ضیا شاہد کی آڈیو اصلی یا نقلی؟


ضیا شاہد اردو صحافت کا ایک معتبر نام ہے۔ ایک ایسی ہستی کہ جن کی صحافتی خدمات نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہیں۔ ایک کارکن صحافی کی حیثیت سے انہوں نے بہت کم عمری میں عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مختلف اخبارات وجرائد میں کام کے دوران انہیں نامور صحافیوں کی رفاقت میں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ ایک رپورٹر، کالم نگار، ایڈیٹر، میگزین ایڈیٹر کی حیثیت سے ضیا شاہد نے بہت سی نئی روایات قائم کیں۔ انہوں نے روزنامہ جنگ میں فورم کے بانی کی حیثیت سے جنگ فورم متعارف کروایا جو آج ہر اخبار کا لازمی حصہ ہے۔ عوامی عدالت، کھلی کچہری، شکایات سیل سمیت بہت سی جدتیں ضیا شاہد کے نا م ہی لکھی جاتی ہیں۔

مختلف اخبارات میں خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے1990 میں روزنامہ پاکستان کا اجرا کیا۔ اوراس اخبار کے ذریعے اردو صحافت میں وہ بہت کچھ متعارف کرایا جو اس سے پہلے اردو اخبارات میں رائج نہیں تھا۔ زراعت، کامرس، کھیل، شوبز، نوجوانوں، خواتین، بچوں کے روزانہ صفحات کی اشاعت اسی اخبار کے ذریعے شروع ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے 1992 میں روزنامہ خبریں کا اجرا کیا اور اسے ایک کامیاب اخبار بنا دیا۔ اس اخبار میں بھی انہوں نے صحافت کے نئے زاویئے اور نئے موضوعات متعارف کروائے۔ روزنامہ خبریں لاہور، کراچی، اسلام آباد، حیدرآباد، ملتان سمیت کئی شہروں سے شائع ہوتا ہے۔ ”جہاں ظلم وہاں خبریں“ آج بھی ایک ایسا نعرہ ہے جو اس اخبار کی پالیسی ظاہر کرتا ہے۔ جن لوگوں کے خلاف کوئی بات کرنے کی جرات بھی نہیں کرتا تھا ضیا شاہد ان کے خلاف عوام کی آواز بنے۔ جب آپ بڑے لوگوں کے ساتھ ٹکرا رہے ہوتے ہیں اور میڈیا مالکان کو بھی اپنا دشمن بنا لیتے ہیں تو پھر آپ خود بھی الزامات کی زد میں آجاتے ہیں۔

ضیا شاہد پہلے روز سے ہی الزامات کی زد میں ہیں۔ ان پر لوگوں کا سرمایہ واپس نہ کرنے کا الزام بھی لگا۔ یہ وہ سرمایہ تھا جو انہوں نے روزنامہ خبریں کے اجراءکے لیے لوگوں سے وصول کیا تھا اوراس کے عوض انہیں اپنی کمپنی کا شیئر ہولڈر بنایا تھا۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ہمیشہ ان کی بد زبانی کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ ان کے خلاف مالی بدعنوانیوں اور قبضوں کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ یہ الزام بھی لگا کہ انہوں نے یوسف نامی شخص کو یوسف کذاب قراردے کر اس کی عمارت پر قبضہ کیا جو اب خبریں ٹاور کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ اور پھر یوسف کو جیل میں قتل کروا دیا گیا اوراس کے قتل میں استعمال ہونے والا پستول بھی خبریں کے رپورٹر ایاز شجاع نے جیل میں پہنچایا۔ اس بات کااعتراف خود ضیا شاہد بھی اکمل شہزاد گھمن کو دیئے گئے انٹرویو میں کرچکے ہیں جو ان کی کتاب ”میڈیا منڈی“کے صفحہ 168 پر موجودہے۔ ضیا شاہد کا کہنا ہے کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے جیل رپورٹر نے پستول جیل پہنچایا تھا تو میں نے اسے ملازمت سے فارغ کر دیا۔

ضیا شاہد کے خلاف بعض الزامات کی تصدیق نہیں ہوئی۔ بعض الزامات کا ضیا شاہد صاحب نے اعتراف کرلیا۔ لیکن اس کے باوجود بہت کچھ ایسا ہے جس کا کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ کچھ سینہ گزٹ ہے جو ان کارکنوں کے ذریعے لوگوں تک پہنچا جو کبھی ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اور پھر تنخواہ نہ ملنے پر اخبار چھوڑ آئے یا بقول ان کے انہیں تنخواہ مانگنے پر اخبار سے نکال دیا گیا۔ ان کے خلاف بہت سے الزامات کی بہرحال تصدیق نہ ہوسکی۔ ان الزامات میں کچھ اخلاقی نوعیت کے الزامات بھی تھے۔ جن کی بازگشت بارہا سنائی دیتی رہی۔

گزشتہ ہفتے ضیا شاہد کے حوالے سے ایک آڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ اس آڈیو میں مبینہ طورپر ایک شخص خود کو ضیا شاہد ظاہر کرکے خاتون کے ساتھ شرم ناک گفتگو کررہاہے۔ اس گفتگو کے مندرجات کو اس کالم کا حصہ بنانا ممکن ہی نہیں لیکن اس گفتگو میں کمسن بچیوں کو جنسی بے راہ روی کی جانب مائل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی چیزوں کے بارے میں عموماً شکوک وشبہات ہی رہتے ہیں اور پہلی نظر میں ان پر یقین کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم نے بھی اس آڈیو کو چند لمحے سننے کے بعد جعلی سمجھ کر نظرانداز کر دیا لیکن اگلے روز یہ آڈیو مزید متحرک ہوگئی حتی کہ 25جون کے روزنامہ خبریں کے صفحہ اول پر یہ خبر شائع کی گئی کہ روزنامہ خبریں کیونکہ بچیوں سے زیادتی اور ان کی ویڈیوبنانے والے گروہ کے خلاف سرگرم ہے اس لیے اس گروہ نے چیف ایڈیٹر خبریں ضیا شاہد کی جعلی آڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردی ہے۔ خبر میں کہا گیا تھا کہ روزنامہ خبریں تین ہفتے قبل ایسے گروہ کے خلاف کارروائی کی تیاری کرچکا تھا اور ایف آئی اے کے ذریعے چھاپے کا فیصلہ بھی ہوگیا تھا کہ متعلقہ گروہ کو خبر ہوگئی اوراس نے محترم ضیا شاہد کے خلاف جعلی ویڈیو وائرل کر دی۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2