جیپ کا نشان: ”سمجھدار“ لوگوں کی پہچان


نوّے کی دہائی میں پنجابی فلموں کے معروف ہیرو سلطان راہی مرحوم کی ایک فلم “پجارو گروپ” بہت معروف ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پجارو کو دولت، طاقت اور اثرو رسوخ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ پجارو سے بھی زیادہ پرتعیش اور مہنگی گاڑیاں مارکیٹ میں آنے لگیں اور پجارو کا “ٹہکا” پہلے جیسا نہ رہا۔ مگر اب بھی ہمارے معاشرے میں جیپ کو دولت اور طاقت کی نشانی سمجھا جاتا ہے اور بااثر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد شاندار قسم کی جیپ کے استعمال کے ذریعے اپنی امارت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ مگرعام انتخابات کے قریب آتے ہی یکایک ایسی ہوا چلی ہے کہ جیپ دولت و ثروت کی بجائے “سمجھدار” لوگوں کا نشان بن کر سامنے آئی ہے۔

چوہدری نثار صاحب کو انتخابات کے لیے جیپ کا نشان کیا الاٹ ہوا کہ اس نشان کی طلب یک دم بڑھنے لگی۔ حسنِ اتفاق سے چوہدری نثار اور ضعیم قادری جیسے ناراض ن لیگیوں سے لے کر جنوبی پنجاب میں عین آخری وقت پر ن لیگ کی ٹکٹ واپس کر کے آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرنے والے امیدواروں تک کو جییپ کا نشان الاٹ ہوا۔ اس نشان کے حصول کے لیے امیدوار ایسے ٹوٹ کر پڑے کہ فیصل آباد کے ایک حلقے میں تو فیصلہ کرنے کے لیے ٹاس کا سہارا لینا پڑا۔ مگر یہ “پجارو گروپ” کا ذکر تو برسبیلِ تذکرہ ہی آ گیا۔ اس سے یہ معنی ہرگِز اخذ نہ کیے جائیں کہ آنے والے والے دنوں میں “پجارو گروپ” کی طرح کوئی “جیپ گروپ” نامی فلم پردہ سیمیں پر جلوہ افروز ہونے والی ہے۔ ہاں مگر یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ کسی بھی فلم کی کامیابی میں اداکاروں کی پرفارمنس کے ساتھ ہی ساتھ مضبوط اسکرپٹ اور ہدایت کار کا تجربہ اور مہارت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ایک تو انتخابات کے لیے نشانات کی الاٹمنٹ میں قباحت یہ ہے کہ کئی نشانات تو واضح ہوتے ہیں کہ جیسے “بلّا” ہے۔ دیکھنے ہی سے معلوم پڑ جاتا ہے کہ کرکٹ کا بلّا ہے۔ مگر چند نشانات ابہام پیدا کرنے والے ہوتے ہیں جن کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جیسے کہ اب جیپ کے نشان ہی کو لے لیجیے۔ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ یہ جوجیپ ہے آیا کسی سرکاری ادارے کی جیپ ہے یا کہ پرائیویٹ جیپ ہے۔ خیر ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ جیپ چاہے جو بھی ہو اس کا کام مسافروں کو دشوار گزار راستے عبور کرتے ہوئے منزلِ مقصود پر پہنچانا ہے۔ سمجھدار تھے وہ مسافر جو بغیر لیت و لعل کے جیپ پر سوار ہو گئے۔ اور جنہوں نے سستی سے کام لیا ان کے نصیب میں ٹانگے کی سواری ہی آئیں۔

ادھر خان صاحب نے درگاہِ بابا فرید پر حاضری کے موقع پر اظہارِ عقیدت کیا کِیا کہ ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ ہر ایک اپنے مذہبی مکتبہء فکر اور سیاسی وابستگی کے مطابق اس فعل کی موافقت یا مخالفت میں دلائل دینے کو کمربستہ ہے۔ ہمیں ذاتی طور پرخان صاحب کے اس عمل پر کوئی اعتراض نہیں۔ سجدہء تعظیمی کی حرمت کا معاملہ آغاز ہی سے اہلِ شرع اور اہلِ تصوّف کے مابین وجہء تنازع رہا ہے۔ مسئلہ دراصل اس ذہنی کیفیت کا ہے جس میں کہ خان صاحب مبتلا ہو چکے ہیں۔ جہاں پیری مریدی اور سیاست کے درمیان حد فاصل نہ رہے وہاں ایسے ہی عقل کو چکرا دینے والے معاملات ظہور پذیر ہوا کرتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ آکسفورڈ کی ڈگری بچپن سے دماغ میں پرورش پانے والے وراثتی عقائد کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کیا بعید ہے کہ خان صاحب اس جیپ کے نشان کو بابا صاحب کے دربار سے عطا کردہ تبرک مانتے ہوں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).