نہیں ہوتا۔ اس قرار داد کو جنرل ضیاالحق نے 2مارچ 1985 ءکو صدارتی حکم نمبر 14 کی رو سے جسد آئین میں داخل کیا جسے بعد ازاں پارلیمنٹ کا بازو مروڑ کر آٹھویں ترمیم کی صورت دی گئی۔ قائد اعظم پاکستان میں متفقہ رہنما ہیں اور ضیاالحق غالباً متنازع ترین نام ہے۔ 12اگست 1983 ءکو جنرل صاحب نے اپنی خود ساختہ مجلس شوریٰ سے ایک اہم خطاب میں پورے آئینی ڈحانچے کو بدلنے کا اعلان کیا تھا۔ اس تقریر میں ضیاالحق نے کہا تھا ” قرارداد مقاصد جو عوام کے دلی جذبات اور قومی امنگوں کی عکاسی کرتی ہے کبھی عوام کے دلوں سے محو نہیں ہوئی۔ یہی وہ امنگ اور یہی وہ جذبہ تھا جس کا مظاہرہ 1977 ءکی تحریک میں بھی دیکھنے میں آیا لیکن مقام افسوس ہے کہ یہ اہم دستاویز وقتی مصلحتوں کے تحت ہمارے دساتیر میں وہ جگہ نہ پا سکی جس کی یہ مستحق تھی….اپنی اصل شکل میں 1973 ءکے آئین میں ”اسلام“ صرف دیباچے کی حد تک تو موجود ہے لیکن متن میں خال خال ہے جو میرے خیال کے مطابق عوام کی امنگوں کے منافی ہے….“ قرار داد مقاصد پر مو ¿قف قائد اعظم اور ضیاالحق میں انتخاب کا معاملہ ہے۔ جب تک پاکستان میں انتہا پسندی موجود ہے، رواداری اور امن کے خواہشمند مطالبہ کرتے رہیں گے کہ ریاست عقیدے کی بنیاد پر تفریق کئے بغیر شہریوں کو مساوی درجہ اور تحفظ دے۔ انصاف کا مطالبہ انسانوں کا پیدائشی حق ہے۔ انسان انصاف کے مطالبے سے دست بردار نہیں ہوا کرتے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
6 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments