معرکے میں چھتیس جرمن سنائپرز کو مار ڈالنے والی گھوسٹ سنائپر


اس کا نام لیودمیلاپاؤلی شنکو تھا۔ وہ 1916ء کو یوکرائن میں پیدا ہوئی۔ بچپن میں وہ ایک شرمیلی اور خوفزدہ سی بچی ہوا کرتی تھی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی اس وقت یہ بات نہ تھی کہ یہ دھان پان سی اور الگ تھلگ رہنے والی لڑکی مستقبل میں ایک مضبوط ترین عورت بن کر اُبھرے گی۔ یہی خوفزدہ سی لڑکی جوں جوں جوان ہوتی گئی زمانے سے آزمائی اور انسانوں سے پہچان بھی ہوتی گئی۔ رفتہ رفتہ اس نے اپنے خوف کو طاقت اور تنہائی کو توانائی میں تبدیل کرنا شروع کیا۔ 1930ء کے عشرے میں وہ(کیف) یونیورسٹی میں تاریخ کی طالبہ تھی۔ تو پوری یونیورسٹی میں وہ ایک خود سر لیکن عملیت پسند لڑکی کے طور پر مشہور ہوگئی تھی۔

اس کا ایک ساتھی بہت اچھا شوٹر تھا، اور وہ ہر وقت اپنی شوٹنگ کی تعریف کرتا رہتا تھا۔ ایک دِن تنگ آکر اس نے کہا کہ اگر میں نے شوٹنگ شروع کردی تو تم کیا تاریخ یاد رکھے گی۔ ساتھی نے پاؤلی شنکو کا مذاق اُڑایا تو اس نے دوسرے دِن ایک شوٹنگ کلب میں داخلہ لیا۔ وہ تاریخ پڑھتی اور شوٹنگ سیکھتی رہی۔

اس دوران دوسری جنگِ عظیم شروع ہوگئی۔ جس میں پاؤلی شنکو کا ملک روس ایک اہم پارٹنر کی حیثیت سے شریک تھا ایک دِن جرمن طیاروں نے اسی یونیورسٹی پر شدید بمباری کی، میں لیودمیلا پاؤلی شنکو زیرِ تعلیم تھی۔ اس نے اسی دن فوجی ہیڈ کوارٹر جا کر اپنے شوٹنگ میڈلز دکھائے، اور فوج میں شامل ہونے کی درخواست کی جسے فورًا قبول کر لیا گیا کیونکہ اس وقت روسی فوج کو آفرادی قوّت کی اشّد ضرورت تھی۔

ایک مختصر سی ٹریننگ کے بعد پاؤلی شنکو کو محاذِ جنگ پر بھیج دیا گیا، جہاں وہ دُشمن فوج(جرمنی ) کے خلاف ایک خوف ناک سنائپر کی حیثیت سے سامنے آتی گئی۔ اس کی بندوق سے نکلی ہوئی گولیوں اور سامنے پڑی ہوئی لاشوں کی تعداد ہمیشہ یکساں ہوتی۔

اسی دوران محاذِ جنگ پر ہی اس نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ شادی کرکے دُشمن کو اپنے اعصاب کی مضبوطی کا پیغام بھی دے دیا، اور اسی دوران وہ اپنے شوہر (جو خود بھی ایک سنائپر تھا) کے ساتھ محاذِ جنگ پر لڑتی رہی، پاؤلی شنکو کا نشانہ اور داؤپیچ اتنے خطرناک تھے کہ کے ساتھی سپاہیوں کی قلیل تعداد کے باوجود بھی اس نے دُشمن فوج کا دم خم نکال کر رکھ دیا تھا۔ اس کی ہیبت اتنی تھی کہ جرمن فوج اسے گھوسٹ سنائپر کہنے لگے، کیونکہ وہ اچانک اور غیر متوقع طور پر نمودار ہوتی اور دُشمن فوج کی لاشیں بچھاکر غائب ہوجاتی۔

اس کی دہشت بہت بڑھی تو جرمن کمانڈروں نے ایک میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ فوج کے بہترین سنائپرز (نشانہ باز) کو بلا کر پاؤلی شنکو کو ہر حال میں ختم کیا جائے۔ اس منصوبے کے تحت چھتیس بہترین جرمن سنائپرز کا انتخاب ہوا۔ جنہوں نے کافی تگ ودود کے بعد اس دلیر خاتون (سپاہی) کو نرغے لے لیا، چند لمحوں بعد اس کا شوہر اور ساتھی اس کے سامنے مارے گئے، لیکن اس نے اپنے اعصاب پر قابُو رکھا اور پھسلتی ہوئی ایک چٹان کی آوٹ میں پہنچ گئی تمام سنائپرز اسے زندہ یا مردہ تلاش کرتے رہے اور وہ چٹان کی آڑ لے کر بندوق لوڈ کرتی اور حملے کا منصوبہ بناتی رہی، اس دوران کئی گھنٹے گزر گئے، لیکن وہ وقت کا فائدہ لے چکی تھی۔

اس کی بندوق بھی تیار تھی اور حملے کا منصوبہ بھی، وہ اچانک چٹان کی آوٹ سے نمودار ہوئی اور حملہ کردیا۔ یہ انسانی تاریخ کی منفرد اور خوفناک لڑائی تھی۔ جس میں ایک طرف جرمن فوج کے لگ بھگ تین درجن خطرناک سنائپرز تھے، اور دوسری طرف ایک خوش شکل لیکن بہادر لڑکی، دونوں اطراف سے گولیوں کی بارش برستی رہی کافی دیر بعد یہ ”بارش“ تھم گئی تو لڑنے والے کل سینتیس سنائپرز میں سے چھتیس کی لاشیں پڑی تھیں جبکہ ایک سنائپر زندہ بھی تھا اور سلامت بھی اور اس کا نام تھا لیود میلا پاؤلی شنکو۔

اس کا جنگی ریکارڈ بتاتا ہے کہ اس نے بحیثیت مجموعی تین سو سے زائد فوجی مارے ایک موقع پر اس نے پچھتر دن کے اندر دو سو کے قریب دُشمن فوجیوں کو نشانہ بنایا۔ اسے دُنیا کے پانچ بہترین سنائپرز میں سے ایک ما نا جا تا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم اختتام کو پہنچی تو وہ ایک مشہور سنائپر انسٹرکٹر بن کر سپاہیوں کی تربیت کرنے لگی۔ اس وقت کے امریکی صدر روزویلٹ کی بیوی ایلینا روزویلٹ میلا پاؤلی شنکو کی بہت بڑی مداح تھی اس لئے اسے امریکہ کے دورے کی دعوت دی ایلینا روز ویلٹ نے 43 شہروں میں ٹورز ارینجکیے۔ جہاں لیود میلا پاؤلی شنکو نے جنگ پر لیکچر دیے۔ امریکی عوام نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ مختلف تنظیموں نے اسے دعوت دی اور اس کی بہت پزیرائی کی لیکن ایک موقع پر امریکی میڈیا نے اس کے ڈریسز اور میک اپ کا مذاق اُڑایا، تو لیود میلا پاؤلی شنکو نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں ایک فوجی سپاہی ہوں اور فوج میں آپ کا کام دیکھا جاتا ہے، میک اپ اور کپڑے نہیں۔

امریکہ سے واپس آئی تو اپنے آبائی قصبے میں گمنام ریٹائر زندگی گزارنے لگی۔ 27 اکتوبر1976ء کی ایک سرد شام کو تاریخ کی اس بہادر ترین خاتون نے اپنی شاندار زندگی کی آخری سانس لی

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).