پاکستان تحریک انصاف کا رہنما جس نے اپنی بیوی کو ننگا کر کے بندوق سے پیٹا


پنجاب کے سابق گورنر اور وزیر اعلٰی مصطفے کھر پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبول ترین شخصیت رہ چکے ہیں جبکہ اپنے جاگیردارانہ مزاج کے باوجود ان کا سیاسی حلقہ قائم ہے۔ وہ اعلیٰ منتظم بھی مشہور رہے اور منتقم بھی، انکی تقریروں سے اخلاقیات اور عورتوں کی حرمت کی پاسداری کرنے کے لئے پھول بھی جھڑتے تھے مگر عورتوں کو اغوا کرکے انہیں گورنر ہاوس میں لاکر بے حرمت کرنے کے الزامات بھی ان پر لگتے رہے ہیں۔

شیر پنجاب کہلانے والے مصطفے کھر 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن لڑنے جا رہے ہیں تو ان کے بارے میں متعدد الزامات پھر سے منظر عام پر آ رہے ہیں۔ مصطفے کھر کے کردار کی سب سے بڑی گواہی ان کی سابقہ بیوی تہمینہ درانی نے اپنی کتاب مینڈھا سائیں لکھ کر دی تھی۔ وہ مصطفے کھر کی دو بچیوں کی ماں بھی تھیں مگر انہیں کھر نے ایسی ذلت سے دوچار کیا کہ کوئی خاندانی اور باوقا رمرد ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ تہمینہ درانی جو اب میاں شہباز شریف کی اہلیہ ہیں، انہوں نے کتاب میں کھر کا اصلی چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے ایسے شرمناک اور ہوشربا واقعات تحریر کئے تھے کہ کوئی اسکا تصور بھی نہیں کرسکتا کہ مصطفے کھر حقیقت میں اس کردار کا مالک ایسا سیاستدان ہے جو اپنی ہوس کا غلام تھا۔ تہمینہ درانی نے کھر پر الزام لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ کھر سے خاندان کی عورتوں کو بچانا مشکل ہوجاتا تھا جبکہ اس نے اپنی سالی اور تہمینہ کی بہن عدیلہ کو بھی پھانس لیاتھا جس کی وجہ سے اس کا گھر نہ صرف برباد ہوا بلکہ اس نے جب کھر کو اسکی اوچھی حرکتوں سے روکنے کی کوشش کی تو اسے ننگا کرکے بندوق سے پیٹ ڈالا تھا۔

تہمینہ درانی لکھتی ہیں کہ ”وہ (کھر) ہمیشہ زبانی وار وہاں کرتا جہاں وار کرنا غیر شریفانہ فعل ہے اور اس کی ایسی تمام باتیں جنسی اشاروں کنائیوں سے خالی نہ ہوتیں۔ کسی کو بخشا نہ جاتا۔ مائیں، بہنیں، بھائی، بچے، خالائیں، ممانیاِں وغیرہ سب اس کی رسوا کن باتوں کا نشانہ بنتیں۔ وہ کسی چیز کی تقدیس کا قائل نہ تھا۔ اس دن مصطفےٰ نچلی منزل میں ورزش کر رہا تھا۔ فون بجا۔ اس نے فون اٹھایا۔ میں نے بالائی منزل پر نصب ایکس ٹینشن سے کان لگا دیے۔ عدیلہ بول رہی تھی : ”کیا تمہیں مجھ سے پیار ہے؟ بولو! کیا تمہیں مجھ سے پیار ہے ؟ ”مصطفےٰ کی آواز مجھ تک پہنچی۔ “ اتنا زیادہ کہ تمہیں کبھی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا۔ “

میں کھڑی کی کھڑی رہ گئی، بت بنی ہوئی۔ جو شکوک تھے، جو بے یقینیاں تھیں، وہ سب آناً فاناً ناپید ہو گئیں۔ میں نے انہیں پکڑ لیا تھا۔ خاصی دیر بعد میں نیچے آئی۔ مجھ پر اب تک سکتے کا عالم تھا۔ اب میرے پاس اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ کانوں سنی پر یقین لے آﺅں۔ مجھے یوں لگا جیسے میں گندگی میں کھڑی ہوئی ہوں، برتی جا چکی ہوں۔ میں اب بھی اس سے دوبدو ہونے کے لیے خود کو تیار نہ پا رہی تھی۔ میں اب بھی کسی نہ کسی تنکے کا سہار لیے ہوئے تھی۔ کس تنکے کا ؟ میرے ذہن کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

فون دوبارہ بجا۔ مصطفےٰ نے کسی سے بات کی۔ فون کرنے والے سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے لیے پاسپورٹ کا بندوبست کر دے گا۔ مجھ پر لرزہ طاری ہو گیا۔

دوبارہ فون بجا۔ دائی عائشہ نے فون اٹھا۔ کہنے لگی کہ چوہدری حنیف صاحب ہیں اور فون مصطفےٰ کو تھما دیا۔ میں اوپر چلی گئی۔ ایکس ٹینشن اٹھا کر سننے لگی۔ دل کو پتھر کر لیا۔ اس بار بھی عدیلہ بات کر رہی تھی۔ میں تمہیں پاسپورٹ بنوا دوں گا۔ فکر مت کرو۔ یہ کام کروا کے رہوں گا۔ لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔ ”عدیلہ بضد تھی۔ “ جلدی سے بنوا دو۔ تمہارے بغیر ہونا میرے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ میں یہاں سے نکل جانا چاہتی ہوں ابھی میں تمہارے ساتھ نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنا چاہتی ہوں۔ ”صرف تمہارے ساتھ۔“ میں اب بھی کوئی رد عمل ظاہر نہ کر پا رہی تھی۔

اس سہ پہر ہم دونوں والدین کے ہاں گئے۔ غصے اور دکھ کی وجہ سے میرے اندر آگ بھڑک رہی تھی۔ اگر مصطفےٰ کو میری کیفیت کا احساس تھا تو اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ میں نے ایک گھریلو کانفرنس بلائی۔ امی اور عدیلہ کو لے کر امی کے بیڈ روم میں چلے گئی۔ میں نے امی سے کہا۔ ”مصطفےٰ نے مجھے عدیلہ کے بارے میں بتایا ہے کہ کس طرح یہ اس کے پیچھے لگی رہتی ہے۔ اسے تنگ کرتی ہے۔ وہ تنگ آ چکا ہے۔ عدیلہ میری شادی کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ میرے میاں سے پینگیں بڑھانے میں لگی ہوئی ہے۔ وہ اس سے پہلو بچا رہا ہے۔ اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ یہ سب عدیلہ کا قصور ہے۔ یہ میری بہن ہے۔ مصطفےٰ نے کہا ہے کہ آپ اپنی بیٹی کو قابو میں رکھیں۔ یہ لڑکی شائستگی کی تمام حدیں پھلانگ چکی ہے۔ “

عدیلہ نے میری کہانی کو درست ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ غصے تلملا اٹھی۔ مجھ سے کہنے لگی ” جو تہمت لگائی ہے اس کا کوئی ثبوث بھی پیش کیا جائے۔ مصطفےٰ صاحب یہ سب کبھی نہیں کہہ سکتے۔ ان سے بولو کہ یہاں آ کے میرے روبرو ان باتوں کا اقرار کریں۔ جب تک وہ نہ آئیں گے میں اپنی صفائی میں ایک حرف بھی نہیں کہوں گی۔ اس معاملے کا ان سے بھی تعلق ہے۔ آئیں اور سامنے آ کر مجھ سے بات کریں۔“ اسے پورا یقین تھا کہ میرے پاس چال چلنے کے لیے پتے ہیں ہی نہیں۔

امی نے اسے اخلاقیات پر ایک لیکچر دیا اور کہا کہ اپنی ان حرکتوں سے باز آ جائے۔ اگر اس کے والد کو پتہ چل گیا تو وہ اسے جان سے مار دیں گے۔ میں نے کہا کہ عدیلہ، میں پہلے ہی بہت سے مسائل میں گھری ہوئی ہوں۔ تم ہو کہ حالات کو اور بگاڑے جا رہی ہو۔ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو۔ ہم اپنی زندگی کے ایسے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ جو دشوار بھی ہے اور تذبذب آمیز بھی۔ ہم اکھڑے ہوئے لوگ ہیں۔ جلاوطنی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ تم ہماری زندگیوں کو عذاب بنانے پر کیوں تلی ہوئی ہو؟ میں بے بس ہو گئی ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ ”میں نے تو کچھ نہیں کیا۔ تم مصطفےٰ صاحب کو اندر کیوں نہیں بلا لیتیں ؟ ہاتھ کے ہاتھ پتہ چل جائے گا کہ معاملہ اصل میں ہے کیا۔ “ اس کا اعتماد دیدنی تھا۔ وہ سراپا یقین تھی۔ مجھے پسپا ہونا پڑا۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2