اگلے الیکشن میں خیبر پختون خوا کا متوقع منظرنامہ


آپ 1970ء میں خیبرپختون خوا (تب صوبہ سرحد) کی صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر نظر ڈالی، تو چالیس ممبران پر مشتمل اسمبلی میں (اے این پی تب نیپ ) نے سب سے زیادہ تیرہ سیٹیں جیتیں۔ مسلم لیگ نے بھی مجموعی طور پر تیرہ سیٹیں جیتیں لیکن یہ جماعت تین ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی۔ (قیوم مسلم لیگ، کنونشن مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ ) تاہم قیوم مسلم لیگ نے اکیلے دس سیٹیں جیتیں جبکہ جمیعت العلماء اسلام نے چار اور پیپلزپارٹی نے تین سیٹیں حاصل کیں۔ الیکشن کے بعد نیپ اور جے یو آئی نے مل کر صوبے میں حکومت بنائی اور مفتی محمود وزیرِاعلٰی بنے اب آپ چالیس سال سے زائد کا سفر طے کرکے دو ہزار تیرہ کے الیکشن پر آ جائیں، تو وہیں جماعتیں اب بھی شخصیتوں یا نام کی تبدیلی کے ساتھ سیاسی طور پر زندہ ہیں اور اسمبلی میں مؤثر نمائندگی بھی رکھتی ہیں۔ گویا جنرل ضیاء اور پرویز مشرف کے طویل مارشل لاء اور متحدہ مجلس عمل اور تحریکِ انصاف کے ” طوفان ” بھی ان جماعتوں کو سیاسی طور پر اکھاڑے میں ناکام رہے، تاہم وقتی طور پر ان جماعتوں کو تھوڑا بہت ہلایا ضرور مثلاً دو ہزار دو کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل نے مخالف جماعتوں کو پچھاڑ کر رکھ دیا لیکن دوسرے ہی الیکشن 2008ء میں بائیں بازو کی جماعتوں اے این پی اور پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی اسی طرح دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں تحریکِ انصاف کا طوفان اُٹھا لیکن یہ طوفان بھی اپنے کناروں تک ہی محدود رہا۔کیونکہ تحریکِ انصاف کے 35 کے مقابلے میں پرانی سیاسی جماعتوں کا سکور کوئی ایسا کمزور بھی نہیں رہا۔ جمیعت العلماء اسلام کی تیرہ اور مسلم لیگ کی سولہ سیٹیں دوسروں کو ساتھ ملا کر عمران خان کو پیچھے دھکیلنے کی پوزیشن میں تھیں۔
لیکن نواز شریف نے ایسا نہ ہونے دیا۔ اصل میں یہ نواز شریف کی محبت نہیں بلکہ سیاست تھی کہ عمران خان کو حکومت سونپ کر ایکسپوز کیا جائے۔ جو اس نے کیا بھی سو جب ہم خیبر پختون خوا کی انتخابی اور سیاسی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ مسلم لیگ اے این پی، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی پر بعض اوقات سیاسی غنودگی تو طاری ہو سکتی ہے۔ لیکن اس غنودگی کے بعد وہ ہمیشہ پلٹ کر جیت بھی لیتی ہیں اب جبکہ 2018ء کا الیکشن قریب آرہا ہے۔ اس لئے اہم سیاسی جماعتوں کی انتخابی تاریخ اور روایتی ووٹ پاکٹس کو مدنظر رکھ کر ایک عمومی تصوراتی سا تجزیہ کر لیتے ہیں کہ اگلے الیکشن کے متوقع نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ عمران کی تحلیل ہوتی کرشماتی شخصیت اور خیبر پختون خواہ میں تحریکِ انصاف کی کمزور پرفارمنس کے باوجود بھی عمران خان کا ایک بڑا ووٹ بینک اب بھی موجود ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنا ہوگی۔ کہ یہ ووٹ بینک دوسری سیاسی جماعتوں جیسا محفوظ نہیں۔ ضمنی اور بلدیاتی الیکشن اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اس لئے پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو ووٹرز پر محنت اور ان کی سیاسی تربیت کی ضرورت ہوگی۔ ایسا ہونے کی صورت میں سنٹرل پاکٹ پشاور، نوشہرہ، صوابی، مردان اور چارسدہ میں اے این پی اور ساؤتھ پاکٹ ٹانک، ڈی آئی خان، کرک، لکی مروت، بنوں اور ہنگو میں جمیعت العلماء اسلام کے ساتھ سخت مقابلہ کر سکتی ہے۔ حتٰی کہ نتائج کو حیرت انگیز بنا سکتی ہے۔
اے این پی بنیادی طور پر سینٹرل پاکٹ یعنی پشاور اور ملحقہ علاقہ کے علاوہ سوات ڈویژن میں مؤثر ووٹ بنک اور اور مستعد کارکنوں سے لیس رہے۔ روایتی طور پر اے این پی علاقائی انتخابی سیاست میں اکثر حاوی رہی ہے۔ اگر اگلے الیکشن میں اے این پی نے ٹکٹوں کی تقسیم اور الیکشن مہم میں دانائی کا مظاہرہ کیا تو کافی حد تک نتائج اپنے حق میں موڑ سکتی ہے۔ بنیادی طور پر ہزارہ پاکٹ مسلم لیگ کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ اور وہاں اس سے سیٹ چھیننا ہمیشہ بیت مشکل رہا ہے۔ لیکن پشاور پاکٹ میں مسلم لیگ کا ایک خوابیدہ لیکن مؤثر ووٹ بنک خان قیوم کے زمانے سے موجود ہے جسے سیاسی میکینک امیر مقام اپنی حیرت انگیز سیاسی صلاحیتوں کے بل بوتے پر متحرک کرسکتا ہے۔ یہی صورتحال سوات ڈویژن میں بھی خارج ازامکان نہیں اگر لیگی قیادت نے سائنسی بنیادوں پر اپنی پالیسی وضع کی تو صوبائی اسمبلی کے فلور پر بڑی جماعت بن کر اُبھر سکتی ہے، جے یو آئی کا روایتی اور مخلوط ووٹ پاکٹ جنوبی اضلاع خصوصاً ٹانک ڈی آئی خان، لکی مروت، کرک اور بنوں رہے ہیں۔ ان اضلاع میں چونکہ مدرسوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ اس لئے جمیعت العلماء اسلام کو فطری طور پر علماء اور مدارس کی مضبوط سپورٹ حاصل ہے۔ تاہم 2013ء کے الیکشن میں عمران خان کے ماڈرن ووٹر نے جمیعت کے ووٹر پر سبقت حاصل کر لی تھی۔ اس پاکٹ میں عمران خان کی دلچسپی بھی بہت ہے تاکہ مولانا فضلُ الحمٰن کو پیچھے دھکیل سکیں۔ پیپلزپارٹی کا گراف پورے صوبے میں کافی حد تک گر چُکا ہے، بد قسمتی سے اس کے پاس کوئی فعال سیاسی قیادت بھی نہیں تاہم شمالی پاکٹ (مالاکنڈ، دیر، چترال) کے علاوہ پشاور اور جنوبی اضلاع کے پاکٹس میں پیپلزپارٹی کا ووٹ موجود ہے۔ جسے متحرک کرنے کے لئے زیرک اور فعال قیادت کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر پیپلزپارٹی کو مایوس کُن نتائج سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ جماعتِ اسلامی کا مؤثر ووٹ بنک شمالی پاکٹ خصوصاً دیر کے حلقوں تک محدود ہے، وہاں سے وہ حسبِ توقع پانچ چھ سیٹیں لینے کی پوزیشن میں ہے، جبکہ باقی صوبے میں تنہا سیٹ جیتنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں۔
حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).