بجلی کا کنڈا سٹی ڈسٹرکٹ ڈالے اور جرمانہ شہری بھریں



عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پولیس والے کسی کو پکڑ لیں تو اس شخص کو چور، ڈاکو یا دہشت گرد ثابت کرنا ان کے لئے بڑا آسان ہوتا ہے مگر ہاے ری قسمت انسان گھر میں بیٹھے سیدھی اور صاف زندگی گزارے اور پھر بھی چور کہلاے تو اسے کیا کہیں گے، قسمت کی ستم ظریفی یا محکمہ الیکڑسٹی کی مہربانی۔ خیر ہم بھی نجانے کس کا غصہ کس پر نکالنے بیٹھ گئی۔ کیا کریں اگر آپ اضافی آنے وا لے بل کو کے ای ایس سی کے محکمے لے کر جائیں اور چار لوگوں کے سامنے آپ کو کہا جائے کہ آپ چور ہیں اس لئے سزا کے طور پر آپ پہ یہ چارج لگایا گیا ہے۔
لفظ ’چور‘ پر پہلے ہمیں شرمندگی پھر فوراً غصہ آیا کہ زندگی میں کبھی چوّنی چوری نہیں کی کجا بجلی چوری؟ َ ہم نے طیش میں آ کر پوچھا ’ کیا مطلب ہے آ پ کا ہمیں کیا ضرورت ہے بجلی چوری کرنے کی۔ اس پر وہ صاحب بڑے اطمینان سے بولے بی بی ’کنڈا ڈالا ہے آپ لوگوں نے‘ اور حیرت کے مارے ہماری آنکھیں پھیل گیء۔ بچپن سے لفظ ’کنڈا‘ سنتے آئے ہیں امی جب بھی گھر سے باہر جاتیں تھیں تو ہمیں نصیحت کرتی تھیں بیٹا دروازے کا کنڈا صحیح سے لگا لو یا اس الماری کا کنڈا خراب ہو گیا ہے پھر زمانے کی لغت بدلی اور کنڈا بجلی چوری کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ہمیں یاد ہے ہم اندھیرے میں بیٹھے ہوتے اور ان گھروں کو حسرت سے دیکھتے جہاں ’ کنڈے‘ کی بدولت لوگوں گھر روشن ہوتے۔ دبے لفظوں میں ابو سے کہتے تو یہی جواب ملتا ’چوری تو بیٹا چوری ہے خواہ روپوں کی ہو یا بجلی کی‘۔ اور اب نہ چرانے پر چور بن گئے۔ مگر ہم بھی کہاں باز رہنے والے تھے؟ منیجر صاحب نے کنڈے کا ذکر کیا اور ہم چارج ہو گئے۔ بچپن کا تمام غصہ ہم نے ان پر نکالا اور انہیں یہ بھی باور کرا دیا کہ اگر ہمارے پول میں کوئی کنڈا ہے بھی تو وہ آپ کے محکمے کے کسی بندے نے ڈالا ہے۔

منیجر صاحب یا تو ڈھیٹ تھے یا اس طرح کی باتیں سنتے وقت وہ کان سے دماغ اور دل کا رابطہ ہی بند کر لیتے ہیں جبھی بڑے اطمینان سے انہوں نے بل کی انسٹالمینٹ کا مشورہ دیا اور ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ جب آپ کے دو ہزار بقایا رہ جائیں گے تو کے الیکٹرک کی ٹیم آپ کے گھر آئے گی اگر پھر بھی کنڈا نکلا تو دوبارہ آپ پر چارجز لگیں گیں جو موجودہ بل سے بھی زیادہ ہوں گے۔ خیر مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق درخواست لے کر اس ادارے میں گئی۔ ان صاحب نے بڑی بے مروتی سے کہا کہ کنڈا آپ کو خود نکلوانا پڑے گا ادارے کا کام صرف چیک کرنا ہے یعنی کنڈا تلاش کرنا ہے۔

ہمیں لگا ہم نقار خانے میں ہیں اس لئے اپنی آواز دبائی اور گھر آگئے۔ بھاگ دوڑ کر کے کنڈا نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمیں یہ بے چینی تھی کہ پتا چلے کہ کنڈا ہے کہاں اور پتا یہ چلا کہ کچھ عرصہ پہلے سٹی ڈسٹرکٹ نے پوری گلی میں ہیوی بلب لگائے تھے ہمیں یاد ہے کہ ہم گلی دیکھ کے بہت خوش ہوئے تھے ان کی محنت کو بھی داد دی تھی جو آج بڑی مہنگی پڑی۔ یہ بات کے الیکٹرک کا محکمہ بھی جانتا ہے مگر شامت ایک عام آدمی کی آئی جس نے زندگی بھر رزق حلال کھایا اور رزق حلال کمایا۔ ایسے وقت میں کیا یہ زیادتی نہیں کہ آپ بغیر کسی تحقیق کے سارا الزام ایک بے گناہ پہ لگا کے اس سے موٹی رقم وصول حاصل کریں۔ ان حالات میں یہ دعا کی جاسکتی ہے کہ یا اللہ ہمیں ان ناگہانی آفتوں سے بچا آمین۔

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).