پرنسپل کیڈٹ کالج مستونگ کی ریاستی تذلیل


محسن میرے وجود کو سنگسار کرتے وقت۔۔

شامل تھا سارا شہر ایک تہوار کی طرح

جہاں ذاتی خواہشات، پسند و ناپسند پر ریاستی معاملات چلائے جائیں، جہاں سرکاری دفاتر کے ٹیلی فون، سرکاری عہدے دار، اپنے ذاتی مفادات، انّا کی تسکین کی خاطر، یا پھر من پسند لوگوں، کاروباری شراکت داروں، ذاتی فائدہ دینے والوں، ہم پیالہ لوگوں، رشتہ داروں یا دوستوں کی خاطر، اپنے دفاتر اور عہدوں کو ذاتی جاگیر بنا کر جب عہدے دار استعمال کرنے لگیں، تو ایسے میں لوگ ریاست سے بدظن ہوجاتے ہیں نہ کہ کسی ادارے سے، کیونکہ ادارہ ریاست کی وجہ سے وجود رکھتا ہے، اور اختیارات بھی ریاست ہی نے عہدے کو تفویض کئے ہوتے ہیں نہ کہ تبدیل اور ریٹائر ہونے کے قابل شخص کو ۔

کبھی کبھار انسان انجانے میں کچھ ایسا کر بیٹھتا ہے جس پر اس کو از خود شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ وہ سوچے سمجھے اور حالات و واقعات سے آگاہی حاصل کیں بغیر کسی کی تذلیل کر بیٹھا ہے جس کا مداوا کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا ۔۔۔

میں ایک دوست کو ملنے گیا تو وہ کہنے لگے آئیے آپ ہی کا ذکر ہورہا ہے، ساتھ بیھٹے ہوئے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ان سے ملے یہ بھی آپ کے متاثرین میں ہیں، میں چونک گیا

پوچھا متاثرین؟

جی یہ سابق پرنسپل کیڈیٹ کالج مستونگ جاوید اقبال بنگش صاحب ہیں، میری اتفاقیہ ملاقات ندامت میں بدلنے لگی۔ سابق پرنسپل کیڈیٹ کالج مستونگ جاوید اقبال بنگش ملاقات میں گویا ہوئے۔ فرمانے لگے میں اپنا صوبہ، علاقہ چھوڑ کر آپ لوگوں کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے بلوچستان کی امن و امان سے مخدوش صورتحال کے شکار ضلع مستونگ میں اپنے خدمات دینے آیا، جہاں میں نے دن رات ایک کرکے بلوچستان کے بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر پڑھایا، سمجھ نہیں آتا ہے کہ مجھے سے خدمت میں کونسی غلطی ہوئی کہ آپ لوگ مجھ پر اس قدر غصہ ہیں؟ کوئی ایک شخص کرپشن ثابت کردے تو پھانسی چڑھنے کو تیار ہوں، مگر افسوس کہ کالج میں ہونے والے ایک واقعہ کے بعد آپ کے وسائل کو بچاتے ہوئے اتنے دشمن بنائے کہ جہنوں مجھے دیکھا بھی نہیں وہ بھی مخالف بن گیا ہے، ہر زور آور شخص نے سوشل میڈیا پر میرے کالج کے طلباء کی وائرل ہونے والی ویڈیو کو جواز بناکر مجھ سے اپنی ذاتی رنجشوں کا خوب بدلہ لیا، جو اس صوبے کے عوام کے ٹیکس کے پیسے کو بچانے اور اصول پسندی کی وجہ سے مجھے ناراض تھے۔ طلبا نے دوسرے طلباء پر تشدد کیا، مجھے سننے کو کوئی تیار نہیں ہورہا تھا- ایسا لگ رہا تھا کہ ویڈیو میں تشدد میں کر رہا ہوں۔ میری ایک نہ سنی گئی مجھے ایسا لگا کہ جیسے کیڈیٹ کالج میں بلوچستانیوں کی خدمت یا میری قومیت میرے لئے وبال جان بن گئی –

باتوں کے دوران آبدیدہ ہوگئے کہا کہ کالج میں سابق طلباء کو ایک دوسرے سے ملانے کے لئے تیس سال بعد انہوں نے گیٹ ٹو گیدر پارٹی منعقد کرائی جس میں اسی کالج کے سابق طلباء کو کالج کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک دوسرے سے واپس کالج بلا کر ملایا، اس روز ایک جج صاحب بھی تشریف لائے تھے مہمان تھے ہم نے مہمان داری کی، غلطی جو ہوئی وہ یہ کہ میں نے ان کے گن مینوں کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی، کیونکہ میں کالج کو تعلیم کا مرکز سمجھتا ہوں میرا اپنا خیال ہے کہ اسلحہ بردار لوگوں کے آنے سے میرے کالج کے طلبا پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، صرف اس سوچ کی وجہ سے یہ اقدام اٹھایا نہ کہ کسی کو نیچا دکھانے کے لئے۔ کالج کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انہوں نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور میری خوب تذلیل کی۔ کیا آپ مجھ بتا سکتے ہیں کہ مجھ سے کوئی ایسا جرم تو سرزد ہوا تھا جو ناقابل ضمانت تھا؟ پھر میرے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک کیوں؟ میری جیل میں ملاقات بند کی گئی تھی۔ مجھ سے کسی کو ملنے نہیں دیا جا رہا تھا ۔

اپنے آنسو پونچھتے ہوئے فرمانے لگے بخدا اپنے بچوں کا سامنا کرنے میں شرمندگی محسوس کررہا ہوں گویا ایسا جرم سرزد ہوا ہے کہ جو معاشرے میں کبھی نہیں ہوا ہے۔

میرے پاس پرنسپل کے سوالوں کے جوابات نہیں تھے، کیونکہ ریاستی اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے ان اداروں کو اپنی جاگیر سمجھ کر پرنسپل صاحب کی طرح میری بھی تذلیل کی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تذلیل کیا ہوتی ہے؟

خدارا ریاستی عہدوں کی آڑ میں ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر تذلیل بند کریں ورنہ کبھی کسی خود دار لوگ آپ ناراض ہوجائیں گے اور تب آپ کے پاس سوائے ندامت کے کچھ نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).