ستر برس کو ٹچ کرتے لیڈر اور ہماری جمہوریت


ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ آپ نواز شریف ہیں۔ وہ انسان جو اپنی ہر حکومت میں کسی نہ کسی کھینچا تانی کا شکار رہتا ہے۔ جو ایک کاروباری گھرانے کا فرد تھا، کھاتا پیتا آدمی تھا‘ لیکن وہی خوبی الٹا اس کی خامی بن جاتی ہے۔ جو ہر دفعہ حکومت میں آتے ساتھ تین چار چیزیں سوچ کے آتا ہے‘ اور ان میں سے ایک نہ ایک چیز واپسی کا دروازہ کھول دیتی ہے۔

خارجہ پالیسی، اداروں کی حدود کا تعین، مینڈیٹ کا بھرپور استعمال اور دل پسند بیوروکریسی، ان میں سے ایک چیز ہمیشہ اس کے راستے کی رکاوٹ بنتی ہے۔ اس دفعہ بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ تھوڑی سی قربانی دے کے بات بن جائے لیکن وہ بات ہی کیا جو وزیر اعظم سے کم کا چڑھاوا مانگے۔ خاقان عباسی وزیر اعظم بنتے ہیں اور بات بن جاتی ہے۔

کیا اس صورت میں اگر آپ نواز شریف کی جگہ ہوں تو آپ جھلا نہیں جائیں گے؟ دو کم ستر سال کی عمر میں انسان کی برداشت جوانی کی نسبت بہرحال کم ہو جاتی ہے۔ پھر موقع ایسا کریٹیکل جب آپ چاہتے ہوں کہ آپ کی بیٹی جو صحیح معنوں میں آپ کی سیاسی وراثت کی حقدار ہے، آپ کی جانشین بنے اور اسے لانچ کرنے سے پہلے ہی آپ وزارتِ عظمی کی کرسی سے نیچے کیا اتریں بلکہ عمر بھر کے لیے آپ پہ سیاست کے دروازے ہی بند کر دئیے جائیں۔ تو کیا غصہ باہر نہیں نکلے گا؟

اب خود کو عمران خان کی جگہ رکھیں اور تھوڑا غور کریں۔ جو بندہ پچھلے بائیس تئیس سالوں سے لگا ہوا ہے کہ نوجوانوں کی حکومت لانی ہے اور خود اس وقت پانچ کم ستر برس کا ہو چکا ہے، کیا وہ یہ نہیں سوچتا ہو گا کہ استاد جو کرنا ہے ابھی کرنا ہے اگلے پانچ سال کس نے دیکھے ہیں؟

ہر الیکشن میں وہ آدمی نوجوان قیادت کو ٹکٹ دیتا ہے اور نوجوان قیادت خود تو منہ کے بل گرتی ہی ہے اسے بھی برے طریقے سے ہرواتی رہتی ہے۔ تو پینسٹھ سال کی عمر میں آ کر وہ کیا اپنی سٹریٹیجی بدلنا نہیں چاہے گا؟ پچھلے کتنے الیکشنوں میں وہ دیکھ چکا کہ بھئی حکومت سیٹوں سے بنتی ہے اور سیٹیں لینا وہی جانتے ہیں جو اپنے حلقے میں کام شام کروا سکتے ہوں، تھوڑا رعب داب ہو، تو آخرکار وہ آزمایا ہوا بلکہ سیکھا ہوا طریقہ ہی آزمائے گا، اس کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں رہتا۔

سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر نظریات کہاں گئے؟ نوجوان کہاں گئے؟ وہ جو تبدیلی والی سونامی تھی وہ کدھر چلی گئی؟ کیا پرانے چہرے نیا انقلاب لائیں گے؟ تو ان سب کا جواب یہ ہے کہ انقلاب شنقلاب پہلے بھی ایک دلفریب نعرہ تھا، آج بھی نعرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ پریکٹیکلی آپ کس کے خلاف انقلاب لائیں گے؟ کیا سارے بڑے الیکٹیبلز کو پھانسی پہ ٹانگ دیں گے؟

جمہوریت میں رہتے ہوئے چیزیں سٹریم لائن کی جا سکتی ہیں، انقلاب نہیں آیا کرتے۔ یہ بات خان صاحب کی سمجھ میں آ چکی ہے تو بس وہ اب میدان میں ہیں، اور انہی سب داؤ پیچ کے ساتھ ہیں جو ان کے مخالف پچھلے کئی الیکشنوں میں آزما چکے ہیں۔ اب عمران خان کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیں کہ آپ کیا یہی سب نہیں کریں گے؟ کیا ساری عمر کا غیر سیاسی اور سیاسی کیریئر ایک مرتبہ پھر آپ اصولوں کی آنچ پہ فرائے کرنا چاہیں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں!

شہباز شریف کے دماغ سے سوچیں تو یار کوئی حد ہوتی ہے صوبائی لیول پہ کارکردگی دکھانے کی، ہو گیا، بار بار کر لیا، جب بھی حکومت بنی پنجاب تھما دیا‘ اور کہا: اسے ہی اکھاڑتے اور بناتے رہو۔ کیا چار کم ستر سال کی عمر میں آپ کا دل نہیں چاہے گا کہ ساری عمر کی محنت کم از کم اتنی بہار تو لے آئے کہ ایک بار انسان وزیر اعظم ہو سکے؟

مطلب‘ چاہے زرداری ہو چاہے عمران خان ہو، آپ اپنے جلسوں میں کھل کے ملکی سطح کے لیڈروں کی مخالفت کرتے رہیں، انہیں گریبان سے پکڑ کے غائبانہ طور پہ گھسیٹتے رہیں اور جب الیکشن آئیں تو آپ صوبائی سیاست کی چلمن میں بیٹھے رہیں۔ ایسا کتنی بار کیا جا سکتا ہے؟

چار پانچ سال ایک ہی نوکری آدمی کے دماغ کو پکا دیتی ہے اور یہ تو پھر سیاست ہے‘ جہاں امکانات کا ایک جہان آباد ہے۔ بندہ کتنا پرہیز کر سکتا ہے؟ اب کیا آپ اگر ان کی جگہ ہوں اور آپ کے بڑے بھائی نواز شریف ہوں اور وہ خلائی مخلوق کی عملداری کے دعوے کرتے ہوں تو کیا آپ کو خلائی مخلوق نظر آئے گی؟ ظاہری بات ہے‘ آپ تو اس کے سائے سے بھی دور بھاگیں گے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ آپ چاہتے ہوں آپ کی اولاد آپ کے سامنے ٹھیک طرح سے ملکی سیاست میں پیر جما لے مگر اسے پولٹری فارموں سے ہی نہ نکلنے دیا جا رہا ہو، ایسا کیسے چلے گا؟

اب آصف علی زرداری بن جائیے۔ آپ کی عمر باسٹھ سال ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ ابھی ایک دو ٹرمز بڑے آرام سے نکال سکتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ غلط کاموں کی سزا دبئی کا لامتناہی دورہ بھی ہو سکتا ہے‘ اور میمو گیٹ، چھوٹے گیلانی کا غائب ہونا، دھرنے، ٹویٹس‘ اپ سیٹ سمیت شریکوں کے ساتھ ہوئے سارے ہاتھ بھی آپ نے دیکھ رکھے ہوں۔

آپ حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپنی بیوی کے قتل کی گتھی نہ سلجھا سکے ہوں‘ اور بعد میں بھی آپ کی ہمت نہ ہوتی ہو۔ آپ کو معلوم ہو کہ باقی تینوں مین سٹریم سیاستدانوں کی نسبت آپ کے پاس وقت بھی زیادہ ہے اور کھلاڑی بھی زیادہ ہیں (بلاول، آصفہ، بختاور علی الترتیب بورن لیڈر ہیں، یہ ہم بعد میں مان ہی لیں گے)، آپ کی سیاست اگلے بیس سال تک جیسے تیسے بڑے آرام سے ٹہل ٹہل کے چل سکتی ہے‘ تو کیا آپ سینیٹ میں اپنا چیئرمین بنانے کی ضد کریں گے؟

آپ کیوں آخر اپنی سیاست داؤ پہ لگائیں گے؟ آپ کو معلوم ہے کہ اس بار پنجاب میں پہلے ہی کافی رولا ہے تو اس کے چکر میں کیا سندھ اور بلوچستان بھی آپ گنوا لیں گے؟ ظاہری بات ہے نہیں! آپ کے سٹیکس زیادہ ہیں۔ آپ نے تینوں بچوں کو لانچ کرنا ہے اور آپ پہلے بھی سب سے زیادہ سیاسی شہید دے چکے ہیں تو آپ ذرا سی بھی بے احتیاطی کیوں کریں گے؟ کیا آپ پرو اسٹیبلشمنٹ اور اینٹی سٹیبلشمنٹ کے وقتی ابال میں بہنے کی بجائے ایک کونے میں بیٹھ کے اپنی لفظی چاند ماری کرتے رہنے کو ترجیح نہیں دیں گے؟

اب سوچیے کہ آپ طاہرالقادری ہیں۔ آپ سکون سے دو ملکوں کے موسم انجوائے کرتے ہیں اور دونوں میں ہی آپ کا بھرپور ٹہکا ہے۔ آپ کے مدرسوں اور تعلیمی اداروں کی وجہ سے آپ کے فالورز بے تحاشا ہیں۔ آپ جب چاہیں کسی بھی منتخب سیاسی حکومت کو لرزا کے رکھ سکتے ہیں۔ آپ کسی بھی نان ایشو پہ کھڑے ہو جائیں تو آپ کے ساتھ دھرنا دینے دس بیس ہزار لوگ تو ایویں خواہ مخواہ کھڑے ہو جائیں گے۔

روپے پیسے کا مسئلہ کوئی نہیں ہے۔ تریسٹھ پار کرکے الحمدللہ ستاسٹھ برس کے ہو چکے ہیں اور صحت بفضلِ خدا مثالی ہے، تو آپ کوئی رسک کیوں لینا چاہیں گے؟ لوگ آپ کو طعنے دیتے ہیں کہ جی یہ الیکشن میں سیٹیں نہیں جیتتے، آپ ڈیکلیئر کر دیں گے کہ اے پیا جے الیکشن، ہم لڑتے ہی نہیں، آپ کو آخر ضرورت ہی کیا ہے؟

جب اوکھا وقت آنے پہ ہر جمہوری اپوزیشن آپ ہی کو ساتھ ملا کے جلسے جلوس کرتی ہے تو آپ انتخابی خرچوں اور گوشواروں کے جھنجھٹ میں کیوں پڑیں گے؟ جبکہ اس بار تو گوشواروں میں صداقت اور امانت بھی ٹائٹ کرکے ثابت کرنا پڑی ہے، لوگوں کے گھر اجڑ گئے ہیں۔ یعنی آپ الیکشن لڑے بغیر الیکٹیبل رہنے کو ترجیح دیں گے، آف کورس، خدا عزتیں قائم رکھے!

اور اگر آپ شیخ رشید بن کر سوچیں تو آپ کو الیکشنوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جو مزا اپوزیشن بن کے ٹی وی پہ آنے اور ہر ایک کے بارے میں بے دریغ و بے نقط سنانے میں ہے وہ کدھر اسمبلیوں میں ملتا ہے؟ آپ کسی گاڑی کی چھت پہ بیٹھ کے سگار پینے لگ جائیں تو پچیس ڈی ایس این جی اوز آپ کی کوریج کے لیے کھڑی ہو جائیں گی، تین کم ستر برس کی عمر میں آپ دنیا سے اور کیا چاہتے ہیں؟

کل ملا کے موجودہ الیکشن میں ہر مین سٹریم لیڈر مایوسی اور جھنجھلاہٹ کی اس حالت میں ہے جو عمر کے اس بے یقین حصے میں ہم سب کا مقدر بھی بنے گی۔ کوئی دس پندرہ سال اور نکال لیں، جمہوری طریقوں کو راستہ دیں، اللہ بہتری کرے گا، نئے شگوفے کھلیں گے، پاکستان زندہ باد، جمہوریت پائندہ باد!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain