خان صاحب وزیر اعظم نہیں بن سکتے !


عمران خان وزیر اعظم نہیں بنے گا کیونکہ یہ میں نہیں کہتا خود خان صاحب کہ رہے ہیں کہ اگر اکثریت نہ ملی تو وہ اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور صرف خان صاحب ہی نہیں قرائن بھی یہی کہتے ہیں۔ کسی نے لکھا اتنا شفاف الیکشن ہے کہ سب کچھ پہلے ہی واضح ہے لیکن کہنے والے صرف الٹا دیکھ رہے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ خان صاحب اپنے ووٹر کو برگشتہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بوسہ و سجدہ کی بحث ہو یا طلاق و کتاب کے جھگڑے، پارٹی ٹکٹ کی بندر بانٹ ہو یا دھڑوں کی دھکم پیل، خان صاحب نے ” جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے” کے مصداق ڈانواں ڈول ووٹر کو بھگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ابھی الیکشن میں بہت دن ہیں اور مجھے یقین ہے دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ خان صاحب نے پولنگ کا ایک گھنٹہ تو آ گے بڑھا لیا لیکن تحریک انصاف کے ٹائیگرز اس خمار سے نہیں نکلے کہ وہ دودھ اور شہد کی نہریں بہانے چلے ہیں لہذا عوام جوق در جوق ووٹ دینےسر کے بل چلے آئیں گے اور صندوقوں میں سے پرچیاں تڑپ تڑپ کر کہیں گی “اج تے ہو گئی بلے بلے / کھبے، سجے، اتے ، تھلے” اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے ٹوٹ کر بہت سے لوگ تحریک انصاف کے ہمدرد بنے ہیں لیکن مقتدر حلقوں کی آشیرباد کا طعنہ خان صاحب کے گلے میں پڑا ہے جس کا احساس وسطی پنجاب میں رہنے والا نہیں کر سکتا لیکن وسطی پنجاب کا ووٹر (ماسوائے ان صاحبان کے جو سیاسی حرکیات سے بے بہرہ اور بغض نواز شریف کے مارے ہیں) سامنے نظر آنے والی ترقی دیکھتا ہے۔ میں پچھلے دنوں استور ( گلگت بلتستان) میں تھا اور سڑکوں کی بری حالت دیکھ کر کڑھتا رہا جبکہ ہنزہ میں سڑکوں کی وجہ سے تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ یہ ٹھیکیداری کا طعنہ دینے والے بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں کہ کرپشن ہمارے ہاں ایک غیرعلانیہ طور پر قبول شدہ روایت ہے۔ ہمیں تو ملین اور بلین کا فرق سمجھنے کےلئے ٹیوشن رکھنا پڑتی ہے۔ اپنے لیے بکری بچا کر قوم کا شیر مارنے والے لوگ ہیں ہم۔ کرپشن کے خلاف نعرے تو فیشن کے طور پر لگائے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں اپنا ظرف اور دوسروں کی کرپشن ہمیشہ بڑی ہی نظر آ تی ہے۔

خان صاحب نے پانچ سال اعداد و شمار اور گالم گلوچ میں ہی گزار دیئے۔ اچھا کرتے تو صرف بے روزگاری اور صنعت کے اٹھ جانے کو پکڑ لیتے جو کہ شریف خاندان کے گلے کی ہڈی بن جاتا لیکن آپ عدم توجہی کا عالم دیکھیں آ ج تک خود خان صاحب کو سی پیک کے مغربی اور مشرقی روٹ کی سمجھ نہیں آئی اور سی پیک پر ہی نواز شریف کھیل گیا ہے اور روزگار اب تک کاغذوں میں ہے یا چینیوں کے پاس ۔

جن لوگوں کو خان صاحب نے میدان میں اتارا ہے وہ پیسہ تو پانی کی طرح بہا سکتے ہیں لیکن عوام سے جڑت نہیں رکھتے۔ کم از کم لاہور میں ایسا کوئی امیدوار نہیں ہے سمیت خان صاحب کے گو کہ علیم خان، شفقت صاحب، ڈاکٹر یاسمین اور خود خان صاحب کو بہت فیوریٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ کراچی سے الیکشن کرنا خان صاحب کی ایک اور بہت بڑی غلطی ہے۔ یہ کسی کی سوچی سمجھی سکیم تو نہیں ہو سکتی البتہ کچے گوشت یا کسی کچے ذہن کا کمال ہو سکتا ہے۔ چھوٹا منھ اور بڑی بات لیکن مجھے خود خان صاحب لاہور اور کراجی میں رنر اپ نظر آ رہے ہیں۔

تیسری بات یہ کہ خان صاحب نے ایک بار نیوزی لینڈ کی ٹیم کے خلاف یہ کہ کر کھیلنے سے انکار کر دیا کہ وہ بی ٹیم ہے اور جاوید میانداد نے کپتانی کی۔ جب خان صاحب ٹیم میں واپس آئے تو یہ بحث چھڑ گئی کہ خان صاحب کو اب میانداد کی کپتانی میں کھیلنا چاہیے یا خود کپتانی کرنی چاہیے۔ خان صاحب نے یہ کہ کر سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ وہ میانداد کی کپتانی میں کھیلیں گے لیکن میانداد نے رضاکارانہ طور پر خان صاحب کے حق میں کپتانی چھوڑ دی۔ بلاول نہ تو میانداد ہے اور نہ ہی کسی صورت کپتانی کرنے کا موقع چھوڑے گا گو کہ پنجاب میں، جو کہ فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے حکومتیں بنانے اور گرانے میں، پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لینے والا ڈھونڈھے نہیں ملتا۔ ضمانتیں ضبط ہونے کی نوبت آ گئی ہے۔

سینیٹ کے الیکشن میں خان صاحب نے دیوار میں سے ہاتھ بڑھا کر زرداری صاحب کے ساتھ مصافحہ ضرور کیا ہے لیکن بادشاہ گری اور بادشاہ بننے کے لیے اور طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ گو کی سیاسی سمجھوتے کرنے خان صاحب کو بہت آ تے ہیں لیکن خان صاحب کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے اور وہ ہے وزارت عظمی۔ اگر خان صاحب وزیر اعظم نہیں بنتے تو پھر تحریک انصاف کے لیے ایسے ہی ہے کے “جب میکدہ چھوٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید/ مسجد ہو، مددسہ ہو یا کوئی خانقاہ ہو”۔ میری بھٹکی ہوئی اور ناقص چشم تصور میں خان صاحب پنجاب بھر میں اکیاون سے زیادہ سیٹیں نہیں لے سکتے۔ بائیس سیٹیں خیبر پختونخواہ سے لیں گے۔ سندھ اور بلوچستان میں شاید ہی کوئی سیٹ ملے۔ مسلم لیگ ن ظاہر ہے اپوزیشن میں ہو گی اور بہت طاقتور اپوزیشن ہو گی۔ خان صاحب کو خیرات میں دس سیٹیں قبائلی علاقوں ، بیس شہری سندھ اور چند آزادوں کی دی جائیں گی لیکن خان صاحب کی نسبت یہی پیکج زرداری صاحب زیادہ آ سانی سے قبول کر لیں گے اور پی ٹی آئی سے کم سیٹیں رکھتے ہوئے بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

خاکم بدہن ایک اور تکا یہ بھی ہے کہ شاید خان صاحب طاقت کے نشے میں چور اپنے مہربانوں کو آنکھیں دکھانے کی پاداش میں سیتا وائٹ کیس میں الٹرارائٹ قوتوں کے ہاتھوں اخلاقی طور پر نااہل ہو جائیں۔ ویسے تو چند ماہ پہلے حامد میر صاحب نے دور کی کوڑیاں لا کر خان صاحب کو سیتا وائٹ کیس میں کلین چٹ دے دی ہے۔ جب میڈیا، ترازو اور بازو ایک طرف ہوں تو سچ تو پھر ماننا ہی پڑتا ہے۔

پھر خان صاحب کو پارٹی کے اندر سے کسی بھی وقت بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ خان صاحب کا کرشمہ الیکشن تک ہی ہے اور اس کے بعد سیاسی سرمایہ کار کیک میں سے حصہ مانگنے آ جائیں گے اور کیک کم پڑ جائے گا۔ کیک کے بٹوارے میں خان صاحب کو احساس ہو جائے گا کہ بکرے اور کیک میں بڑا فرق ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).