سعودی مطوع، امریکی فوجی عورتیں اور عراقی سکڈ میزائل


\"naseerماضی کا افغان جہاد ہو یا موجودہ طالبنائزیشن، سر قلم کرنے کی سزا ہو یا ایک سے زیادہ بیویوں کی بات، حج پالیسی ہو یا عمرہ ویزوں کا اجرا، بھارت سے کشیدگی ہو یا ایران سے تعلقات، داعش کا معاملہ ہو یا یمن اور شام کی صورت حال، ہمارے ہاں سعودی عرب کا بڑا تذکرہ ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر اوبامہ کے سعودی عرب کے دو روزہ دورہ کا چرچا رہا۔ حال ہی میں جسمانی سزاؤں اور ایذا رسانی کے خلاف اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی ایک کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب مجرموں کو کوڑے مارنے اور ہاتھ کاٹ دینے جیسی جسمانی سزاؤں کا سلسلہ بند کرے۔ سعودی عرب کے شاہ سلیمان نے بھی ایک حالیہ خطاب میں نسبتاً کشادہ پالیسیوں کے اشارے دیے ہیں اور سعودی معیشت کو تیل پر انحصار کی بجائے صنعت و پیداوار کے دیگر شعبوں کی طرف موڑنے کا عندیہ دیا ہے اور مذہبی پولیس، جسے عرفِ عام میں \”مطوع\” کہتے ہیں، کے اختیارات میں بھی کمی کی ہے۔ اس سے مجھے کچھ پرانے واقعات یاد آ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ میری یہ تحریر کسی زیبِ داستان، تعصب  اور تجزیاتی تڑکے کے بدون محض چند دلچسپ حقیقی مشاہدات و واقعات پر مبنی ہے جن کا عینی شاہد بھی میں ہوں اور راوی بھی میں خود ہوں۔ اسے کسی ملک اور مسلک کے خلاف نہ سمجھا جائے، نہ اسے کسی سیکولر، لبرل یا مذہبی بیانیہ کے تناظر میں پڑھا جائے۔ دنیا میں بعض حالات و واقعات اور کچھ بیانیے ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق کسی دائیں یا بائیں سے نہیں ہوتا بلکہ وہ خود ساختہ و خود کار اور خود عیاں ہوتے ہیں۔ بالخصوص جنگ کا بیانیہ نہ لبرل ہوتا ہے نہ رجعت پسند۔ جنگ میں صرف موت کا گیت سنائی دیتا ہے اور ہتھیاروں کا آرکسٹرا بجتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں تو دونوں بیانیے ہی بے عملی اور فرسودگی سے دوچار ہیں اور سرمائے اور طاقت کا بیانیہ ہر دو بیانیوں پر حاوی ہے۔ تیسری دنیا اب کسی تیسرے بیانیے کی منتظر ہے۔

\"A

پہلی خلیجی جنگ کا زمانہ تھا۔ اگست 1990ء میں عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا تھا اور زیادہ تر کویتی شہری اور کویتی شاہی خاندان کے افراد سعودی عرب میں پناہ گزین تھے، جنھیں ہر طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ صدام حسین نے کویت کو عراق کا صوبہ قرار دے کر عراق کے ساتھ اس کا الحاق کر دیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عراق نے یہ ساری کارروائی امریکی سفیر کی طرف سے درپردہ گرین سگنل ملنے پر ہی کی تھی۔ کویت پر حملے میں یمن نے عراق کی حمایت کی تھی۔ چنانچہ سعودی عرب عراق اور یمن دونوں طرف سے خطرہ محسوس کرنے لگا تھا۔ یوں تو سعودی عرب کے فوجی اڈوں اور پالیسیوں کا کنٹرول عملاً پہلے ہی امریکہ کے پاس تھا لیکن کویت پر عراقی قبضے کے بعد سعودی عرب کی حفاظت کے بہانے آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ اور ڈیزرٹ اسٹارم کے تحت پہلی بار امریکی فوجی سعودی عرب کی سرزمین پر آزادانہ دندنانے لگے۔ دوسری طرف کیمیاوی ہتھیاروں کا ڈھونگ رچا کر امریکہ عراق پر چڑھائی کی تیاری کر رہا تھا۔ اس طرح امریکہ ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتا تھا۔ ایک طرف مشرق وسطیٰ کے نسبتاً طاقتور ممالک کے حصے بخرے کر کے تیل کے وسائل پر قبضہ کرنا، مشرق وسطیٰ کے نقشے میں جغرافیائی تبدیلیاں لا کر گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنا اور دوسری طرف جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد ان ممالک کی تعمیرِ نو کے نام پر اپنی مرتی ہوئی بھاری مشینری اور اسلحے کی صنعت کو نئی زندگی عطا کرنا مقصود تھا۔ اس حربی و معاشیاتی حکمتِ عملی میں یورپی ممالک بھی امریکہ کے ساتھ تھے اور ایک منصوبہ بند تباہی و بربادی کے بعد تعمیرِ نو کے کاموں میں ان ممالک کا حصہ بقدر جثہ بھی پہلے ہی طے کر لیا گیا تھا۔ دسمبر 1990ء میں امریکہ نے عراق پر براہ راست حملہ کر دیا۔ جب اس جنگ کا آغاز ہوا تو میں امریکہ اور سعودی عرب کے ایک بہت بڑے مشترک فوجی منصوبے پر ایک امریکی مشاورتی کمپنی میں ملازم تھا جس کا دفتر سعودی دارالحکومت میں مرکزی ایئر بیس کے اندر تھا، جہاں سے عراق پر فضائی حملوں کے سارے آپریشن کنٹرول کیے جا رہے تھے۔ دفتر کے ارد گرد امریکی فوجیوں، جن میں عورتیں بھی تھیں، کی آمد و رفت کافی بڑھ گئی تھی اور ہر روز کوئی نہ کوئی دلچسپ واقعہ رونما ہوتا تھا۔

\"missileسعودی عرب کی \”مطوع پولیس\”  مذہبی رضاکاروں، امام مسجدوں وغیرہ پر مشتمل ہے جس کی باقاعدہ وردی نہیں ہوتی لیکن اسے کچھ اختیارات حاصل ہیں۔ مثلاً لوگوں کو نماز ادا نہ کرنے کی صورت میں پکڑ کر لے جانا، لباس اور دیگر مروجہ مذہبی و معاشرتی قواعد و ضوابط، روایات اور ثقافتی اقدار کی پابندی کروانا وغیرہ وغیرہ۔ مطوعین کسی کے خلاف باقاعدہ مقدمہ قائم کر سکتے نہ باقاعدہ پولیس کی طرح گرفتار کر سکتے لیکن عموماً وہ اپنی طاقت کے زعم میں اختیارات سے تجاوز کرتے رہتے تھے۔ نماز کے اوقات میں انھیں ہاتھوں میں چھڑیاں پکڑے لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح مسجدوں کی طرف ہانکتے ہوئے یا گاڑیوں میں زبردستی بٹھا کر اپنے مراکز کی طرف لے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ بعض اوقات وہ تصدیق کیے بغیر نماز نہ پڑھنے کے جرم میں ایشیائی غیر مسلموں کو بھی پکڑ کر لے جاتے تھے۔ ہمارے دفتر کے امریکی اور یورپی ملازمین کے لیے الگ رہائشی کمپاؤنڈ تھا جہاں ممنوعہ گوشت، ممنوعہ مشروب، امریکی فلمیں، ٹی وی سب کچھ براہ راست امریکہ سے آتا تھا، کنسرٹ بھی منعقد ہوتے تھے لیکن سعودی پولیس اور مطووں کا داخلہ وہاں منع تھا۔ البتہ خصوصی رعایت کے تحت سعودی ایئر فورس کے مطوعین کو دفتر میں آنے کی اجازت تھی۔ وہ نماز کے اوقات میں اچانک آ جاتے تھے اور دفتر کے مسلمان ملازمین کو نماز کی تلقین کرنے یا مسجد لے جانے کے علاوہ کچھ اور دلچسپ حرکتیں بھی کرتے تھے۔ مثلاً کسی گورے کی میز پر اس کی گرل فرینڈ یا بیوی بچوں یا کسی اداکارہ یا ماڈل یا خاتون کھلاڑی کی تصویر دیکھ کر اسے الٹا کر دیتے تھے کہ یہ حرام ہے۔ گورے ان کی آمد کا برا ماننے کی بجائے خوش ہوتے تھے کہ ان کی تفریح کا اچھا خاصا سامان فراہم ہو جاتا تھا۔

ایک بار ایک امریکی نے جان بوجھ کر ایک کارٹون بنا کر کوریڈور میں نوٹس بورڈ پر ہالی وڈ کی چند اداکاراؤں کی نیم برہنہ تصویروں کے ساتھ لگا دیا۔ کارٹون کے ایک حصے میں ایک بدو کو اونٹ پر بیٹھے سعودی عرب کا پرچم اور تلوار لہراتے، جنگ پر روانہ ہوتے دکھایا گیا تھا اور اوپر لکھا ہوا تھا \”ہولی وار\”۔ کارٹون کے دوسرے حصے میں اُسی بدو کو تیزی سے کج مج حواس باختہ واپس بھاگتے اور اونٹ کے پیچھے ایک میزائل نما سمارٹ بم لگا دکھایا گیا تھا۔ کارٹون کے اس حصے کے اوپر درج تھا \”ہولی شِٹ\”۔ مطوعوں نے تصویریں تو اتروا دیں لیکن کارٹون کی انھیں سمجھ نہ آئی جو ان تصاویر سے زیادہ قابلِ اعتراض اور توہین آمیز تھا۔ اس سے ان کی جہالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بعد میں جب میں نے اپنے سیکشن کے گوروں کی توجہ سعودی پرچم پر لکھے کلمہ طیبہ کی طرف مبذول کرائی تو انہوں نے وہ کارٹون اتروا دیا۔ انہی دنوں ایک واقعہ بڑا مشہور ہوا۔ امریکی فوجیوں کے لیے یہ ملک، یہاں کے لوگ، ماحول اور سارا کچھ بہت دلچسپ اور نیا تھا۔ چنانچہ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ان کے گروہ کے گروہ مارکیٹوں میں گھومتے، فاسٹ فوڈ کی دکانوں پر برگر کھاتے نظر آنے لگے۔ ان میں جنگی وردی میں ملبوس امریکی فوجی عورتیں بھی ہوتیں۔ مطوعین کے لیے یہ صورتِ حال بڑی پریشان کن اور ناقابلِ قبول تھی لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ ایک روز مارکیٹ میں امریکی خاتون فوجی کو آدھی آستین کی شرٹ میں دیکھ کر ایک مطوع جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور چھڑی سے اسے ٹوکا۔ خاتون فوجی کے لیے یہ انتہائی غیر مہذب، ناقابلِ یقین اور انوکھی حرکت تھی، وہ \"ss2\"حیران ہو کر مطوع کی طرف دیکھنے لگی۔ مطوع نے دوبارہ اس کے ننگے بازو پر چھڑی سے ٹوک ٹاک کرتے ہوئے اشاروں میں اسے ڈھانپنے کے لیے کہا۔ عورت بھی میرین تھی، اس نے ایک مکا مطوع کو ایسا رسید کیا کہ وہ کئی فٹ دور چاروں شانے چت جا گرا۔ اس واقعہ کے بعد امریکی فوجیوں کا عام جگہوں پہ جانا کم ہو گیا۔ ویسے بھی اس دوران امریکی فضائیہ عراقی فوج، تنصیبات اور انفرا اسٹرکچر کو تباہ کر چکی تھی اور زیادہ تر امریکی فوجی زمینی کارروائی کے لیے سعودی عرب سے عراقی محاذِ جنگ کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔

عراق جلد ہی شکست سے دوچار ہو گیا اور کویتی حکومت بحال کر دی گئی۔ صدام حسین دھمکیوں کے علاوہ کچھ نہ کر سکا۔ اس کے پاس بھاری بھرکم دور مار اسکڈ میزائل تھے جو کسی کام نہ آ سکے۔ جونہی ان کے لانچنگ پیڈ حرکت میں آتے تھے امریکیوں کو حساس آلات کی مدد سے فوراً ان کی نقل و حرکت کا پتا چل جاتا تھا اور امریکی ہوائی جہاز انہیں چلنے سے پہلے ہی تباہ کر دیتے تھے۔ صرف ایک میزائل اسرائیل میں گرا اور چند سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض میں۔ وہ بھی شاید اس لیے گرنے دیے گئے کہ امریکہ اپنا جدید میزائل شکن میزائل پیٹریاٹ آزمانا اور عرب ملکوں کو بیچنا چاہتا تھا۔ جب ریاض میں پہلا اسکڈ میزائل گرا تو سعودی عوام اور حکومتی حلقوں میں ایک خوف و ہراس پھیل گیا۔ سعودی جوق در جوق گاڑیوں میں سوار دوسرے شہروں کی طرف جانے لگے۔ چنانچہ اس سے اگلے ہی روز ریاض میں امریکی پیٹریاٹ میزائل نصب کر دیے گئے۔ اس کے بعد جو بھی سکڈ آیا اسے پیٹریاٹ میزائل نے زمین پر گرنے سے پہلے فضا میں ہی تباہ کر دیا۔ رات کو دونوں میزائلوں کے ٹکرانے کا نطارہ بڑا دلکش ہوتا تھا۔ ایک برطانوی خاتون اس منظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کے لیے کئی راتیں جاگتی رہی۔ بالآخر ایک شب اسے کامیابی ہوئی اور اس نے عین اس وقت فوٹو اتار لی جب پیٹریاٹ سکڈ سے ٹکرایا اور فضا میں آتش بازی کا سا سماں پیدا پوا۔ اُس نے اس تصویر کی ہزاروں کاپیاں کروائیں اور بڑے بڑے دفتروں میں جا کر فروخت کیں اور لاکھوں ڈالر کمائے۔ ایک روز وہ ہمارے دفتر بھی آئی جہاں سو ریال کی رعایتی قیمت پر تقریباً سب نے وہ تصویر خریدی۔ اس پر 24 فروری 1991ء کی تاریخ اور 9۔29 شب کا وقت درج ہے۔ وہ تصویر اب تک یادگار کے طور پر میرے پاس محفوظ ہے۔

اس جنگ کے نتیجے میں امریکہ عربوں خاص طور پر کویتیوں کے لیے نجات دہندہ بن گیا۔ کویت میں پیدا ہونے والے ایک بچے کا نام امریکی صدر جارج بش کے نام پر رکھا گیا۔ کئی نئے ہتھیار آزمانے کے بعد جنگ تو ختم ہو گئی لیکن مشرقِ وسطیٰ میں ایک خونی کھیل اور امریکی نیو ورلڈ آرڈر کی عملی ابتدا ہو گئی جس کے ما بعد اثرات سے دنیا ایک نئی تباہی اور بڑی تبدیلی سے دوچار ہے۔ سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ سمیت کئی سماجی و سیاسی تبدیلیوں اور مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ کی لہر اسی جنگ کا شاخسانہ ہے۔ پہلی خلیجی جنگ کا صحیح بیانیہ کہیں درج نہیں۔ عراقی سپاہیوں اور شہریوں کی لاشوں کا درست اور مکمل اندراج کسی کے پاس نہیں۔ نہ اقوام متحدہ نہ امریکہ نہ کسی عرب یا دوسرے ملکوں نے اس میں دلچسپی لی۔ پہلی بار امریکی بلکہ عالمی میڈیا نے ایک بڑے حربے اور ہتھیار کے طور پر اس جنگ میں حصہ لیا اور وہی پیش کیا جو مطلوبہ نتائج اور مقاصد کے مطابق تھا۔ امریکی اتحادیوں نے کوئی قابل ذکر زمینی جنگ لڑے بغیر فضا ہی سے عراقی تنصیبات اور فوج کا صفایا کر دیا۔ زمین پر اُن سپاہیوں کو بھی مار دیا گیا جو ہتھیار ڈالنا چاہتے تھے۔ امریکی ٹینک ان عراقی مورچوں کو بھی روند کر گزر گئے جن پر سفید پرچم لہرا رہے تھے۔ لاکھوں بے جسم روحیں کسی کتبے کے بغیر تاریخ کے قبرستان میں دفن کر دی گئیں۔ تاریخ کے پاس اَن گنت جلی ہوئی لاشوں کی سڑاند، تیل کی بُو، بے صدا ماتمی نوحوں اور انسانی بے بسی کے سوا شمار کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments