کیا ایسا الیکشن جمہوریت کی روح ہو سکتا ہے؟


الیکشن کیا ہے؟ جمہوریت میں اس کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ کیا الیکشن کسی عوامی رحجان کو جانچنے کا واحد پیمانہ ہوتے ہیں؟ کیا قومی شعور کا ردعمل الیکشن سے عیاں ہوتا ہے؟ کیا الیکشن میں ایک رائے دہندہ اپنی کلی آذادی اور خود مختیاری سے اپنا ووٹ دیتا ہے؟ کیا ایک ووٹر کو اپنے ووٹ کی طاقت کا ادراک ہوتا ہے؟ کیا ایک ووٹر اپنے ووٹ کی شرعی اور عصری اہمیت کو جانتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک ووٹر کا ووٹ کسی مصلحت کے سبب اس کی اس آذادی کو سلب کر دیتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک ووٹر اپنی ضرورتوں کو بیچتا ہے؟ کیا کسی بھی جمہوری معاشرے میں ایسا الیکشن کسی تبدیلی کا معیار یا منبع مانا جا سکتا ہے؟

دوسری طرف اگر ووٹ لینے والوں کی بات کی جائے تو کیا ووٹ لینے والا کسی کے ووٹ کا اصل حق دار ہوتا ہے؟ ووٹ لینے والے اور دینے والے کا باہمی تعلق اور اس کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ کیا ایک حکمران اور ووٹر کا رشتہ صرف الیکشن تک ہی اور ایک ووٹ تک ہی ہوتا ہے؟ بظاہر پاکستان میں میں نے آج تک یہی دیکھا۔ کیا ایسا نہیںکہ حکمران ان ووٹرز کے ضمیر تو نہیں کہوں گا بلکہ ضرورتوں کو خرید لیتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ایک ووٹر اور حکمران کا تعلق اس ضرورت سے آگے نہیں بڑھتا؟ کیو ں ایسا ہے کہ ہمارا سیاسی شعور ابھی ستر سال پہلے والے مکالمے سے آگے نہیں بڑھ سکا؟ ہمارا قومی بیانیہ جو الیکشن میں ترتیب پاتا ہے وہ ستر سال پرانے مسائل پہ رکا ہوا ہے؟ اس بات کا واضح مطلب ہے کہ ہم نے ستر سالوں میں اگر ووٹ کے ذریعے جب ہمیں موقع ملا تو ہم سے بحثیت قوم غلطی ہوئی۔

یہاں سے ایک دوسری بحث جنم لیتی ہے کہ کیا ہم نے بحثیت قوم آج تک کسی کو اپنی مرضی سے ایوان تک لایا تو اس کا جواب دوسری جانب چلا جاتا ہے کیوں کہ ہماری انتخابی تاریخ اتنی اچھی نہیں ہے۔ الیکشن کے بجائے سلیکشن۔ چند ایک لوگوں نے جو ایک پوزیشن میں تھے جن کا معیار اپنی ذاتی وفاداری تھی انہوں نے چند ایسے لوگوں کو اس قوم پہ مسلط کیا جو لوگ اس قوم کو لیڈ کرنے کے کلی طور پہ اہل نہیں تھے۔ عوام اور حکمران لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ اعمالکم عمالکم ہم اس حدیث کی غلط تشریح کرتے ہیں۔

میں اس موضوع کی طرف بھی نہیں جاتا میرا یہاں مقصود کچھ اور ہے۔ ہم سب بھڑو ں کا ایک چھتہ ہیں۔ ہم یہ جانتے ہوئے بھی اس میں ہاتھ مار کر شہد تلاش کر رہے ہیں کہ یہ بھڑوں کا چھتہ ہے۔ اس میں شہد کیسے ہو سکتا ہے۔ ہمارا انتخابی عمل اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ہم کئی سالوں سے بھڑوں کے چھتے سے شہد نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارا سیاسی مزاج کہاں سے کہاں چلا گیا ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ دیکھیں ایک وقت ہوتا تھا سیاسی جماعتیں اپنے مخلص لوگوں کو ٹکٹ دیتی تھی۔ پارٹی کے مخلص لوگ خال خال ہی سہی یہ ایک جاندار روایت تھی۔ وقت گزرا لیکن اخلاقیات اور جمہوری رویوں نے ترقی نہ کی۔ ایک وقت آیا کہ امیدواروں کو ٹکٹ خریدنا پڑ گیا۔ پھر ایک وقت ا یسا آیا کہ جو امیدوار پارٹی سربراہ کے ساتھ زیادہ وابستہ تھا وہ سب سے زیادہ ٹکٹ کا اہل ٹھہرا۔ اب یہ عالم ہو گیا ہے کہ جس کے پاس زیادہ پیسہ ہے وہ سب سے زیادہ ٹکٹ کا حق دار ہے۔

دیکھیں بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی؟ کیا یہی وہ جمہوریت ہے؟ ہمارے ملک میں کچھ روایات فیشن کی طرز پہ جنم لیتی ہیں۔ جیسے آجکل میڈیا کہتا ہے کہ شعور اتنا دے دیا ہے کہ اب لوگ حلقہ میں امیدواروں سے سوال کرنے لگ گئے ہیں۔ اور سب لوگ اس میں حصہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایک عدد کیمرہ مین بھی ساتھ رکھتے ہیں؟ کیا شعور کا یہی تقاضا ہے؟ سوشل میڈیا پہ ویڈیو اپ لوڈ کرنے سے ہم اپنی ذمہ داری سے مبرا ہو جائیں گے؟ نہیں اس مکالمے کو یہاں سے آگے بڑھنا چاہیے۔ کل پھر انہی حلقوں سے یہی لوگ منتخب ہو کرآئیں گے۔ یہ جو حکمران بنے بیٹھے ہیں یہ حلقہ میں ایسے جاتے ہیں جیسے احسان کر رہے ہوں۔ لیکن آجکل ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔

عجیب بات ہے کہ مجبور، بھوکی، غریب، دبی ہوئی، دکھی، بیمار، ضرورتوں میں بٹی، ریاست سے محروم، حقوق سے محروم، پینے کے پانی جیسے بنیادی حق سے محروم، صحت سے محروم، تعلیم سے محروم، سڑکوں اور ہسپتالو ں سے محروم، قرضوں میں دبی ہوئی، ذاتی مسائل سے ہمہ وقت دوچار عوام کسی قومی لیڈر کا انتخاب کرے گی ناممکن ہے۔ کیا کوئی صاحب کردار ہے بھی اس صف میں جو واقعی اس قوم کو لیڈ کرنے کا اہل ہے؟ مجھے کوئی ایک بھی ایسا نجیب نہیں لگتا۔ جس بھٹی میں ہم مٹی کو گرم کر رہے ہیں اس مٹی کی تاثیر ہی ایسی نہیں کہ ایسا نکلے۔ پھر اکیلا کچھ نہیں ہوتا۔ اکیلے سب ناکام ہوئے۔ ہم کسی ایک کو نجات دہندہ قیاس کر کے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ آجکل اس کی ایک مثال دی جا سکتی ہے۔ وہ بھی ان سب جیسا ہو چکا ہے جو اس کے گرد ہیں اور اس کے اور بھی کئی ایک مسائل ہیں۔ اب ان حالات میں کوئی ان میں سے ہی آئے گا نا جو ان جیسا ہی ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں یہاں یہ بات طے ہوگئی کہ انتخاب کبھی تقدیر بدلنے کا موجب نہیں ہو سکتے۔ المیہ دیکھیں روس کی قوم پیوٹن کو منتخب کرتی ہے اور شام بشار الاسد کو لیکن ہم؟

آخری بات جمہوریت محض ایک طرز انتخاب کے احیا کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ اخلاق، تربیت سے مزئین رویوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہم شعور سے نہیں بلکہ اپنی ضرورتوں کے معیار پہ اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہمارا ردعمل مصلحت کا شکار ہوتا ہے اس لئے ہمارے سیاسی ڈھانچے میں مناسب بندے کا نہ کوئی وجود ہے نہ گنجائش۔ بھڑو ں کے چھتے سے شہد نہیں نکل سکتا۔ اتنا بدمزہ، پھیکا اور جمہوریت کش الیکشن شاید ہی دنیا میں کہیں ہوتا ہو جس کو ہمارے پیشہ ور سیاست دان جمہوریت بہترین انتقام کے دلیل پہ منتج کرتے ہیں۔ آجکل روز رات کو میں اس انتخابی عمل پہ لعنت بھیج کر سوتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).