کیا ہمیں ہائر ایجوکیشن چاہئے؟


ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب کا پورا تعارف تھا محی الدین شمیم صدیقی ایم اے بی ٹی (علیگ) لیکن اسکول کے لڑکے کسی وجہ سے انہیں ’پوپٹ‘ کہہ کر یاد کرتے۔ خیر، کالم کا نکتہ آغاز اُن کا ’نِک نیم‘ نہیں، بلکہ دورانِ گفتگو لفظوں کا وہ زندہ اتار چڑھاؤ ہے، جس کی بدولت شمیم صاحب کی باتیں ہماری ذہنی سطح سے بلند تر ہوتے ہوئے بھی بے حد مزا دے جاتیں۔

ایک روز انگریزی کی کلاس میں انہوں نے کالج اور یونیورسٹی میں مختلف تعلیمی مدارج کے الگ الگ مقاصد اپنے الہ آبادی لہجے میں بیان کئے۔ کہنے لگے ’’ایف اے میں دیکھتے ہیں کہ ’انڈر اسٹینڈ ‘ کرتا ہے یا نہیں، بی اے میں دیکھتے ہیں ’ایکس پلین‘ کر پاتا ہے یا نہیں اور ایم اے میں دیکھتے ہیں ’کریٹی سائز‘ کر سکتا ہے یا نہیں ‘‘۔ پوچھا ’’اِس سے آگے؟‘‘ کہا ’’ریسرچ‘‘۔

ہمارے لئے یہ ایک بالکل نیا لفظ تھا۔

آپ پوچھیں گے کہ جس صورتِ حال کا اشارہ اوپر دیا گیا، اُس میں خوش ہونے کا کیا پہلو ہے۔ کوئی خاص پہلو نہیں، سوائے اِس کے کہ یہ جنرل مشرف کے وزیر تعلیم پروفیسر عطاالرحمان کے برپا کیے ہوئے سائنسی انقلاب سے بہت پہلے کی بات ہے۔ وہی سائنسی انقلاب جس نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کو وبائی مرض کی طرح پھیلا دیا اور جسے رفع کرنے کے لئے ایک نئی ’ڈینگی مکاؤ‘ تحریک کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

ہمارے کالج، یونیورسٹی کے مرحلے پر ایم اے یا ایم ایس سی تک پڑھے ہوئے لوگ ہی انڈر گریجویٹ طلبہ و طالبات کی تدریس پر مامور تھے اور کلاس روم لیکچر تدریسی تمدن کا مقبول،معتبر اور باوقار پیرایہ تھا۔ابھی پاور پوائنٹ اور ملٹی میڈیا جیسی بلائیں نازل نہیں ہوئی تھیں،اس لئے استاد بلیک بورڈ پر سفید چاک سے اہم نکات لکھ دیتا،جنہیں ہم کاپی پہ نوٹ کر لیتے۔

زندگی میں دیگر شعبوں کے ارتقا کی طرح تعلیم میں بھی سمیسٹر سسٹم کی بدولت اہلیت جانچنے کے لئے ’گریڈ پوائنٹ ایوریج‘ یا جی پی اے کا طے شدہ تصور آپ کی کارکردگی کا پیمانہ قرار دیا گیا ہے۔اِس کے جلو میں کئی اور جدتیں بھی ہیں۔جیسے نجی یونیورسٹی ہو یا سرکاری، آپ کے جی پی اے کا دارومدار محض مڈ ٹرم اور فائنل ٹرم کے تحریری ٹیسٹ پہ نہیں۔ کورس کے دوران کی گئیں چھوٹی موٹی اسائنمنٹس، انفرادی یا گروپ ورک پر مبنی پراجیکٹ اور بسا اوقات اچانک سپاٹ ٹیسٹ یا کوئز بھی اپنی اہمیت ہے۔

بعض استاد سمیسٹر کے دوران پریزنٹیشن ضرور لیتے ہیں، جس میں ظاہری شکل صورت، لباس اور سوشی ایبل رویے بنیادی متن پہ سایہ فگن رہتے ہیں۔ نئے تدریسی تمدن کا ایک شاخسانہ کلاس پارٹیسی پیشن بھی ہے، جس میں زور ہے پر اعتماد گفتگو پر، لیکن دلائل کے درست، برمحل اور باہم مربوط ہونے کی شرط نہیں۔

ایک اور تبدیلی ڈگریوں کی قدر و قیمت کا زیر و بم ہے۔ ہمارے دور میں تو ہر سولہ جماعت پاس یا سیکنڈ ڈویژن ایم اے لیکچرار کے عہدے کے لئے در خواست دے سکتا تھا۔

اب چار سالہ آنرز ڈگری میں ’اے ‘ یا ’اے مائینس ‘ لینے والے نوعمر مرد و خواتین مزید دو سال لگا کر ایم فل کی ڈگری حاصل کرتے ہیں اور پھر لیکچرار سے پہلے کالج ٹیچنگ انٹرن بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔

یہ کالج ٹیچنگ انٹرن یا سی ٹی آئی ہے کیا چیز ؟ اب یہ آپ کے جنرل نالج کا امتحان ہے، جس میں پاس فیل کا دارومدار اِس پہ ہے کہ آپ نے ریلوے ورکشاپ کے چارج مین دیکھے ہیں یا نہیں۔ اِن سے ذرا اوپر کلاس ٹو گزیٹڈ کا زمرہ تھا، اِسی لئے جب مذکورہ عہدے پہ فائز ایک شخص سے اُس کے دوست نے پوچھا کہ چارج مین ہوتا کیا ہے تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔۔۔ اور پھر اتنا کہا ’’چارج مین۔۔۔چارج مین بھی ایک قسم کا افسر ہوتا ہے‘‘۔

یہ کہانی سنا کر اب آتا ہوں اِس جانب کہ ایک نامور سائنس دان اور اپنے وقت کے انقلابی وزیر تعلیم نے اعلیٰ درس گاہوں میں جن دُور رس تبدیلیوں کی کوشش کی اُن کا ماحصل کیا ہے۔ آج کل ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹیوں کی ریٹنگ نکالنے کے لئے چند جہتیں مقرر کر رکھی ہیں وہ ٹی وی چینلوں کی ریٹنگ کی طرح کیفیتی کی بجائے مقداری نوعیت کی ہیں۔ کیفیتی تبدیلی ماپنے کے لئے تو سب سے پہلے یہی دیکھنا پڑے گا کہ نئی صورتحال نے کِس معیار کی ہیومن پراڈکٹ پیدا کی۔

ہماری بے سمتی کا حال یہ ہے کہ براڈ کاسٹ جرنلزم کا استاد اور ایک برطانوی نام والی یونیورسٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کا ممبر ہو کر بھی مجھے دو کلیدی نکات کا جواب نہیں مل سکا۔ اول، کیا نشریاتی صحافت ایک اطلاقی علم ہے یا سوشل سائنس؟ دویم، اردو نیوز چینلز والے ملک میں خبروں کی تھیوری اور پریکٹس صرف انگریزی زبان میں کیوں پڑھاؤں؟

یہ تو ہوئی یونیورسٹی سطح کے محض ایک مخصوص مضمون کی بات۔ لیکن ہماری پوسٹ گریجویٹ تعلیم کی مجموعی صورتحال کیسی ہے اور کیا اسی سبب کل کا لیکچرار آج کا سی ٹی آئی تو نہیں بن گیا؟ یہاں ذاتی رائے کی بجائے اُس حالیہ مراسلے کا اقتباس پیش کرنے کی جرأت کروں گا، جو ماضی کے لاٹ صاحب اور موجودہ گورنر پنجاب کی طرف سے صوبے کی ہر نجی اور سرکاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا ریکٹر کے نام جاری ہوا۔ یہ مراسلہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کے اُس خط کا جواب ہے، جس میں انہوں نے اسٹنٹ پروفیسر اور لیکچرار کے انٹرویوز کے بارے میں اپنے مشاہدات درج کئے تھے۔ انہیں پڑھتے ہوئے آدمی غور کرنے لگتا ہے کہ آیا ہمارا مسئلہ اعلیٰ تعلیم سے جڑا ہوا ہے یا اِس کے پیچھے ہماری سطحِ خواندگی کا وہ معیار ہے،جو نوجوانوں کو کالج، یونیورسٹی کی بامعنی تعلیم کے لئے تیار نہیں کر سکا۔

گورنر کے مراسلے میں چیئرمین پبلک سروس کی شکایت اِن الفاظ میں دہرائی گئی ہے : ’’ماسٹرز اور ایم فل کے متعلقہ مضامین کے حوالے سے امیدواروں کی تفہیم پست نوعیت کی ہے۔

مثال کے طور پر ایم فل کی ڈگری رکھنے والے بعض امیدوار کمیشن کے انٹرویو میں اپنے تھیسس کا دفاع یا اُس تحریری متن کی وضاحت نہ کر سکے، جس کی بنیاد پہ انہوں نے ڈگری حاصل کی‘‘۔

چیئرمین کا اگلا انکشاف انتہائی روح فرسا ہے : ’’یہ بھی پتا چلا ہے کہ الگ الگ موضوعات پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالے مُلک بھر میں مختلف اکیڈمیوں سے خریدے جا سکتے ہیں‘‘۔

چنانچہ گورنر کے مراسلے کے مطابق ’’مجاز اتھارٹی کی ہدایت ہے کہ پنجاب کی تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں ڈگری فروشی کے اِس ناپسندیدہ دھندے سے باخبر رہیں اور اِس کی روک تھام کے لئے متعلقہ محکموں کی مشاورت سے مناسب اقدامات کریں‘‘۔

یہ مناسب اقدامات کیا ہونے چاہئیں؟ مجھے تو اِس کی کچھ سمجھ نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہدایت دینے، ہدایت لینے اور ہدایت سینے والوں (جیسے مرغی انڈے سیتی ہے، اُن معنوں میں) سب کی حالت مجھ سے بھی بدتر ہو۔ ممتاز ماہرِ طبیعات اور مرضی کا مالک ’کھڑپیچا‘ دانشور، پروفیسر پرویز ہود بھائی ہمارے دو نمبر تحقیق دانوں کی طبیعت وقفے وقفے سے صاف کرتا رہتا ہے۔

نومبر2015ء کے ایک اخباری مضمون میں انہوں نے عالمی شہرت رکھنے والے فزسسٹ فری مین ڈائسن کا یہ کہہ کر ذکر کیا تھا کہ اُن کے کھانے کی تحریری دعوت کے جواب میں پرویز ہودبھائی نے انہیں صرف فری مین کہہ کر مخاطب کیا۔ ایک تو اِس لئے کہ ماہرین طبیعات کی باہمی بے تکلفی کی روایت یہی ہے۔ دوسرے یہ کہ پرنسٹن یونیورسٹی کا یہ عظیم پروفیسر ڈاکٹر تھا ہی نہیں۔ اُس نے زندگی بھر پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت نہ سمجھی۔

’تے بھرا جی، فیر کریئے کیہہ؟‘‘ جو کرنا چاہئے وہ بتاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ وہ یوں کہ پاکستانی حساب سے اعلیٰ تعلیم یافتہ مگر محدود عملی بصیرت کے حامل اِس پینسٹھ سالہ کالم نویس کا مشورہ عام ڈگر سے ہٹ کر ہوگا جس پر، ممکن ہے کہ اُسے ُپینڈو اردو میڈیم‘ ہونے کا طعنہ بھی سننا پڑا۔ تو، جناب، مسئلے کا حل اعلی تعلیم میں نہیں، بلکہ لٹریسی یا خواندگی کا معیار ایک خاص مطلوبہ سطح تک لے جانے میں پوشیدہ ہے۔

تیرِ الزام یا سنگِ دشنام کا رخ ابھی میری طرف نہ کریں، بس اتنا سُن لیں کہ عام انسان کے لئے دُنیا ابھی اتنی تبدیل نہیں ہوئی جتنا چرچا ہو رہا ہے۔ لہٰذا ہر بچے کو اعلی ثانوی درجہ تک پڑھنے کا موقع دیں اور یونیورسٹی میں صرف ’کھڑپیچے‘ جائیں۔

البتہ پرائمری میں انگریزی اور کمپیوٹر سائنس کے اضافے کے ساتھ وہی مضامین ہوں جو پچاس سال پہلے تھے۔ ہاں، ٹیم سپورٹس روزِ اول سے لازمی کر دیں، خدا کی قسم قوم بن جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).