عمران خان کی بچت صدر بننے میں ہے


آپ سے ایک سوال ہے:
کیا اُن چیزوں کے لیے جنگ جائز ہے، جنھیں ہمیں چھو کر محسوس نہیں کرسکتے؟
یعنی بجائے زر، زن اور زمین کے کیا اہم افکار، نظریات، حب الوطنی جیسے غیرمرئی معاملات میں ایک دوسرے پر بندوق تان سکتے ہیں؟

گیبرئیل گارسیا مارکیز کے شاہ کار “تنہائی کے سو سال” کے مرکزی کردار کرنل ارلیانو بوئندا کو بھی زیست کے ایک اہم موڑ پر یہی سوال ستاتا تھا، مگر پھر وہ ایک نظریے ہی کے تعاقب میں، برسوں تک جاری رہنے والی جنگ کی بھٹی میں اتر جاتا ہے۔

جی، یہی حقیقت ہے۔ ٹھوس معاملات کے برعکس عام طور سے انسان غیرمادی، غیرمرئی معاملات پر زیادہ لڑتا جھگڑتا آیا ہے۔ عقیدہ اور عقیدت بھی اُن ہی میں شامل، جن کے باعث کبھی تو آپ مزارات پر سر جھکاتے ہیں، اور کبھی نہیں جھکاتے۔ دونوں صورتوں میں یہ فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ تا آں کہ کوئی رسم، عمل، روایت نقص امن یا معاشرے میں بگاڑ کا سبب نہ بنے، اس وقت تک اس پر روک لگانے کا مطالبہ، یا تنقید موزوں نہیں۔ البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ جب کوئی لیڈر کوئی عمل انجام دیتا ہے، کوئی ایسا شخص، جو پبلک فگر ہے، لاکھوں کی توجہ کا محور، تو وہ عمل انفرادی نہیں رہتا کہ وہ معاشرے پرگہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

ایسے میں موزوں یہی ہے کہ فرد زیادہ سے زیادہ احتیاط برتے، بالخصوص سیاست دانوں کواس نوع کے تنازعات سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہی کچھ عمران خان کو بھی کرنا چاہیے تھا۔ پاک پتن میں اُن کا فعل، اِس وجہ سے کہ وہ قومی لیڈر ہیں، اُن کی ذات تک محدود نہیں تھا۔ اور اس کا نتیجہ بھی خوش گوار نہیں رہا۔ اُنھیں مستقبل میں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

خیر، الیکشن کا شور ہے۔ انتخابات ملتوی ہونے کا اندیشہ دھیرے دھیرے دم توڑ رہا ہے۔ 25 جولائی کو میلہ سجنا متوقع ہے۔ دو پارٹیاں میدان میں ہیں، ایک پی ٹی آئی، دوسری ن لیگ۔ پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل میں تیسری پوزیشن کے لیے ٹاکرا ہوگا۔ دونوں ہی الیکشن کے بعد ہونے والے جوڑ توڑ میں جب تولی جائیں گی، تو اپنے وزن سے بھاری نکلیں گے۔ بلوچستان سے جیتنے والی جماعت، جو متوقع طور پر BAPہوگی، اور سندھ کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا وزن بھی، سودے بازی میں امیدوں سے زیادہ ہوگا۔ اور چوہدری نثار، جو فی الحال ایک فرد ہیں، ممکن ہیں، کل تمام آزاد امیدواروں کے لیڈربن جائیں۔

پلٹتے ہیں پی ٹی آئی اور ن لیگ کی سمت۔ ایک کے سربراہ ہیں عمران خان، دوسرے کے نواز شریف۔ جی ہاں، نواز شریف۔ شہباز شریف جس مسلم لیگ کے صدر ہیں، وہ صرف بوگیاں ہیں، انجن نواز شریف ہی ہیں، جن کی جانشین فی الحال تو مریم نواز دکھائی دیتی ہیں۔ شاید ان ہی کے باعث چوہدری نثار کے خلاف ن لیگ کا امیدوار کھڑے نہ کرنے کا فیصلہ واپس ہوا۔ اور اب تو قمر الاسلام کی گرفتاری کے بعد بات بہت آگے بڑھ چکی۔ دُور تک جائے گی۔

تو اگر آپ نواز شریف ہیں، تو صاحب آپ کے آگے رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہیں۔ کچھ تو آپ نے خود کھڑی کیں، اور اپنی مسلسل غلطیوں سے انھیں ہوا، پانی اور روشنی دی، یہاں تک کہ وہ بڑھتی اور پھیلتی چلی گئیں، اور اب ناقابل عبور معلوم ہوتی ہیں۔ کچھ کا اوروں نے آپ کے لیے اہتمام کیا۔ شاید آپ سے ناراضی کے باعث، یاشاید آپ کی مقبولیت کے باعث، یا شاید اِس لیے کہ انھیں یہی بھایا۔

تو نواز شریف کے سامنے رکاوٹیں ہیں۔ کلثوم نواز کی بیماری بھی ان ہی میں سے ایک، جسے متنازع بنانے کی افسوس ناک مہم سوشل میڈیا کے ساتھ مرکزی میڈیا پر بھی جاری ہے۔ دوسری جانب وہ مقدمات، جو شریف خاندان کو درپیش ہیں۔ آج نہیں تو کل، انھیں واپس آنا ہے کہ الیکشن قریب ہیں، ان کی قیادت کے بغیر ن لیگ کے لیے انتخابی دنگل دشوار گزار گھاٹی ہے۔ اوراگر وہ واپس آتے ہیں، تو انھیں مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا۔ ادھر شہباز شریف اور حمزہ شریف بھی مقدمات میں الجھے ہیں۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تاثر کہ چھوٹے میاں اسٹیبشلمنٹ کے لیے قابل قبول ہیں، ڈگمگاتا جارہا ہے۔

میاں صاحب کو فقط یہی مسئلہ درپیش نہیں۔ ان کے الیکٹیبلز، وہ جن کی قوت سے وہ انتخابات کے بعد ایک جنگ لڑنا چاہتے ہیں، اُن پر بھی نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ شاہد خاقان اور دانیال عزیزکے کیسز آغاز ہیں۔ معاملہ خطرے کی لکیر عبور کرسکتا ہے، اور ن لیگی قائد کو اس کا اداراک۔ اِسی وجہ سے جمعرات کے روز وہ لندن میں خود کویہ کہنے سے باز نہ رکھ سکے کہ ’ دھاندلی کی نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے!‘بنگلادیش کا حوالہ بھی آیا۔ مریم نواز نے بھی کہا:‘یوں کریں، پوری ن لیگ کو نا اہل کر دیں، تاکہ لاڈلا جیت جائے!‘

ن لیگی قائدین کے تلخ بیانات، طنز کے نشتر، سخت بیانیہ کس حد تک نتیجہ خیز ثابت ہوگا، اِس کا اندازہ ہمیں جلد ہوجائے گا۔ البتہ امید ہے، اب میاں صاحب کو بھی یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سیاست داں کا ماضی کبھی دفن نہیں ہوتا۔ جو آپ بوتے ہیں، وہی کاٹتے ہیں۔ ن لیگ کا اسٹیبشلمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آنا، مذہب کو سیاست کے لیے برتنا، مخالفین کے خلاف عدالتی آلے کا استعمال، افتخار نواز گٹھ جوڑ، گیلانی کی نا اہلی، میمو گیٹ کا کالا کوٹ، فہرست طویل اور تازہ ہے۔

اچھا، اگر آپ عمران خان ہیں، تو بہ ظاہر آپ کو راستہ ہم وار لگ رہا ہوگا۔ بہ ظاہر بڑے سیاست داں آپ سے آ کر مل رہے ہیں، آپ کے امیدواروں کے لیے آسانیاں ہیں، آپ کی رفتار سبک ہے، اقتدار قریب ہے، بہ ظاہر سب ٹھیک ہے۔ مگر ٹھہریں۔ یہ فقط التباس ہے۔ نظر کا دھوکا ہے۔ اقتدار ہمیشہ کانٹوں کا تاج ہوتا ہے، ایک مسلسل، ایک بے انت جنگ۔

اگر آپ عمران خان ہیں، تو بہتر ہے، ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں، احتیاط کو عادت بنا لیں، فیصلے خوب سوچ بچار کے بعد کریں، عقیدے اور عقیدت کو اپنی ذات تک محدود رکھیں۔

اگر آپ عمران خان ہیں، تو صاحب، بہتر ہے کہ وزیر اعظم بننے کا خواب تج دیں۔ یہ عہدہ منحوس ہے۔ گذشتہ سات عشروں میں جو اس پر فائز ہوا، کبھی پانچ برس پورے نہ کرسکا۔ نا اہل ہوا، جلا وطن ہوا، پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ زرداری صاحب کی طرح سوچیں، صدر کے عہدے کی سمت جائیں، جس کے پاس استثنیٰ کی ڈھال ہے۔

اگر عمران خان الیکشن جیت جاتے ہیں، تو وزیر اعظم بننا اُن کی آخری غلطی ہوگی۔ تب کسی جے آئی ٹی کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ وہ چٹکی بجاتے ہی نا اہل ہوجائیں گے۔ ان کا ماضی بھی ان کے تعاقب میں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).