ادبی پرچہ ’’لوح‘‘


ادبی پرچہ جات/رسالے کسی عہد کے مختلف دورانیوں ( ماہانہ، سہ ماہی، شش ماہی، سالانہ وغیرہ) پر مشتمل ادبی متون کی دستاویز ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر ان میں شاعری، افسانہ، مضامین، انٹرویوز، ناولٹ، مختلف کتب کے تجزیے، تراجم اور خطوط شامل ہوتے ہیں۔ Nouvelles de la république des lettres کو پہلا ادبی پرچہ/ رسالہ کہا جاتا ہے۔ اس کے مدیر پیئرے بیل تھے جو خود بہت عمدہ لکھاری اور فلسفی تھے۔ یہ رسالہ فرانس سے 1684 میں شائع ہوا۔ عمومی طور پر اس عہد کے ادبی پرچہ جات مختلف کتب یا نظریات کے تجزیوں پر مشتمل ہوتے تھے اسی لیے ان کے ناموں کے ساتھ ریویو کا لفظ نتھی ہوتا تھا۔

انگریزی کے معروف ادبی پرچوں میں سے 1912 میں امریکہ سے شائع ہونے والا ایک پرچہ پوئٹری ہے۔ اس کا آغاز معروف مدیرہ، شاعرہ، اور ادبی نقاد ہیریئٹ منرو نے کیا تھا۔ ہیریئٹ منرو نے جدید شاعری کی ترقی میں اس دور کے معروف ناموں جیسے کہ: ایذرا پاؤنڈ، ٹی ایس ایلیٹ، والس اسٹیونز، ولیمز کارلوس ولیمز اور میکس مائیکلسن وغیرہ کو بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ اسی میگزین میں مدیرہ نے ٹی ایس ایلیٹ کی شہرہء آفاق نظم The Love Song of J Alfred Prufrock شائع کی۔ پھر اس کے بعد رفتہ رفتہ ادبی پرچوں کے ناموں سے ریویو کا لاحقہ ختم ہوتا گیا۔

موجودہ عہد میں دنیا کے معروف ادبی پرچوں میں Tin House (جو امریکہ سے شائع ہوتا ہے )، کینیڈا سے شائع ہونے والا شش ماہی میگزین Brick جو Michael Ondaatje کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ مائیکل آنڈاچی کی ایک بہت ہی شاندار نظم cinnamon peeler اگر آپ کی نظر سے گزرے تو ضرور اس کا مطالعہ کیجیے گایہ ایک نہایت خوبصورت نظم ہے۔ اسی طرح امریکہ سے نیو یارکر، آسٹریلیا سے شائع ہونا والا میگزین HEAT، انگلیڈ سے شائع ہونے والا سہ ماہی گرانٹا، ایسے ہی 1732 سے برطانیہ سے شائع ہونے والا میگزین LONDON MAGAZINE اور ایک لامتناہی فہرست ہے جو دنیا بھر کے تخلیق کاروں کو اپنے صفحوں پر اشاعت کے لیے جگہ دیتی ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ بھی اردو ادبی پرچہ جات سے بھری پڑی ہے۔ تاریخی طور پر اہم ادبی پرچوں کے ساتھ ساتھ جو معاصر پرچہ جات شائع ہورہے ہیں ان میں قابلِ ذکر ہیں : بھارت سے اثبات، استفسار، امروز، مقبوضہ کشمیر سے تفہیم اور سیاق، پاکستان سے فنون، اسالیب، بیاض، کہکشاں، سحاب، اجرا ء، فانوس، نالہ ء دل، ادبیات، آج، دنیا زاد، ادبِ لطیف، الحمرا، تسطیر، روشنائی، سویر ا، نزول، تخلیق اورلوح شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بیسیوں ادبی پرچہ جات مختلف دورانیوں سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ اب شائع نہیں ہوتے جیسے کہ اوراق اور سمبل وغیرہ لیکن ان تمام ادبی پرچوں کا سردار سہ ماہی” لوح‘‘ ہے۔ جسے اولڈ راویئنز کی جانب سے ممتاز شیخ صاحب بالاہتمام شائع کرتے ہیں۔

اس وقت میرے سامنے لوح کا تازہ شمارہ ہفتم و ہشتم جنوری تا جون 2018 پڑا ہے۔ 672 اعلیٰ معیار کے صفحات پرمشتمل اس پرچے میں دنیائے اردو ادب کا شاید ہی کوئی قابلِ ذکر تخلیق کار نہ ہو۔ ہارڈ بائنڈنگ میں قید لوح میں اشاعت کا معیار بھی بہت کڑا ہے۔ جس اہتمام اور محبت سے ممتاز شیخ صاحب اس کو شائع کرتے ہیں وہ آپ کو پوری ادبی دنیا میں کم کم ہی نظر آئے گا۔ شب خون، اوراق اور فنون کے بعد میرے نزدیک لوح ان دنوں میں ایسا ادبی پرچہ ہے جو اپنے معیار اور پیش کاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس ادبی پرچے میں انور شعور، ڈاکٹر معین الدین عقیل، افتخار عارف، کشور ناہید، جلیل عالی، سلیم کوثر، توصیف تبسم، احسان اکبر، خالد اقبال یاسر، مظفر علی سید، عبدالرشید، نصیر احمد ناصر، ایوب خاور، سرمد صہبائی، غلام حسین ساجد، محمد حمید شاہد، حسین مجروح، سعادت سعید، ضیا الحسن، انوار فطرت، محمد الیاس، نجیبہ عارف، اقتدار جاوید، سلمان باسط“ مبین مرزا، جاوید صبا، آفتاب مضطر، ناصر علی سید، لیاقت علی عاصم، جواز جعفری، مقصود وفا، قمر رضا شہزاد، ناصر عباس نیر، روش ندیم، عابد سیال، عنبرین صلاح الدین، عمران عامی، اور نعمان فاروق جیسے ارفع تخلیق کاروں کے ساتھ کئی دیگر شاندار شعرا و ادباکی تخلیقات شامل ہیں۔

اس مرتبہ کے لوح کو سترہ مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یوں تو ادبی رسالوں کی اشاعت کے در پردہ مقاصد خود نمائی، ایک مخصوص بیانیے، نظریے یا فکر کے لوگوں کو اشاعت کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا، کسی اور ادبی پرچے کی مخالفت میں پرچہ نکالنا، یا مدیر کا اپنی کمزور تخلیقات کا اپنے ہی نکالے گئے پرچے کے ذریعے دوسروں تک پہنچانا وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم لوح کے مدیر ممتاز شیخ ایک درویش آدمی ہیں۔ بنیادی طور پر بزنس مین ہیں، شعر و ادب سے خصوصی لگاؤرکھتے ہیں خود بھی شعر کہتے ہیں مگر کم کم۔ البتہ لوح کے اداریوں کی نثر اور اس پر ان گرفت اور اسلوب قارئین کوان کا مداح بنادیتے ہیں۔

ممتاز شیخ صاحب ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوح کے ذریعے ادبی ڈسکورس سطح پر نظر آئے لیکن افسوس ہمارے ہاں زیادہ تر تخلیق کار ان پرچوں میں محض اپنی تخلیقات پڑھنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ یوں بھی اردو ادبی روایت میں پڑھنے سے زیادہ لکھنے پر زور دیا جاتا ہے اسی لیے بین المتونیت، سرقہ، چوری وغیرہ کی اصطلاحات ہمارے ادبی کلامیے کا جزو لاینفک ہیں۔ بہرکیف ممتاز شیخ صاحب کو ادب کی اس بے لوث خدمت پر داد پیش نہ کرنا بہت زیادتی ہوگی۔ شیخ صاحب نہ صرف اتنا ضخیم پرچہ شائع کرتے ہیں بلکہ معروف کوریئر سروس کے ذریعے اسیرانِ ادب تک پرچہ پہنچاتے بھی ہیں۔ میری خوش بختی کہ مجھ سا مبتدی بھی اس میں تواتر سے شائع ہوتا ہے بلکہ میری طرف سے تحریر کردہ سخت تنقیدی خطوط بھی لوح میں شامل ہوتے رہے ہیں جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ مدیر ادب سے متعلق کسی بھی سنجیدہ بیانیے اور رائے کو خوش آمدید کہتا ہے۔ روزنامہ نئی بات کے قارئین بھی لوح کو آج ہی خرید فرمائیں اور معاصر ادبی منظر نامے سے آگاہ ہوں اور سماجی جمالیات کی نشوونما کریں۔ اور آخر میں اپنا ایک شعر:
عجیب حبسِ نمو خیز ہے ہم ایسے لوگ / عجب نہیں کہ کوئی دیر میں شجر ہوجائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).