اداکارہ شبنم کو کس نے انصاف دلوایا؟


1959 میں ایوب خان پاک جمہوریت ٹرین پر مشرقی پاکستان کے دورے پر گئے تو شاعروں ادیبوں کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ اس سفر کے مسحور کن مناظر ممتاز مفتی نے ’’لیل ونہار‘‘ کے ایک پرچے میں بیان کرکے خوب خوشامد کی تھی۔ اور بھی ادیبوں نے اس سفر کے مشاہدات اپنے اپنے رنگ میں لکھے، لیکن سب سے چوکھا رنگ ممتازمفتی کی تحریر کا ہی تھا۔ اس دورے میں بنگالی شاعر کوی جسیم الدین مغربی پاکستان سے آئے لکھاریوں کی آؤ بھگت میں پیش پیش تھے۔ انھوں نے ہم مشربوں کو اپنے یہاں رات کے پرتکلف کھانے پر بھی بلایا۔ ان کا گھر ڈھاکہ شہر سے باہر ایک تالاب کے کنارے پر تھا۔ کھانے کے بعد موسیقی کا دور چلا جس میں دو لڑکیوں نے رقص کیا۔ ان میں ایک نازک اندام کا نام جھرنا تھا۔ جس کی اے حمید کے بقول، سیاہ آنکھیں، تیکھے نقوش اور لمبے سیاہ بال تھے۔ سفید ساڑھی زیب تن اور ماتھے پر تلک۔ جھرنا اور ساتھی رقاصہ نے اپنی پرفارمنس سے سماں باندھ دیا۔ شاعروں و ادیبوں کو جھرنا کے رقص نے دیوانہ بنادیا۔ سب سے بڑھ کر دل پھینک ابن انشا ریجھے اور جی ہار بیٹھے۔ شادی کا قصد کرلیا اور دوستوں کے سامنے عندیہ ظاہر بھی کر دیا۔ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کہ شاعر حضرات ایسے منصوبے گانٹھتے ہی رہتے ہیں جن کی عملی صورت پذیری کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ جھرنا آگے چل کر پاکستان فلم انڈسٹری کی اداکارہ شبنم بنیں۔

شبنم پر مملکت خداداد پاکستان میں برسوں پہلے قیامت گزری تھی، جس کا گذشتہ دنوں میڈیا میں بہت چرچا رہا کہ اس کے مرکزی کردار نے کسی سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ بجھی ہوئی راکھ کرید کر ہم نے شبنم کے ساتھ ایک دفعہ پھر زیادتی کر ڈالی۔ اینکروں اور کالم نویسوں نے اس واقعے کو اپنی ریٹنگ بڑھانے کاذریعہ جانا۔ ان کی آوازوں میں ستم رسیدہ سے ہمدردی نہیں، وہ اس واقعہ کو اچھال کر خود نمایاں ہونا چاہتے تھے۔ میڈیا میں اس واقعہ کو لے کر ہاؤہو جاری تھی کہ ہمیں اصغر ندیم سید کے افسانوں کی کتاب ’’کہانی مجھے ملی‘‘ پڑھنے کو ملی جس میں شبنم کے ساتھ ہونے والے ظلم عظیم سے متعلق افسانہ ہے۔ اس افسانے میں 1971میں بنگالی خواتین سے ہونے والی زیادتی پر دکھ کا اظہار بھی ہے اور ضیا آمریت سے تنفر کا اظہار بھی۔ بڑے خانوادوں کے صاحبزادوں کی حرام زدگیوں پر روشنی بھی ڈالی ہے۔ کہانی میں بگڑے رئیسوں کے بڑوں کی سوچ کچھ یوں ظاہر ہوتی ہے :۔۔۔ ان کے لاڈلوں نے ایسا کیا کفر تول دیا ہے۔ ایک فلمی ہیروئن جو کہ شادی شدہ بھی ہے اور پھر وہ کون سی ستی ساوتری ہوگی یا باحیا قسم کی باپردہ گھریلو عورت تھی۔ آخر پرائے مردوں کے ساتھ کھلے عام رقص کرتی تھی۔ بانہوں میں بلکہ گلے میں بانہیں ڈال کے جھپیاں لیتی تھی۔ کیا خبر فلمی ہیروؤں کے ساتھ کیا کچھ نہ کرتی ہو گی۔ ہمارے کنوارے لڑکوں نے کون سا انوکھا جرم کر دیا ہے۔‘‘

یہ واقعہ جب ہوا تو ملک میں ضیا کی ظلمت حکمران تھی، اس نے اسے بھی اپنے ذاتی مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ وہ ملزموں کو نشان عبرت بنا کر اپنی شقاوت کا تاثر کم اور نام نہاد انصاف پسندی کا ڈھول پیٹنا چاہتا تھا، اس لیے ملٹری کورٹ نے ملزموں کو پھانسی کی سزا سنا کر انصاف کا بول بالا کردیا۔ لیکن پھر ہوتا یوں ہے کہ کیس ٹھپ ہوجاتا ہے جس کے بارے میں مختلف روایات ہیں، ان میں سے ایک روایت اصغر ندیم سید نے بیان کی ہے۔ اصغر ندیم سید نے اس افسانے میں واقعات کو اس انداز میں ترتیب دیا کہ پڑھنے والے کے ذہن میں واقعہ کی پوری تصویر سامنے آجاتی ہے۔ اصغر ندیم سید کی کہانی جس کا نام انھوں نے ’’ شانتی۔ ۔ ۔ شانتی سے ہے‘‘ رکھا ہے اس میں شبنم کی کہانی شانتی کے نام سے پیش کی گئی ہے۔ افسانہ سے ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو:

’’ جوں جوں پھانسیوں کی تاریخ قریب آتی گئی، اضطراب بڑھتا گیا۔ اب ان خانوادوں نے جب اوپر تک رابطے کیے تو معلوم ہوا کہ صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ معافی کے لیے بھاری تاوان جو اُس زمانے میں کروڑوں اور اربوں میں ہو گا کا بندوبست کیا جائے۔ چاروں خاندانوں نے یہ تاوان ادا کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ شانتی کو بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس کی اجتماعی آبروریزی اب تیسری بار ہونے والی تھی۔ دوبار اجتماعی آبروریزی تو سمجھ میں آتی ہے یہ تیسری بار کس طرح کی اجتماعی آبرو ریزی ہو سکتی ہے، لیکن لگتا یہی تھا کہ شانتی کو تیسری بار بھی اجتماعی زیادتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلی بار تو بنگلہ دیش میں بنگالی عورتوں کے ساتھ یہ واردات ہوئی تھی جسے شانتی نے پاکستان میں محسوس کیا تھا گویا یہ واردات اس کے ساتھ ہوئی ہے اور دوسری مرتبہ وہ سچ مچ اس کا نشانہ بنی۔ مگر اب تیسری بار۔۔۔ یہ البتہ حیرت کی بات تھی مگر ایسا ہونے والا تھا۔

شانتی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انصاف کے نام پر اُس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی ایک اور تیاری ہو رہی ہے۔ پانچوں خاندانوں نے اپنے اپنے نوجوانوں کی جان بخشی کے لیے ہر طرح کا تاوان ادا کرنے کا انتظام کر لیا اور اب راوی جو کچھ لکھتا ہے اُس پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ مارشل لاء کا حاکم کیفر کردار تک پہنچ چکا ہے۔ کون بتائے کہ اُس ایک رات میں کیا ہوا؟ شانتی کو اُس رات تیسری مرتبہ اجتماعی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔ معلوم نہیں وہ سات لوگ تھے یا دس لوگ تھے، جنہوں نے اس اجتماعی زیادتی میں حصہ لیا۔ وہ لوگ نہیں تھے۔ وہ مارشل لاء کے حکم کی ناک کے بال تھے۔ راوی ڈرتا ہے وہ جانتا ہے وہ کون لوگ تھے۔ وہ کتنے بڑے عہدوں پر فائز تھے اور مارشل لاء کا حاکم انہیں راتوں رات کروڑ پتی بنانا چاہتا تھا۔ اُن سے کیا کام لینا چاہتا تھا۔ راوی خاموش ہے۔

ہوا یوں کہ پھانسی کا دن قریب آ چکا تھا۔ قاعدے کے مطابق ان پانچوں خاندانوں کے پاس کچھ بوٹوں والے پہنچے۔ ایک درخواست سامنے رکھی جو صدرِ پاکستان کے نام رحم کی اپیل تھی۔ سب نے دستخط کیے اور طے شدہ رقم یا طے شدہ تاوان ادا کر دیا۔ وہ افراد جن کے ناموں اور عہدوں پر تاریخ کی گرد جم چکی ہے۔ وہ رحم کی اپیل اور اس کی قیمت لے کر روانہ ہو گئے۔ اُسی شام اُن میں سے کچھ بوٹوں والے شانتی کے پاس پہنچے اور حاکم وقت کا پیغام دیا کہ ان گمراہ لڑکوں کو شانتی اپنی طرف سے معاف کر دے تا کہ رحم کی اپیل کی منظوری کا کریڈٹ حاکم وقت کو جانے کے بجائے شانتی کو جائے ویسے بھی فنکار حساس ہوتے ہیں تو پانچ جوانوں کی موت سے شانتی کو کیا فائدہ ہو گا۔ اس طرح عوام کو اچھا پیغام جائے گا اور شانتی کی عزت میں اضافہ ہو گا۔

شانتی ساری بات سمجھ چکی تھی کہ یہ سارا ڈراما اس رات تک پہنچنے کے لیے رچایا گیا تھا۔ مگر اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ اُسے اسی ملک میں ابھی کام بھی کرنا تھا، تو ان بوٹ والوں سے بگاڑ کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اُس کے پاس اُس رات میں اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ انہیں معاف کر دیتی۔ اُس نے معاف کر دیا۔ اگلے دن کے اخبارات میں خبر آ گئی کہ شانتی کو انصاف مل گیا ہے۔ شانتی کی انسان دوستی کو سراہا گیا۔ بڑے بڑے اخبار نویسوں کو بھی آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ اُس رات کیا ہوا تھا؟ شانتی تیسری بار اجتماعی زیادتی کا نشانہ بن چکی تھی اور کچھ لوگ کروڑ پتی بن چکے تھے۔ جن کو حکومت نے جان بوجھ کر یہ ٹاسک دیا تھا۔ راوی تاریخ سے گرد اٹھانے سے گریزاں ہے۔ اس لیے اُس رات کیا ہوا تھا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ یہ تو اچانک کہانی مجھے ایک بساطی کی دکان کے کونے میں چھپی ہوئی مل گئی تو اُس نے بتایا کہ شانتی کے ساتھ کیا ہوا۔ کہانی اکثر مجھے خواب میں بھی آتی ہے اور بہت کچھ بتا دیتی ہے۔ اس واقعے کے بعد شانتی پاکستان سے اپنا فنی سفر مکمل کر کے ڈھاکہ روانہ ہو گئی اور ہمارے قومی اور اجتماعی حافظے سے ساری واردات صاف ہو گئی۔ ‘‘

کہانی کے آخر میں اصغر ندیم سید بھی اس کا حصہ بن جاتے ہیں جب وہ بتاتے ہیں کہ لاہور میں ہونے والی دو تقریبات میں شانتی سے ان کا مکالمہ ہوا۔ یہ فرضی بات نہیں امر واقعہ ہے کیونکہ ان دونوں تقریبات کے بارے میں اخبارات میں چھپ چکا ہے جس میں شبمنم اور اصغر ندیم سید کا مکالمہ ہوا تھا۔ کہانی کے آخر میں وہ لکھتے ہیں ’’میں نے گاڑی میں شانتی کو ہوٹل چھوڑنا تھا۔ وہ میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ میں نے کہا تمھیں لاہور میں اپنا گھر یاد ہے۔ کیا وہ نہیں دیکھو گی تو اس نے میری طرف ایسے دیکھا جیسے اس رات کے پانچ نوجوانوں میں سے ایک میں بھی تھا۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).